مقالہ جات

کرونا وائرس!تنقید نہیں حل بتائیے || نذر حافی کے قلم سے

طبی ماہرین کے مطابق یہ پھیلتا ہوا کرونا وائرس ایک عالمی وبا کی صورت اختیار کر تا جا رہا ہے۔ اس وقت تک متاثرہ ممالک کی تعدد ۱۲۷ تک پہنچ چکی ہے

شیعت نیوز: کرونا وائرس کی ماہیت کو سمجھنے کا عمل ساری دنیا میں جا ری ہے، سائنسدان دن اور رات ایک کئے بیٹھے ہیں، لیبارٹریز میں مسلسل کام ہو رہا ہے، مشرق و مغرب میں تحقیقات انجام پا رہی ہیں، عالمی ادارہ صحت آستینیں چڑھا کر میدان میں اترا ہوا ہے، ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتیں ہو چکی ہیں، مریضوں کو طبی قید یعنی قرنطینہ میں رکھا جا رہا ہے، ہرملک میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اور ذرائع ابلاغ سے  احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی  بار بار اپیل کی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس،زائرین ِ ایران و عراق ریاستی اداروں کے بدترین امتیازی سلوک کا شکار

طبی ماہرین کے مطابق یہ پھیلتا ہوا کرونا وائرس ایک عالمی وبا کی صورت اختیار کر تا جا رہا ہے۔ اس وقت تک متاثرہ ممالک کی تعداد ۱۲۷ تک پہنچ چکی ہے، تعلیمی ادارے معطل ہیں ، لوگوں کی آمدورفت پر پابندیاں عائد ہیں۔ایران میں بھی نماز جمعہ تااطلاع ثانوی معطل ہے، عام اجتماعات اور عوامی محافل پر پابندی ہے، سعودی عرب نے حج اور عمرہ کے زائرین سے معذرت کر لی ہے، امریکہ، اسرائیل ،کویت، بحرین، قطر اورعمان سمیت دنیابھرمیں ایک بھونچال آیا ہوا ہے۔ کرونا کی شناخت، اس کی ویکسین کی دریافت اور اس کے پھیلاو کو روکنے کیلئے شب و روزسائنسدان مصروف ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: شونٹرپاس منصوبہ، اسلامی تحریک کے رکن کیپٹن (ر)سکندر کی قراردادجی بی اسمبلی سے منظور

ساری دنیا کو چھوڑئیے، صرف ایران کو ہی لیجئے، اتفاق سے میں ان دنوں ایران میں ہی ہوں، ایران کے میڈیکل کے شعبے کے لو گ محاذجنگ پر لڑنے والے مجاہدین کی طرح سربکف ہیں، وزارتِ صحت عوام میں کرونا وائرس کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی اور شعورپھیلانے میں پیش پیش ہے، میڈیا لمحہ بہ لمحہ لوگوں کو کرونا سے بچاؤ کی تدابیر بتا رہا ہے۔ علمائے کرام حکومت اور وزارت صحت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں، مذہبی اماکن، مساجد اور مزاراتِ مقدسہ کو اینٹی وائرس ادویات سے دھویاجا رہا ہے، مذہبی اجتماعات کو مجتھدینِ کرام کی طرف سے منسوخ کر دیا گیا ہے،  یران کے سپریم کمانڈر اور رہبر اعلیٰ نے جہاں عوام کو قرآن مجید اور مسنون دعائیں پڑھ کر خداوندمتعال سے مدد مانگنے کا کہا ہے وہیں انہوں نے نئے سال کے آغاز پر مشہد مقدس جاکر نئے سال کی تقریب سے اپنے خطاب کو بھی منسوخ کر نے کا اعلان کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جی بی الیکشن2020، ڈاکٹر یونس حیدری حلقہ 3سے ایم ڈبلیوایم کے امیدوار نامزد

