اہم ترین خبریںپاکستان کی اہم خبریںدنیاشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

کورونا وائرس یا امریکا کی حیاتیاتی و کیمیائی جنگ کا ہتھیار (حصہ اول)

کورونا وائرس یا امریکا کی حیاتیاتی و کیمیائی جنگ کا ہتھیار (حصہ اول)

 

کورونا وائرس یا امریکا کی حیاتیاتی و کیمیائی جنگ کا ہتھیار…. جہاں تک بات ہے کورونا وائرس کی تو یہ بھی دیگر وائرل بیماریوں کی مانند ایک بیماری ہے۔ اور اس سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔ مگر جس طرح کورونا وائرس کے ایشو پر نفسیاتی جنگ لڑی جارہی ہے اسکے پیش نظر اس مسئلے سے متعلق حقائق کا نشر کرنا زیادہ ضروری و لازمی کام ہے جو اس سے زیادہ سرعت و شدت کے ساتھ انجام دیا جانا چاہئے۔

 

انفلوئنزا یا فلو وائرس

کورونا وائرس ایک وبائی مرض ہے مگر تاحال یہ انفلوئنزا یا فلو وائرس سے کم خطرناک ثابت ہوا ہے۔ صرف ایک ملک یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا میں تین کروڑ بیس لاکھ انسان انفلوئنزا وائرس کا شکار ہیں۔ صرف ایک ملک امریکا میں انفلوئنزا فلو وائرس سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں اموات ہوتیں ہیں۔

 

کورونا وائرس پھیلانے کاذمے دار امریکا

 

یہی وجہ ہے کہ چین میں کورونا وائرس کو انفلوئنزا فلو وائرس ہی کا تسلسل سمجھا گیا۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے چین میں کورونا وائرس پھیلانے کاذمے دار امریکا کو قرار دیا۔ انکا کہنا ہے کہ چین کے شہر ووہان میں ساتویں ملٹری ورلڈ گیمز میں امریکی افواج کے تین سو ایتھلٹس نے شرکت کی تھی۔ اور وہیں سے کورونا وائرس پھیلا۔

اسکے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا کے حکومتی ادارے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن

(www.cdc.gov)

کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ ریڈفیلڈ نے خود یہ اعتراف کیا کہ کئی امریکی جو انفلوئنزا فلو وائرس سے مرے تھے انکے بعد از مرگ طبی معائنے سے معلوم ہوا کہ انہیں کورونا وائرس تھا۔ (مطلب یہی ہوا کہ امریکا کے انفلوئنزا یا فلو وائرس ہی کا نیا نام کورونا وائرس ہے۔)۔

 

امریکا حیاتیاتی و کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال

چین کے اس سرکاری موقف میں اس لئے بھی وزن ہے کہ بائیولیوجیکل و کیمیکل وار فیئر میں امریکا حیاتیاتی و کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرتا آیا ہے۔ بلکہ امریکی افواج نے تو خود امریکی شہریوں پر حیاتیاتی ہتھیاروں کے تجربات بھی کئے ہیں۔ نہ صرف امریکا کے اندر بلکہ برطانیہ اور کینیڈا میں بھی یہ تجربات کئے گئے تھے۔

اب جب برطانیہ میں وزیر صحت اور کینیڈا میں وزیر اعظم کی بیوی بھی اس مرض میں مبتلاپائی گئیں۔ پرتگال کے صدر سمیت دنیا بھر میں بہت سے اعلیٰ ترین حکومتی عہدیداران بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے لگے۔ تو لگتا یہی ہے کہ امریکی پینٹاگون، سی آئی اے یا دیگر حکومتی اداروں نے یا کارپوریٹوکریسی نے کوئی باریک کام کردکھا یا ہے۔

 

کورونا وائرس یا امریکا کی حیاتیاتی و کیمیائی جنگ کا ہتھیار

ہم سازشی مفروضوں پر یقین نہیں رکھتے۔ یہ تحریر ناقابل تردید حقائق پر مبنی ہے۔ خود امریکی وزارت دفاع یعنی پینٹاگون نے ماضی کے خفیہ بائیولوجیکل ہتھیاروں کا اعتراف بھی کیا تھا۔ سال 2002ع کے اوائل میں وہ خفیہ دستاویزات بھی ڈی کلاسیفائڈ کردیں گئیں تھیں۔ البتہ وہ اعتراف 1960ع کے عشرے سے متعلق تھا۔ اس ضمن میں سی بی ایس نیوز نے 8اکتوبر 2002 ع کو ایک خبر بھی دی تھی۔

پروجیکٹ کلیئر ویژن (1997اور سا ل 2000)

ٍ پینٹاگون کے علاوہ تین پرائیویٹ امریکی کمپنیاں بھی سی آئی اے اور دیگر امریکی حکومتی اداروں کے لئے یہ کام کرتیں رہیں ہیں۔ سی ایچ ٹو ایم ہل، بیٹل، اور میٹابائیوٹا۔ پینٹاگون کی بائیولوجیکل لیبارٹریاں نہ صرف جارجیا بلکہ عراق، افغانستان، یوگنڈا، تنزانیہ اور جنوب مشرقی ایشیاء (ویتنام) میں بھی قائم رہیں۔ جارجیا کے شہر تبیلیسی میں حیاتیاتی ریسرچ کے عنوان سے یہ کام کرتیں رہیں ہیں۔ امریکی سی آئی اے اور بیٹل میموریل انسٹیٹیوٹ کا مشترکہ پروجیکٹ کلیئر ویژن (1997اور سا ل 2000) بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔

امریکا کی جراثیم کے ذریعے جنگ

 

چار ستمبر 2001ع کو یعنی نائن الیون حملوں سے ایک ہفتہ قبل امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے صفحہ اول (سیکشن A) پر امریکا کی جراثیم کے ذریعے جنگ لڑنے یعنی جراثیم کو ہتھیارکے طور پر استعمال کرنے سے متعلق تجربات کرنے کی خبر شایع کی تھی۔ اور یہ تجربات بھی کئی برسوں سے کئے جارہے تھے۔ حالانکہ یہ تجربات بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی پر مبنی تھے۔

قصہ مختصر یہ کہ کورونا وائرس امریکا ہی کی اپنی ایجادہے۔ اسی نے چین تک پہنچایا۔ اور امریکی سہولت کاروں کے ذریعے ہی یہ دیگر ممالک پہنچا۔

کورونا وائرس پاکستان کیسے پہنچا

خاص طورپر یہ حقیقت کہ پینٹاگون اور اسکے لئے کام کرنے والی نجی کمپنیوں کی لیبارٹریاں افغانستان اور عراق میں بھی قائم ہیں، تو وہاں سے ایران اس وائرس کو پہنچانا کونسا مشکل کام تھا۔

جبکہ چین اور افغانستان سے تو یہ وائرس براہ راست بھی پاکستان پہنچا ہو یا پہنچادیا گیا ہو، اس میں کونسی ایسی نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے جو مزید سمجھائی جائے۔!؟۔۔

محمد عمار برائے شیعت نیوز اسپیشل

World need to rethink relations with United States over influenza virus?

متعلقہ مضامین

Back to top button