اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

نجات دہندہ کے منتظر مظلوم و محکوم انسان اور راہ حل

نجات دہندہ کے منتظر مظلوم و محکوم انسان اور راہ حل

 

نجات دہندہ کے منتظر مظلوم و محکوم انسان اور راہ حل.. دنیا میں ہر وہ مکتب فکر کہ جو اس مادی دنیا میں ماورائے مادیات قوتوں پر یقین رکھتا آیا ہے، یا یوں کہیے کہ عالم ظاہر کے علاوہ عالم غیب کی قوتوں پر بھی بھروسہ کرتا آیا ہے، اس نے مسائل و مشکلات میں عالم غیب سے مدد چاہی ہے۔ دنیا میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھنے والے مذاہب کا جن نکات پر اتفاق ہے ان میں سے ایک مشترکہ نظریہ انتظار ہے۔

یہودیت ایک مسیحا کی منتظر ہے۔ مسیحیت کو بھی نجات دہندہ کا انتظار ہے۔ ہندو دھرم کی آنکھیں کسی منصور کی متلاشی ہیں۔ زرتشت کی مقدس کتب بھی ایسی ہی ایک ہستی سے متعلق پر امید ہے۔ مسلمانان عالم میں ایسی ہستی کو امام مہدی کے عنوان سے طول تاریخ میں یاد رکھاجاتا رہا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ بعض حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ بدھ مت اور تاؤ ازم میں ایک ایسی ہستی کا تصور پایا جاتا ہے۔

ٍالبتہ اس دکھی انسانیت کے ایسے مسیحا اور مظلوم و محکوم انسانوں کے ایسے نجات دہندہ سے متعلق واضح نظریات بہت صراحت کے ساتھ شیعہ اسلام میں پائے جاتے ہیں۔ اور یوں شیعہ اسلام اور ان تمام مکاتب فکر و مذاہب کے پیروکاروں میں ایسی ہستی کی موجودگی پر اعتقاد ایک قدر مشترک کے طور زندہ و جاوید حقیقت بن کر موجود ہے۔

عالم بشریت کے نجات دہندہ پراربوں انسانوں کا اعتقاد

دین اسلام کی تشریح خواہ شیعہ ہو یا غیر شیعہ دونوں ہی غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور قرآن میں ایسے ہی لوگوں کے لئے ہدایت ہے جوایسے صاحبان تقویٰ ہیں کہ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ دیگر صفات بھی ساتھ ہی بیان کردیں گئیں ہیں مگر غیب پر ایمان بھی ان صفات میں سے ایک صفت ہے جو کہ ملحدین و مادیات کے پجاری قبول نہیں کرتے۔

اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ملحدین کیا کہتے ہیں مگر عالم بشریت کے نجات دہندہ پر دنیا میں آباد اربوں انسانوں کا اعتقاد ہے۔ یعنی مسلمان، یہودی، مسیحی، ہندو، زرتشت وغیرہ کہ جن کے پیروکار بلحاظ آبادی دنیا کی اکثریت کہی جاسکتی ہے۔

دنیا کے مظلوم انسان متحد نہیں

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر دنیا کی یہ اکثریت ظلم و ستم کا شکار کیوں؟ ایک اقلیت ان پر مسلط کیوں!؟۔ اسکا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ دنیا کے یہ مظلوم انسان اپنے مشترکہ نظریے پر متحد و متفق نہیں ہوپارہے۔ یعنی ضرورت اس بات کی ہے کہ نام و جگہ کے فرق کے باجوود انہیں یہ مان لینا چاہیے کہ وہ ہستی ایک ہی ہے۔

جس طرح اس کائنات کے خالق و مالک کو عرب و مسلمان اللہ کہتے ہیں فارسی اور اردو میں عام طور پر خدا کہتے ہیں، ہندو ایشور کہتے ہیں۔ انگریزی میں گاڈ کہتے ہیں۔ عبرانی میں اسے یہووا یا یاہوے کہتے ہیں۔ اسی طرح انہیں یہ بھی مان لینا چاہیے کہ اس خدا ئے واحد کہ جس کے علاوہ کوئی اور خدا نہیں ہے، اس کی طرف سے جو نجات دہندہ مقرر کیا گیا ہے، اسکو بھی انسان اپنے اپنے علاقوں یا تاریخ کے لحاظ سے مختلف ناموں سے پکار سکتا ہے۔