یاد رہے کہ ایران میں نئے شمسی سال کا آغاز مشہد مقدس میں  ان کے خطاب سے ہوا کرتا تھا۔میں اس وقت ایران کے علمی دارلحکومت قم المقدس میں ہوں، جاننے والے جانتے ہیں کہ قم المقدس کو  جہانِ اسلام کا قلب کہا جاتا ہے۔ قم المقدس کو پورے ایران کیلئے نظریاتی، سیاسی، علمی اور دینی قطب کی حیثیت حاصل ہے۔اس وقت یہاں کی دینی مرجعیت مکمل طور پر میڈیکل سائنس کی پشت پر کھڑی ہے۔اب آپ ایران سے باہر آئیے، اور اپنے وطن عزیز میں ان لوگوں کی حالت دیکھئے جو اپنے آپ کو دینی علمبردار کہتے ہیں، میں کسی بنگالی بابے، کالے جادو کے عامل، جنتر منتر کرنے والے شعبدہ باز یا کسی سادھو اور سنیاسی کی بات نہیں کر رہا بلکہ ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو آپنے آپ کو عالمِ دین، علامہ صاحب، مولانا صاحب، دینی طالب علم وغیرہ وغیرہ کہتے ہیں۔ایران کے علمائے کرام کے برعکس  ہمارے ہاں کے اکثر علما کہلوانے والوں نے لوگوں کو پیاز چبانے، لہسن چاٹنے، پیروں و فقیروں کے ہاتھوں اور پاؤں کے ناخن کاٹ کر کھانے، معجونیں اور پھکیاں نگلنے، بدن پر ہلدی اور شہد کی لیپ ملنے، ملتانی مٹی سے جسم کو چپڑنے اور سر کے بال پانی میں گھول کر پینے پر لگا دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: علامہ عارف واحدی کی جانب سے چیئرمین واراکین اسلامی نظریاتی کونسل کو نہج البلاغہ کا ہدیہ

آئیے ہم تنقید کے بجائے حقیقت کی تلاش میں نکلتے ہیں،ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کے لوگ پولیو کے قطروں سے لے کر کرونا وائرس تک اور حالات حاضرہ سے لے کر روز مرہ کے مسائل تک  ایران و سعودی عرب کی پراکسی وار، معجونوں، پھکیوں اور  فتووں سے باہرنہیں جاتے۔اگر ہم کسی پر صرف تنقید کرنا چاہیں تو بے شک دن رات کرتے رہیں، اس سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہونے والا، اوراگرہم اس مسئلے کو سمجھنا اور حل کرنا چاہیں تو پھر ہمیں تنقید کے بجائے دینی مدارس کے اندر جھانکنا ہوگا۔ ہمارے   ملک میں یتیم خانہ، مسجد، مدرسہ، امام بارگاہ یا درگاہ بنانے اور نماز و قرآن مجیدپڑھانےکو تو دینی خدمت تصور کیاجاتا ہے، اس کیلئے فنڈز بھی ملتے ہیں، چندہ، صدقہ و خیرات اور عطیات بھی جمع ہوجاتے ہیں لیکن تحقیق کرنے کو ایک غیر دینی کام سمجھا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: کویت میں تمام دفاتر ، تعلیمی ادارے اور بینک بند کرنے کا فیصلہ

چنانچہ اس وقت ہمارے  ہاں جتنے بھی پاکستانی دینی مدارس ہیں، ان میں سے ایک بھی ایسا  تحقیقی مجلہ نشر نہیں ہوتا جو ایچ ای سی سے منظورشدہ ہو اور وزارتِ تعلیم نے اسے ایک تحقیقی مجلہ قرار دیا ہو۔  پاکستان کے دینی مدارس کیلئے ایک معیاری تحقیقی مجلے کی اشاعت ایک چیلنج کی صورت اختیار کر چکی ہے۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب ہم تحقیقی معیارات پر پورے نہیں اتر سکتے تو  ہمارے  پاس  ایک آسان اور سستا الزام یہ ہوتا ہے کہ وہ جی حکومتی اداروں میں ہمارے مخالفین بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ ہمارے مجلے کومعیاری تسلیم نہیں کرتے۔اب جو مجلے  ہمارے ہاں اِدھر اُدھر سے کاپی پیسٹ کر کے  چھاپے بھی جاتے ہیں، ان کا اصلی ہدف مخیرحضرات سے ڈونیشن سمیٹنا ہوتا ہے، چنانچہ وہ سارے مجلے تحقیقات کے بجائے سرپرست اعلیٰ، مدیر مجلہ، ٹرسٹ کے چئیرمین، مخیر حضرات اور ضرورتمندوں کی تصاویر سے بھرے ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: زائرین کے مسائل کے حل کیلئے روایتی اندازسے ہٹ کرسنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے، علامہ ساجدنقوی

