اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

پاکستان اور خطے کی غیر یقینی صورتحال (پہلی قسط)

پاکستان اور خطے کی غیر یقینی صورتحال

 

پاکستان اور خطے کی غیر یقینی صورتحال…. خطے کی تازہ ترین صورتحال کے تناظر میں ریاست پاکستان کی پالیسی سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ طول تاریخ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے رجحانات کو مد نظر رکھا جائے۔

پاکستان کا نوجوان طبقہ اس پس منظر کو سمجھے بغیر کسی درست نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔ اسکے لئے لازمی ہے کہ پاکستان سے متعلق حقائق کو فراموش نہ کیا جائے۔

 

جغرافیائی محل وقوع

پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع ایک طرف اسے اقوام عالم میں ایک اہم مقام سے نوازتا ہے تو ساتھ ہی پاکستان کی آزمائش قرار پاتا ہے۔ کہنے کو پاکستان بنیادی طور پر جنوبی ایشیاء میں واقع ہے اور بھارت کے ساتھ ساتھ یہ سارک کے بانی اور قائدین میں سر فہرست ہے۔ مگر اس کی سرحد چین سے بھی ملتی ہے جو ایشیا پیسیفک یا مشرقی ایشیاء کی بین الاقوامی صف بندی کے لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ اور ساتھ ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کا مستقل رکن ملک ہے۔

طویل سرحد افغانستان سے بھی ملتی ہے کہ جس کے دوسری جانب وسطی ایشیائی ممالک ہیں۔

ایران کے ساتھ سرحد ہونے کی وجہ سے پاکستان ایران کا بھی اہم پڑوسی ملک قرار پاتا ہے۔ یعنی مشرق وسطیٰ بھی پاکستان سے دور نہیں۔ جبکہ خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ جنوب میں یہ بحر ہند و خلیج فارس کا پڑوسی بھی ہے۔ یعنی سمندر کی نعمت سے بھی مالامال ہے۔

 

ستر برسوں سے زائد کی تاریخ

پچھلے ستر برسوں سے زائد کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بڑی طاقتیں بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے کی حریف بنتی ہیں تو پاکستان کی شامت آجاتی ہے۔ سرد جنگ کی طویل بین الاقوامی صف بندی میں کمیونسٹ بلاک کے خلاف ریا ست پاکستان کیپیٹلسٹ بلاک کی سہولت کاربنی رہی۔

 

کوریا جنگ اور لیاقت علی خان

 

کہا جاتا ہے کہ کوریا پر امریکی بلاک کی جنگ میں بھی امریکا نے پاکستان کی ٹانگ گھسیٹنے کی کوشش کی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم نواب لیاقت علی خان نے امریکا کا سہولت کار بننے سے انکار کردیا تھا۔

اور اس انکار کی وجہ سے ہی انکو قتل کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا ہی اس پہلے ہائی پروفائل قتل میں ملوث تھا۔

 

جنرل ایوب خان دور حکومت

 

اسکے بعد سے 1960ع کے عشرے تک بھی جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں بھی امریکی بلاک نے سوویت یونین کے خلاف پاکستان کو باقاعدہ اور کھل کر استعمال کیا۔ اس کی ایک مثال امریکی جاسوس یوٹو(U-2) طیارے کا واقعہ تھا۔ سوویت فضائیہ نے وہ امریکی طیارہ مار گرایا تھا۔ وہ طیارہ پاکستان کی سرزمین سے اڑایا گیا تھا۔

 

پاکستان اور خطے کی غیر یقینی صورتحال

 

مشرق وسطیٰ میں معاہدہ بغداد یا سینٹو اتحاد بھی سرمایہ دارانہ مغربی بلاک کے مفادات پر مبنی تھا۔ وہاں بھی ریاست پاکستان رکن بنی۔ جبکہ جنوب مشرقی ایشیائی معاہدہ منیلا یعنی سیٹو اتحاد میں بھی ریاست پاکستان سرمایہ دارانہ امریکی مغربی بلاک کی خواہشات کی تکمیل کرتی نظر آئی۔ 1970ع کے عشرے تک یہ صورتحال رہی۔ اس عشرے کے اختتام پراور 1980ع کی دہائی کے آغاز پر کمیونسٹ بلاک کے قائد سوویت یونین (موجودہ روس) کی افواج افغانستان میں آگھسیں۔ ان سے نمٹنے کے لئے سرمایہ دارانہ بلاک کو افغانستان میں پراکسی وار لڑنے کے لئے پاکستان کی ضرورت پڑی۔

جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت نے امریکا کو کاندھے فراہم کئے۔ مورخین میں سے بعض تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء کی فوجی بغاوت کے ذریعے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو معزول کروانے میں بھی امریکا ہی ملوث تھا۔ سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی جانب سے بھٹو کو دی گئی دھمکی کا تذکرہ تو خود بے نظیر بھٹو نے اپنی خود نوشت دختر مشرق میں کیا تھا۔

