اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

علامہ حسن ترابی شہید ایک ناقابل فراموش کردار

علامہ حسن ترابی شہید ایک ناقابل فراموش کردار

علامہ حسن ترابی شہید ایک ناقابل فراموش کردار… پاکستان کی سیاسی و مذہبی تاریخ اور خاص طور پر تشیع کی تاریخ میں علامہ حسن ترابی کئی حوالوں سے ایک منفرد کردار رہے۔ اور اسی منفرد کردار نے انہیں تاریخ کا ایک ناقابل فراموش کردار بنادیا۔ انکا آبائی تعلق گلگت بلتستان سے ضرور تھا لیکن انہوں نے کراچی کو اپنا وطن قرار دیا۔ دینی و دنیاوی دونوں لحاظ سے تعلیم یافتہ تھے۔ ایک عالم دین، ذاکر اہل بیت اور مشہور و معروف سیاسی رہنما تھے۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ (بعد ازاں تحریک جعفریہ پاکستان) سے تادم شہادت وابستہ رہے۔ یہ سب علامہ حسن ترابی کی زندگی کے وہ پہلو ہیں کہ ان کی حامل دیگر شخصیات بھی ہمارے درمیان موجود تھیں اور اب بھی ہیں۔

تکفیری دہشت گرد گروہ

لیکن انکی شخصیت کے وہ پہلو جو دیگر ہستیوں میں یا تو بالکل نہیں ہیں یا پھر نہ ہونے کے برابر ہیں، ہم اس تحریر میں ان پہلوؤں کو پیش کرنا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر انکی شجاعت۔ 1990ع کا پورا عشرہ کراچی میں شیعہ نسل کشی کے حوالے سے بدترین عشرہ تھا۔ تب تکفیری دہشت گرد گروہ پر حکومت نے پابندی نہیں لگائی تھی۔ نہ ہی تکفیری دہشت گرد انجمن سپاہ صحابہ اور اسکے تکفیری مولویوں کو ریاستی سطح پر دہشت گرد تصور کیا جاتا تھا۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس معاملہ تھا۔

اس دور کی نمائندہ شیعہ قیادت و نمائندہ جماعت تحریک نفاذ فقہ جعفریہ تھی جس کا نام بعد ازاں تبدیل کرکے تحریک جعفریہ پاکستان رکھ دیا گیا تھا۔ علامہ سید ساجد علی نقوی کی تحریک جعفریہ پاکستان اور پاکستان بھر میں اسکے رہنماؤں اور کارکنوں کو ایک طرف تکفیری دہشت گردوں کے براہ راست حملوں کا سامنا تھا۔ تو دوسری جانب ریاست و حکومت بھی انہی کو دباؤ میں رکھتی تھی۔

شیعہ نسل کشی میں مصروف دہشت گرد بے لگام

اورصوبہ پنجاب ہی نہیں بلکہ صوبہ سندھ اور خاص طور پر کراچی میں شیعہ نسل کشی میں مصروف دہشت گرد بے لگام دکھائی دیتے تھے۔ سانحہ محفل مرتضیٰ اور سانحہ محفل عباس میں نماز فجر کے دوران شیعہ مسلمان نمازیوں کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔ یہ اس دور کی صرف ایک جھلک تھی۔

اور منافق ناصبی تکفیری انجمن سپاہ صحابہ نے 11ستمبر کو ای ریلی نکالی تھی جس پر فائرنگ ہوئی تھی۔ بانی پاکستان بابائے قوم قائد اعظم محمدعلی جناح بھی شیعہ ہی تھے۔ اور شیعہ نہ ہوتے تب بھی کسی مزار پر جانا، برسی منانا، یابرسی پر ریلی نکالنا، یہ سب تو ان منافقوں کی نظر میں کفر، شرک و بدعت ہوا کرتا تھا۔ یہ لوگ 11ستمبر کو ریلی نکال کر کیوں نکلے تھے۔

منافق ناصبی تکفیری انجمن سپاہ صحابہ

لیکن اس ریلی پر فائرنگ کا ڈرامہ اور اس کی آڑ میں علامہ حسن ترابی اور علامہ حسن ظفر نقوی پر جھوٹا مقد مہ قائم کرنے سے سب پر واضح ہوگیا تھا کہ ہدف شیعہ قیادت تھی۔ انکا مقصد علامہ حسن ترابی اور انکے رفقاء کو بلیک میل کرنا تھا۔ ایک منظم انداز میں شیعہ قیادت کو دباؤ میں، خوف میں رکھنا تھا۔

ریاستی حکام کی ہر ممکن کوشش ہوا کرتی تھی کہ امن و امان کے نام پر اجلاسوں میں تکفیری دہشت گرد مولویوں کی شرکت ہو۔ ان اجلاسوں میں تکفیری دہشت گرد دھمکی آواز اور توہین آمیز لب و لہجہ رکھا کرتے تھے۔

