اہم ترین خبریںدنیاشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

ٹرمپ کی صدارت میں امریکا کی خارجہ پالیسی

ٹرمپ کی صدارت میں امریکا کی خارجہ پالیسی

ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں بھی یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا دنیا کے امن کے لئے ویسے ہی ناسور ہے جیسے پہلے تھا۔ واشنگٹن ڈی سی سے آنے والی خبروں سے دھوکہ نہ کھائیں۔ واشنگٹن ڈی سی میں طاقت کے دیگر مراکزکی چھیڑ چھاڑ ضرور ہے مگر تاحال ان مراکز نے ٹرمپ کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی۔ حالانکہ ٹرمپ نے اگلے صدارتی انتخابی معرکے میں اپنے حریف کے خلاف غیر ملکی مداخلت کی درخواست کی۔ اس پر انکا احتساب تو بنتا ہے مگر مخالفین کا زور بھی بیانات پر ہے۔

ٹرمپ کی صدارت میں

واشنگٹن ڈی سی کی ان خبروں میں کچھ نہیں رکھا۔ ٹرمپ نے اپنی اصلیت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے خطاب میں ظاہر کی۔ انکی وہ تقریر تضادات کا مجموعہ تھی۔ انکا دعویٰ تھا کہ وہ جنگ کے خلاف ہیں، امن چاہتے ہیں۔ لیکن، انکی یہی تقریر انکے خلاف ایف آئی آر سے کم نہیں۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ اس وقت جنگ کہاں کہاں ہورہی ہے؟ کس ملک کی جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی ہورہی ہے؟

انہیں نہیں معلوم تو معلوم کرلیں۔ یمن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی قیادت میں فوجی جارحیت جاری ہے۔ شام اور لبنا ن کی جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والوں میں جعلی ریاست اسرائیل سرفہرست ہے۔

مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء کا امن تبا ہ کرنے والے

کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم میں بھارت کی موذی سرکار نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑدالے ہیں۔حتیٰ کہ بھارت نے پاکستان میں در اندازی بھی کی۔ لائن آف کنٹرول، ورکنگ باؤنڈری اور انٹرنیشنل بارڈرز پر پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز ی کرتا رہتا ہے۔

ٹرمپ کی صدارت میں

تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا میں کسے بے وقوف بنانا چاہ رہے تھے؟! کیونکہ اگر وہ جنگ کے خلاف ہوتے تو مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء کا امن تبا ہ کرنے والے اسرائیل، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بھارت اور انکے سہولت کاروں کے خلاف بات کرتے۔ مگر اقوام متحدہ میں انہوں نے جنگ کرنے والے یا دیگر ممالک کو دفاعی جنگ لڑنے پر مسلط کرنے والی کسی بھی حکومت کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا۔

وہ کہہ بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ انکی صدارت میں بھی امریکی و نیٹو افواج افغانستان میں موجود ہیں۔ کیونکہ انکی صدارت میں امریکا نے ایران کی جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کی جس پر امریکی ڈرون طیارہ مار گرایا گیا۔ چونکہ بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کا اس نوعیت کا ناجائز اور بے دریغ استعمال ان ممالک نے امریکا سے ہی سیکھا ہے۔

ٹرمپ کی تقریر سے دنیا کو پیغام ملا کہ وہ ہر معاملے میں ا مریکا کی بالادستی چاہتے ہیں۔ گلوبل ازم کے خلاف انہوں نے پیٹریاٹ ازم کو لاکھڑا کیا۔ مطلب یہ کہ وہ بین الاقوامی سطح پر موجود اتفاق رائے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے ایشو پر امریکا دنیا میں تنہا ہوچکا ہے۔

امریکی صدر کا مخاصمانہ موقف برائے چین اور ایران

ایران کے خلاف صف بندی میں بھی بین الاقوامی رائے ٹرمپ ڈاکٹرائن کو مسترد کرچکی ہے۔ برطانیہ کو یورپی یونین سے نکلوانے کی موجودہ کوششوں میں بھی امریکا کا ہی ہاتھ ہے۔ مقصد یہ کہ یورپی یونین کی سب سے بڑی سیاسی طاقت کا اخراج ہوجائے اور برطانیہ کھل کر امریکا کا جونیئر پارٹنر بن کر دیگر ممالک میں مداخلت میں ساتھ دے۔

