اہم ترین خبریںپاکستان کی اہم خبریں

بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی 74 ویں برسی عقیدت واحترام سے منائی جارہی ہے

ائداعظم تحریک پاکستان میں اس قدر منہمک تھے کہ اپنی صحت پر دھیان نا دیا تاریخ کہتی ہے کہ اگر اپریل 1947 تک بھی ماؤنٹ بیٹن، جواہر لال نہرو یا مہاتما گاندھی میں سے کسی کو بھی اس غیر معمولی راز کا علم ہو جاتا تو شاید ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا۔

بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح دنیا کی تاریخ میں واحد رہنما جنہوں نے بغیر قید و بند کی صعوبتوں کے صرف عوامی جدوجہد اور قانونی لڑائی کے زریعہ پورا ملک حاصل کرلیا، لیکن مسلمانوں کے لیے ایک آزاد وطن کی جدوجہد میں اپنی صحت کا خیال نا رکھا اور آزادی کے صرف ایک برس بعد اس قوم کو یتیم کرگئے۔

برطانوی راج کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں 936ء/1937ء میں برصغیر میں جو پہلے عام انتخابات ہوئے ان میں مسلم لیگ کو بری طرح سے شکست ہوئی اور مسلم لیگی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ گئے، یہ ہی وہ وقت تھا جب قائداعظم پر انکشاف ہوا کہ تپ دق کا مرض ان پر شدت سے حملہ آور ہوچکا ہے۔

بمبئی کے مشہور طبیب ڈاکٹر جے اے ایل پٹیل قائداعظم کی بیماری سے واقف تھے لیکن قائداعظم نے اس وقت مسلمانوں کی شکستہ حالت دیکھتے ہوئے اسے راز ہی رکھا اور اپنے معالج سے بھی اسے راز رکھنے کی درخواست کی۔

قائداعظم تحریک پاکستان میں اس قدر منہمک تھے کہ اپنی صحت پر دھیان نا دیا تاریخ کہتی ہے کہ اگر اپریل 1947 تک بھی ماؤنٹ بیٹن، جواہر لال نہرو یا مہاتما گاندھی میں سے کسی کو بھی اس غیر معمولی راز کا علم ہو جاتا تو شاید ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا۔

قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کی طبیعت بہت زیادہ خراب رہنے لگی اور انہوں نے آرام کی غرض سے پہلے کوئٹہ اور پھر زیارت منتقل ہونے کافیصلہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: طاقت کے زور پر دوسروں کے عقائد یا مذہب پر حملہ کرنا قائداعظم کے فرمودات کی نفی ہے،علامہ راجہ ناصرعباس

قائداعظم نے چودہ اگست کو پہلا جشن آزادی کوئٹہ میں منایا، طبیعت بہت زیادہ بگڑنے پر گیارہ ستمبر 1948 کو انہیں ان کے وائی کنگ طیارے کے زریعہ کراچی پہنچایا گیا، مسرور بیس سے چار میل کا فاصلہ طے کرکے قائداعظم کی ایمبولینس کا پیٹرول ختم ہوگیا، ڈیڑھ گھنٹے بعد ریڈکراس کی ایمبولینس کا انتظام ہوا اورمسرور بیس سے گورنر جنرل ہاؤس تک نو میل کا فاصلہ دوگھنٹے میں طے ہوا، گورنر جنرل ہاؤس پہنچنے کے بعد قائد اعظم فقط چند گھنٹے ہی زندہ رہے اور گیارہ ستمبرکی شام وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

محترمہ فاطمہ جناح کی خواہش پر مولانا انیس الحسنین رضوی نے خوجہ اثنا عشری جماعت کے صدر سیٹھ رحیم چھاگلہ اوردیگر کے ساتھ گورنر جنرل ہاؤس میں قائد اعظم کو غسل وکفن دیا اوران کے کمرے میں ہی نماز جنازہ پڑھائی جس میں کراچی کے ایڈمنسٹریٹر ہاشم رضا، کراچی کے آئی جی سید کاظم رضا، وزیراعلیٰ سندھ یوسف ہارون اور دیگرشریک تھے۔

بعد میں میت کو فوجی گاڑی پر مقام تدفین پہنچایا گیا جہاں لاکھوں لوگوں نے علامہ شبیر احمد عثمانی کی قیادت میں دوبارہ نماز جنازہ ادا کی اور نماز کے بعد مولوی سید غلام علی احسن مشہدی اکبر آبادی نے تلقین پڑھائی۔

قائداعظم محمد علی جناح کو گزرے بہتر برس ہوچکے لیکن آج بھی عوام و خواص قائداعظم سے اس ہی طرح اظہار عقیدت و محبت کرتے ہیں جیسے ان ہی کے دور میں جی رہے ہوں، یہ پیارا وطن ہم پر ان کا قرض ہے جو ہم اس وطن کی حفاظت اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرکے ہی چکا سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button