ان چند موٹی موٹی باتوں سے یہ تو معلوم ہوچکا کہ امریکی بلاک نے ہر مشکل میں پاکستان کو مدد کے لئے مجبور کیا۔ یعنی امریکا کی دھمکی ریاست پاکستان کے لئے معمول کی بات ہے۔ مختلف ادوار میں امریکی حکام نے پاکستان کو ڈکٹیشن دی۔ بعض کام کرنے کا کہا اور بعض کام سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا۔ اور نہ ماننے کی صورت میں سزا بھی دی۔

 

دوسری بڑی مثال ذوالفقار علی بھٹو

سزا کی ایک مثال پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان تھے۔ اور اس سزا کی دوسری بڑی مثال ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ ہنری کسنجر سمیت امریکی حکومتی عہدیداروں نے بھٹوکو دھمکی دی تھی کہ فرانس سے نیوکلیئر ری پروسیسنگ منصوبہ ختم کردے ورنہ بھٹو کو (عبرت کی) مثال بنادیا جائے گا۔ بھٹو نہ مانے اور عبرت کی مثال بنادیئے گئے۔ بعض مورخین یہ سمجھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق امریکا کی جانب سے دی جانے والی سزا کی تیسری بڑی مثال ہیں۔ کیونکہ افغانستان میں امریکی بلاک کی سہولت کاری کے باوجود انہوں نے اکا دکا ایسے کام کئے جو امریکا نے ممنوع قرار دیے تھے۔

نیوکلیئر پروگرام پرخفیہ طریقوں سے پیش رفت جنرل ضیاء کے دور میں بھی جاری رہی۔ البتہ کہا یہ جاتا ہے کہ جنرل ضیاء کے دور حکومت میں امریکا کے فراہم کردہ اسٹنگر میزائل ایران کے ہتھے لگ گئے تھے۔ بعض خواص کہتے ہیں کہ ضیاء حکومت نے ایسا کیا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ باقاعدہ فروخت کئے تھے۔

ان دنوں صدام حکومت نے ایران پر جنگ مسلط کررکھی تھی۔ امریکی مغربی بلاک صدام حکومت کو اسلحہ فراہم کررہا تھا۔ شایدیہ دو کام امریکا کی ناراضگی کا باعث بنے اور کام نکل جانے پر امریکا نے جنرل ضیاء کو ٹھکانے لگادیا۔

نوے کا عشرہ

یوں 1990ع کے عشرے میں سویلین حکومتیں دو ڈھائی سال کی مدت میں ہی فارغ کی جاتیں رہیں۔ امریکا نے پاکستان پر پابندیاں لگارکھیں تھیں۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بھارت کے جواب میں پاکستان بھی نیوکلیئر ٹیسٹ پر مجبور ہوا۔ اسکی وجہ سے مزید پابندیاں لگیں۔

 

کمیونسٹ بلاک سقوط کرگیا

نوے کی دہائی میں سوویت یونین اور اسکا کمیونسٹ بلاک سقوط کرگیا۔ مگر امریکی مغربی سرمایہ دارانہ (capitalist bloc) بلا شرکت غیرے عالمی سطح پر مستحکم ہوتا چلا گیا۔ امریکی بلاک نے نہ تو افغانستان کی جان چھوڑی اور نہ ہی پاکستان کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ ختم کیا۔

افغانستان میں طالبان کا کنٹرول ہوگیا۔ امریکا کی پراکسی افغان جنگ کے نتیجے میں یہاں جمع ہونے والے عرب جنگجوؤں نے سعودی عرب کے اسامہ بن لادن کی قیادت میں القاعدہ کے عنوان سے سرگرمیاں کیں۔

 

گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہوا!۔

ٍ نائن الیون حملوں کے بعد ایک اور مرتبہ امریکی حکام کو ریاست پاکستان کی یاد ستائی۔ ایک اور مرتبہ امریکا نے دھمکی دے کر پاکستان کو افغانستان کے داخلی معاملات میں گھسیٹا۔ کچھ وقت کے لئے اقتصادی نرمی بھی دکھائی۔ مگر نہ تو افغانستان میں امن بحال ہوا اور نہ ہی مفاہمت ہوسکی۔

ٍٍ امریکی حکومت نے ریاست پاکستان کی خدمات کے بدلے میں پاکستان کو مطلوب مدد و حمایت کبھی بھی نہیں کی۔ خواہ 1971ع کی جنگ ہویا1965ع کی۔ امریکا کے آسرے پر مشرقی پاکستان کا سقوط ہوگیا مگر امریکاکی مدد نہ آئی۔ الٹا پاکستان کو گالیاں تک دیں گئیں۔ اور ریاستی حکام کی مثال مرزا غالب کے شعر کی صورت کچھ یوں رہی

گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہوا!۔

 

عین علی برائے شیعیت نیوز اسپیشل

(پاکستان اور خطے کی غیر یقینی صورتحال کے عنوان سے یہ تحریر اس سلسلے کی پہلی قسط ہے۔ مزید اگلی قسط میں)۔

سعودی اماراتی خارجہ پالیسی پر پاکستان کا نقاب

کوالالمپور سربراہی اجلاس اور سعودی عرب

Pakistan Turkey relations remain low due to Saudi Arabia

متعلقہ مضامین

Back to top button