ایک مجلے کے  سرپرست کے پاس اچھے ڈیزائنر، فوٹوگرافر، پیسٹر، کمپوزر وغیرہ کیلئے بجٹ ہوتا ہے لیکن اس کے پاس محقیقین کیلئے کوئی بجٹ نہیں ہوتا۔یہی حال ہمارے دینی مدارس کا ہے، جہاں آپ کو اساتذہ اور خطیب تو مل جائیں گے، لیکن اگر آپ ان  مدرسین سے یہ پوچھیں  کہ آپ حضرات سال میں خود اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں میں اضافے کیلئے کتنے کورسز کرتے ہیں اورعلم التعلیم کے کتنے جدید اسالیب سے آشنا ہیں تو یہ پوچھتے ہی آپ کے ساتوں طبق روشن ہوجائیں گے، اسی طرح مدارس میں جو  واعظین اور خطبا  پروان چڑھ رہےہیں ان کی تحقیقی صلاحیتیں بھی  آج ہم سب پر عیاں ہو چکی ہیں۔المختصر یہ کہ ایک مدرسے کے مدیر کے پاس بلند وبالا عمارتوں کی تعمیرات، مدرسین کی تنخواہوں، واعظین و مبلغین کی سہولیات، طلاب علموں کے کھانے  نیزگیس اور بجلی کے بھاری بھرکم  بلوں کے لئے تو بجٹ ہے لیکن محقیقین کیلئے  نہ ہی تو پیسہ ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تفتان میں پھنسے گلگت بلتستان کے زائرین کی واپسی کیلئےسٹئیرنگ کمیٹی کا اہم اجلاس

ہمارے ایک طرف ایران ہے، جہاں ہر دینی مدرسہ ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہے، جہاں تحقیق کے بغیرتدریس یا تبلیغ کی کوئی حیثیت نہیں ہے، جہاں دینی مدارس سے  علوم قرآن، مستشرقین، علوم حدیث، تاریخ، تمدن،عرفان، نجوم، ہنر،ادبیات،جدیدعلوم، سیاسیات، اقتصاد، عمرانیات، علوم انسانی، فلسفہ اور تعلیم و تربیت  جیسے ان گنت موضوعات پر جدید ترین کتابیں  تصنیف ہو رہی ہیں، بین الاقوامی معیار کے مطابق علمی مقالات چھپ رہے ہیں، تحقیقی کانفرنسیں اور سیمینارز منعقد ہو رہے ہیں، نت نئی تحقیقات سامنے آ رہی ہیں اور مجلات نشر ہو رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس نے اٹلی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، یورپی یونین کا ہنگامی اجلاس طلب

جبکہ دوسری طرف ہمارا وطن عزیز پاکستان ہے جہاں کسی بھی دینی مدرسے میں کوئی مصدقہ ریسرچ ڈیسک، مسلمہ ریسرچ ٹیم،  یا وزارت تعلیم سے رجسٹرڈ ریسرچ میگزین  نہیں ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں جو آدمی بھی  منبر پر بیٹھ جاتا ہے اس کی مرضی ہےکہ لوگوں کو خواب سنائے، موسیقی کی دھنیں سنائے، داداابو اور پریوں کی کہانیاں سنائے، ناخن کاٹ کرکھلائے یا پھر سر کے بال پانی میں گھول کر پلائے۔ آپ  منبروں سے خواب سنانے والے، ملتانی مٹی، معجونوں اور ناخن و بال کھلانے اور پلانے والے مولانا حضرات سے صرف یہ پوچھ لیجئے کہ  آپ کی طبی تحقیقات کس انٹرنیشنل میگزین میں چھپتی ہیں اور آپ کےعلمی مقالات کس تحقیقی میگزین کی زینت بنتے ہیں!؟کسی پر تنقید کے بجائے ہمیں ان مسائل کا مستقل حل ڈھونڈنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: کرونا وائرس یا بغاوت کا خوف، خانہ کعبہ، تعلیمی ادارے بند، قطیف کا محاصرہ

ان مسال کا حل یہ ہے کہ وہ سیاست و اقتصاد ہو یا  شرک و غلو ، وہ دفاع اور جہاد ہویا پولیو اور کرونا وائرس، ہمارے دینی مدارس عوام کی جدید مشکلات کو تبھی حل کر پائیں گے کہ جب ان مدارس کے اندر سے جمود کے تابوت کو نکال کر وہاں تحقیق کی مسند سجائی جائے گی۔

تحریر: نذرحافی
nazarhaffi@gmail.com

متعلقہ مضامین

Back to top button