اہم ترین خبریںمقالہ جات

چھنولال دلگیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اردو مرثیہ نگاری اور ہندوؤں کا اظہار عقیدت

گھبرائے کی زینب س" لکھنے والا یہ ہندو شاعر سترہویں اٹھارہویں صدی میں انتقال کرچکا۔ ہم اس وقت اکیسویں صدی میں موجود ہیں

شیعیت نیوز: بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ یہاں واقعہ کربلا کی یاد میں چار سو سے زائد مرثیے لکھنے والے ہندو شاعر چھنولال دلگیر نے شام غریباں کے منظر کو تصور کرتے ہوئے ایک سلام لکھا جو اس خطے میں منعقد ہونے والی ہر مجلس شام غریباں کا لازمی جزو بن گیا۔ لکھنو میں یہ کلام ہمیشہ پڑھا جاتا تھا لیکن پچاس کی دہائی میں مرحوم ناصر جہاں نے اس کلام کو مختلف طرز سے پڑھ کر اسے ہمیشہ کیلئے مجلس شام غریباں سے منسوب کردیا۔

گھبرائے گی زینب ع ”
بھیا تمہیں گھر جا کے کہاں پائے گی زینب ع
گھبرائے گی زینب ع ”

چھنولال دلگیر کے بڑے بھائی امام حسین علیہ السلام سے بہت عقیدت رکھتے تھے اور اسی محبت کی بنیاد پر انہوں نے ایک امام بارگاہ بھی تعمیر کروا رکھی تھی۔ چھنو لال دلگیر، جو غزل کہا کرتے تھے، نے اپنے بھائی سے متاثر ہوکر واقعہ کربلا کا تفصیلی مطالعہ کیا اور امام حسین علیہ السلام کی محبت میں یوں سرشار ہوئے کہ خود کو ہمیشہ کیلئے مرثیہ نگاری کیلئے وقف کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: عزاداری سید الشہداء کسی مکتب اور مسلک کے خلاف نہیں بلکہ یزیدیت اور ظلم کے خلاف صدائے احتجاج ہے،علامہ ساجدنقوی

بعض لوگوں نے مرزا دبیر کوچھنولال دلگیر کا شاگرد کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ اگرچہ میں ان کا شاگرد نہیں لیکن اگر ہوتا تو میرے لیے یہ باعث اعزاز ہوتا کہ میں ان کا شاگرد ہوں۔

میں بچپن میں اپنی نانی مرحومہ کے ساتھ علی الصبح ڈاکٹر ریاض علی شاہ کی امام بارگاہ عطیہ اہلیبیت علیھم السلام جایا کرتا تھا۔ انہیں مجلس میں پہنچنے کی اتنی جلدی ہوتی تھی کہ وہ مجلس شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے ہی امام بارگاہ پہنچ جاتی تھیں۔ اس وقت ایک صاحب ٹیپ ریکارڈ کو مائیک کے سامنے رکھ کر مختلف سوز و سلام کی ریکارڈنگ پلے کررہے ہوتے تھے۔ سچے بھائی، عزت لکھنوی کے سلام و نوحوں کے علاوہ جو سلام روز سننے کو ملتا تھا وہ ناصر جہاں کی آواز میں "گھبرائے کی زینب س” تھا۔ نانی روز یہ سلام سنتی تھیں اور روز دوپٹے کا پلو آنکھوں پر رکھ کر روتی تھیں۔ میں حیران ہوتا تھا کہ نانی ایک ہی سلام سن کر روز کیوں روتی ہیں۔

ایک عرصے تک مجھے معلوم بھی نہ تھا کہ یہ کلام ایک ہندو شاعر نے لکھا ہے۔ آج نانی تو موجود نہیں ہیں لیکن مجھے یہ وجہ سمجھ آچکی ہے کہ وہ یہ کلام محرم کے دس دن ہر روز سن کر کیوں روتی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور، اہلسنت بھائیوں نے محرم الحرام میں عزاداروں کیلیے لنگر اور سبیلیں لگانے کا اعلان کردیا

"گھبرائے کی زینب س” لکھنے والا یہ ہندو شاعر سترہویں اٹھارہویں صدی میں انتقال کرچکا۔ ہم اس وقت اکیسویں صدی میں موجود ہیں۔ میں اس اکیسویں صدی کے چند یا شاید بہت سے مسلمانوں کو چھنولال دلگیر کا نام،اس کا کلام اور اس کی امام حسین علیہ السلام سے محبت یاد دلا کر شرم دلانا چاہتا ہوں۔ وہ ہندو تھا مگر جانتا تھا کہ شام غریباں میں "گھبرائے گی زینب س”، لعنت 61 ھجری کے یزیدی مسلمانوں پر جنہوں نے مولا حسین علیہ السلام کو قتل کیا اور صد حیف آج کے ان مسلمانوں پر جو ایک ہندو چھنو لال دلگیر کی طرح یہ تک نہ سمجھ سکے کہ:

پھٹ جائے گا بس دیکھتے ہی گھر کو کلیجہ،
یاد آؤ گے بھیا
دِل ڈھونڈے گا تُم کو تو کہاں پائے گی زینب س
گھبرائے گی زینب

لبیک یا حسین ع، لبیک یا زینب س

تحریر: نوردرویش

متعلقہ مضامین

Back to top button