ظالموں اور ستم گروں سے بغاوت

ضرورت اس بات کی ہے کہ محکوم و مظلوم انسان ظالموں اور ستم گروں سے بغاوت اور انکے خلاف قیام پر متفق ہوں۔ ہر کوئی اپنے اپنے علاقوں اور اپنی توانائی کے مطابق ظلم و ستم سے نجات حاصل کرے۔ تاکہ ظلم و ستم کی قوتوں کو کمزور کرسکیں۔ یقینا عالمی سطح پر یہ کام مکمل طور پر اسی مسیحا، نجات دہندہ یا امام مہدی عج نے ہی کرنا ہے جسے انسان مختلف ناموں سے یاد کرتا آیا ہے۔

البتہ ظلم و ستم سے نفرت، بغاوت اور جدوجہد کئے بغیر اس مسیحا، نجات دہندہ امام مہدی عج کے ظہور کی راہ ہموار نہیں کی جاسکتی۔ اس ضمن میں توحیدی افکار کے پیروکار انسانوں نے کلیدی کردار اداکرنا ہے۔ کیونکہ عقیدہ توحید بھی عالم انسانیت میں قدر مشترک ہے۔

توحیدی فکر قدر مشترک

بظاہر سارے زرتشت، ہندو اور سارے مسیحی عقیدہ توحید سے دور دکھائی دیتے ہیں مگر مائیکرولیول پرچیک کریں تو توحید ی فکر کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر زرتشت جس طاقت کو یکتا واحد و احد مانتے ہیں وہ آہورا مزدا ہے۔ ہندوؤں میں یہ نام ایشور ہے۔

اور اس قدر مشترک پر عالم انسانیت کے اتفاق و اتحاد کے لئے ایک منطقی بیانیہ کی ضرورت ہے۔ مظلوم و محکوم انسانوں کو ایک دوسرے سے ہمدردی ہونا چاہیے مگر مظلوم انسان ایک دوسرے سے ہمدردی کی بجائے نفرت کرتے ہیں۔ کیونکہ دنیا پر مسلط استحصالی نظام، طاقتوں اور اداروں نے ان کے درمیان اپنا بیانیہ اس انداز سے پھیلادیا ہے کہ عوام الناس کو تقسیم در تقسیم کردیا گیا ہے۔

ہمارا اور تمہارا وہی ایک خدا

اس مظلوم و محکوم انسان کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہمارا اور تمہارا خدا وہی ایک خدا ہے جو عدالت و آزادی کا خدا ہے۔ جو انسان کی عزت و عظمت، کرامت و شرافت چاہتا ہے نہ کہ انکی تذلیل۔ جب تک دنیا کے یہ مظلوم و محکوم انسان اس حقیقت کو سمجھ کرظلم سے نجات کے لئے متحد نہیں ہوجاتے تب تک مسیحا، نجات دہندہ بھی ان کے مابین اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرے گا۔

کیونکہ وہ اس پوری کائنات کے واحد خدا کا نمائندہ ہے، اسی لئے اس پوری کائنات کے مظلوم انسانوں کو مشترکات پر متحد ہونا پڑے گا۔ عدل و انصاف، امن و سکون، بھائی چارہ، سہولیات، روٹی، کپڑا،مکان، تعلیم، صحت، روزگار جدوجہد کے بغیر نہیں ملنے والا۔

نجات دہندہ کے منتظر مظلوم و محکوم انسان اور راہ حل

یہ سب بعد کی باتیں ہیں۔ سب سے پہلے مسیحا، نجات دہندہ، امام مہدی کے منتظر انسان اتفاق و اتحاد کے لئے مکالمے کا آغاز کریں۔ مشترکات سے آگاہ کریں، آگاہ ہوں۔ اور نجات دہندہ کے وجود کو اپنے معاشروں میں ایک زندہ حقیقت کے طور

پر مشتہر کریں. اس پیغام کے ساتھ کہ

:

دکھ کی لمبی کالی راتیں
سکھ کی دھوپ پہ وار نہ دینا
جبر کا سورج ڈھل کے رہے گا
لوگو، ہمت ہار نہ دینا

منتظرمھدی برائے شیعت نیوز اسپیشل

متعلقہ مضامین

Back to top button