 تکفیری دہشت گرد مولوی

مگر سلام ہو علامہ حسن ترابی پر کہ وہ سب سے پہلے سرکاری اجلاسوں میں تکفیری دہشت گردمولویوں کی شرکت پر اعتراض کرتے تھے۔ اور زیادہ تر وہ ایسے اجلاسوں کا بائیکاٹ کردیا کرتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ شیعہ مسلمانوں کے ساتھ اجلاس میں وہ دیگر مسالک کے علماء یا رہنماؤں کی شرکت کے مخالف تھے۔ بلکہ انکا جائز اعتراض یہ تھا کہ یہ تکفیری دہشت گرد مولوی ہیں، انکے ساتھ کسی اجلاس میں بیٹھا ہی نہیں جاسکتا۔

پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ نائن الیون ہوگیا۔ دیوبندی بزرگان کو شیعہ قیادت کی مدد کی ضرورت پیش آگئی۔ تب انہیں احساس ہوا کہ مسلمانوں کے مابین اتحاد ہونا چاہیے۔ اس وقت کی کیفیت پر غالب کا یہ شعر صادق آتا تھا

:

کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

مفتی نظام الدین شامزی

خیر، ہوا یوں کہ مفتی نظام الدین شامزی نے علامہ حسن ترابی اور علامہ سید حسن ظفر نقوی کو جامعہ بنوریہ کراچی میں مدعو کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس وقت علامہ حسن ترابی نے ایک تاریخی جملہ کہا جو کہ یقینا دیوبندی بزرگان کی تکفیری سوچ اور منفی پن پر جائزطنز بھی تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں کی نظر میں میں کل کا کافر آج کا مسلمان، نہ معلوم پھر کب آپکی نظر میں (آئندہ کبھی مسلمان نہ رہوں) اورپھر سے کافر قرار پاؤں۔ بس اس دن دیوبندی بزرگان کو لگ پتہ گیا ہوگا کہ شیعہ مسلمانوں کی تکفیرکا نظریہ انکے اجداد کا ناجائز مسلکی شاؤنزم تھا۔

 اتحاد بین المسلمین پر توجہ

دیوبندی علماء و قائدین نے نائن الیون کے بعد اتحاد بین المسلمین پر توجہ دی تو شیعہ مسلمانوں کی جانب سے کراچی میں علامہ حسن ترابی نے بھی اس کا مثبت جواب دیا۔ پاکستان کی سطح پر متحدہ مجلس عمل المعروف ایم ایم اے بنی جس میں سنی حنفی بریلوی و دیوبندی و اہلحدیث کے ساتھ ایک شیعہ اسلامی جماعت بھی شامل تھی۔ یعنی علا مہ سید ساجد علی نقوی کی زیر قیادت جماعت۔

اس موضوع پر علامہ حسن ترابی کے سامنے انکے چاہنے والوں نے اعتراضات بھی کئے۔ انہوں نے ایسے ہی ایک اعتراض کا تاریخی جواب دیا۔ انکا کہنا تھا کہ اگر یہ لوگ شیعوں کو مائنس کرکے کوئی بھی دینی یا سیاسی اتحاد بنائیں تو وہ سنی اتحاد ہوگا، مسلم اتحاد ہرگز قرار نہیں پائے گا۔ یعنی وہ ایک فرقے اور مسلک کا اتحاد ہوگا۔ مسلمانوں کے کسی بھی اتحاد کے لئے ان کو ایسے اتحاد میں شیعوں کو لازماً شامل کرنا ہوگا۔ اور واقعی ایسا ہی تھا، ہے اور رہے گا۔

جنرل پرویز مشرف دور حکومت

جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں کالعدم تکفیری دہشت گرد گروہ کا سربراہ اعظم طارق ریاستی سرپرستی میں رکن قومی اسمبلی بنادیا گیا۔ اور اس نے وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی کو ایک فیصلہ کن ووٹ دے کر امریکا کے اتحادی پرویز مشرف کی سرپرستی میں ایک ووٹ دے کر حکومت قائم کروادی۔ تب امریکا مردہ باد کہنے والے شیعہ مسلمانوں کی دینی سیاسی جماعت اس حکومت کی مخالف تھی اور امریکی اتحادی جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں علامہ سید ساجد علی نقوی کو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا بھی کیا گیا۔

دشمن کی چالوں کو ناکام بنایا

اس وقت بھی علامہ حسن ترابی ہی تھے جنہوں نے دشمن کی چالوں کو ناکام بنایا۔ متعصب و ظالم جرنیلی حکومت نے انجمن سپاہ صحابہ پر پابندی کا ڈرامہ کرتے یوئے پرامن تحریک جعفریہ پر بھی پابندی لگاکر ظالم و مظلوم اور قاتل و مقتول کو برابر قرار دے دیا۔ ایسے وقت علامہ حسن ترابی نے فوری طور پر شیعہ علماء کاؤنسل کے نام سے ایک نیا پلیٹ فارم قائم کردیا۔ اور اسکے تحت ظلم و ستم کے خلاف جدوجہد کی۔

علامہ حسن ترابی شہید ایک ناقابل فراموش کردار

وہ خشک مزاج ہر گز نہیں تھے بلکہ ظریفانہ حس انکی پہچان تھی۔ عوامی شخصیت تھے۔ سب کے لئے انکے در کھلے رہتے تھے۔ ایشوز پر اصولی و منطقی موقف رکھا کرتے تھے۔ شخصیت نہیں بلکہ نظام کا دفاع انکے پیش نظر رہا کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ علامہ ساجد نقوی سے زیادہ مقبول سمجھے جاتے تھے۔ بلکہ علامہ ساجد صاحب سے دور رہنے والے ناقدین کے لئے بھی علامہ حسن ترابی قابل قبول شخصیت تھے۔ حالانکہ علامہ حسن ترابی ایسے لوگوں کو ہمیشہ یہی سمجھاتے کہ مرکزی قیادت سے اگر ناراضگی ہے یا تحفظات ہیں تو آئیں آمنے سامنے بیٹھ کر بات کریں، دلیل سے بات کریں۔

علامہ حسن ترابی مظلوم تھے

لیکن بدقسمتی سے علامہ حسن ترابی مظلوم بھی تھے۔ بعض نادان اور کم فہم لوگوں کے زیر اثر بعض جوان ان پر تنقیدی جملے کساکرتے تھے۔ بلکہ اہانت آمیز رویہ ہوا کرتا تھا۔ اسکے باوجود علامہ حسن ترابی مردمیدان تھے اور عوامی اجتماعات میں بے دھڑک شرکت کیا کرتے تھے۔ جس وقت شہر میں لوگ خوف کے سائے میں رہا کرتے تھے تب بھی علامہ حسن ترابی شہداء کی تشیع جنازہ کی شان و شوکت اور احترام کو برقرار رکھنے کے لئے قائدانہ کردار اداکیا کرتے تھے۔

جہاں اتحاد بین المومنین کے لئے انکی کوششیں ناقابل فراموش رہیں، وہیں اتحاد بین المسلمین کے لئے بھی وہ ایسی کوششیں کرگئے کہ تاریخ میں امر ہوگئے۔ 14 جولائی 2006ع کو نماز جمعہ کے بعد وہ دیوبندی جامعہ بنوریہ (یوسف بنوری) کے باہر امریکا مخالف اجتماع سے خطاب کرکے گھر لوٹے تھے۔ گھر کے دروازے پر ہی ایک ناصبی تکفیری خود کش بمبار نے خود کش حملہ کرکے انہیں شہید کردیا۔

تاریخی منظر

اور چشم فلک نے کراچی شہر میں یہ تاریخی منظر بھی دیکھا کہ ایک شیعہ اثناعشری مسلمان عالم دین اور مذہبی سیاسی رہنما علامہ حسن ترابی کی نماز جنازہ میں ہر مسلک کے مسلمان ریکارڈ تعداد میں شریک ہوئے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دیوبندی مسلک کے علماء اور طلاب نے بھی بھرپور شرکت کی۔ اتحاد امت کے داعی علامہ حسن ترابی کے خلوص کا یہ صلہ یقینا اللہ تعالیٰ نے صدقے اہل بیت ؑ کے ان کے لئے قرار دیا۔

آج اس عظیم ہستی کی شہات کے16برس بعد فرقہ پرستوں سے پوچھنا چاہیے کہ کیا علامہ حسن ترابی شہید کی قربانی کو رائیگاں جانے دو گے۔ خاص طور پر ہمارے دیوبندی بھائی بتائیں کہ لدھیانوی ٹولہ کو لگام کون ڈالے گا!؟

علامہ شاہ احمد نورانی کے وارث بتائیں کہ نورانی میاں کے اتحادی شیعہ مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کو روکنا کیاانکی ذمے داری نہیں!؟ کیا پھر کوئی نائن الیون ہونے کا انتظار ہے!؟

علامہ حسن ترابی شہید ایک ناقابل فراموش کردار

عین علی برائے شیعت نیوز اسپیشل

چھ 6 جولائی 1980ع سے پہلے اور بعد کا پاکستان

مظلوم انسان و شیعہ مسلمان کا ترجمان ادارہ شیعیت نیوز

متعلقہ مضامین

Back to top button