اب بیس بائیس ممالک میں سے امریکا یا برطانیہ کس کس کو قائل کریں کہ وہ انکی سامراجی پالیسی میں سہولت کار بن جائیں۔ لہٰذا، اب امریکا کو یورپی یونین بھی پسند نہیں حالانکہ یورپی یونین بھی امریکا کو کسی غلط اقدام سے کبھی روک نہیں پائی۔

تجارتی معاملات میں ٹرمپ کی تقریر کا ہدف پاکستان کا دوست ملک چین تھا۔ ٹرمپ چین سے خفا ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے خطاب میں وہ ایران، کیوبا، وینزویلا پر بھی خوب گرجے برسے۔ شمالی کوریا کو بھی ڈکٹیشن دی کہ نیوکلیئر ہتھیارتلف کردے۔ البتہ پوری دنیا جانتی ہے کہ امریکی استعماری بیانیہ یہی ہوسکتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ ٹرمپ کھل کر بول رہے ہیں،کوئی اور صدر ہوتا تو ذرا الفاظ کے چناؤ میں احتیاط برتتا۔ یا بات کو گھما پھرا کر بیان کرتا۔

پاکستان حکومت کے لئے پیغام

امریکی صدر کا مخاصمانہ موقف برائے چین اور ایران پاکستان حکومت کے لئے بھی بالواسطہ پیغام ہے۔ کیونکہ اس وقت امریکی بلاک کے بہت سارے ممالک بھارت کے دوست اور بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔ اور بھارت نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کی کھل کر مخالفت کردی ہے۔

امریکا بھی اس سی پیک منصوبے کے خلاف ہے۔ اور آئی ایم ایف سے جو نیا قرضہ موجودہ انصافین حکومت کے دور میں لیا گیا، اس پر امریکی وزیر خارجہ نے آن ریکارڈ بیان دیا تھا۔ اور چین کے ساتھ پاکستان کے مالی معاملات کی تفصیلات جو خفیہ تھی، اسے آئی ایم ایف کے توسط سے امریکا سے شیئر کرلیا گیا۔ ہاؤڈی مودی میں امریکی صدر کی شرکت بھارت سے کے ساتھ تعلقات کی گہرائی کو منعکس کرچکی۔

تو ایک طرف امریکا بھارت کے ساتھ ہے اوردوسری طرف چین کے خلاف ہے۔ یعنی پاکستان کو امریکا سے خیر کی امیدرکھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔

پاکستان کے تعاون کو بھی فراموش کرگئے

جنرل اسمبلی خطاب میں اامریکی صدر نے روس کے حوالے سے سکوت اختیار کیا۔پاکستان کے تعاون کو بھی فراموش کرگئے۔انسانی حقوق کی باتیں کیں لیکن فلسطین و کشمیر تنازعات کو یکسر فراموش کردیا۔ روہنگیا مسلمان بھی انکی تقریر میں جگہ نہ پاسکے۔ کیا ان انسانوں کے حقوق ہیں بھی یا نہیں؟

بھارت کی مذمت نہیں کی

بحرین کی جمہوری تحریک پر بات نہیں کی۔ لبیاکو موجودہ صورتحال تک کس نے پہنچایا؟! یہ سب انکی تقریر سے غائب تھا۔ مظلوم کشمیریوں کے حق میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک لفظ نہیں بولے۔ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں ایک جملہ تک نہیں کہا۔ انٹرنیشنل لاء کی مسلسل خلاف ورزی پر اسرائیل کی سرزنش نہیں کی۔ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی پر نریندرا مودی اور بھارت کی مذمت نہیں کی۔

یمن جنگ اور شام کے بحران پر گفتگو کی۔ مگر وہاں بھی ایران پر تنقید کی۔ افغانستان کی صورتحال پر طالبان کے خلاف بولے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انکی تقریر اسرائیل کی مکمل حمایت پر مبنی تھی۔ اور ایسا لگ رہا تھا کہ ایران کی مخالفت کی وجہ بھی ایران کی فلسطین پالیسی ہی ہے سبب ہے۔

امریکا بھارت کے ساتھ اور چین کے خلاف

بات صرف اتنی نہیں کہ امریکا بھارت کے ساتھ اور چین کے خلاف ہے۔ اس پالیسی کے ساتھ ایک اور ایشو بھی جڑا ہوا ہے، یعنی ایران۔ امریکا اور اسکے لاڈلے جنگجو ممالک سبھی ایران کے خلاف متحد ہیں۔ اور یہ سارے پاکستان کی ٹانگ گھسیٹ کر اپنی صف میں لانا چاہتے ہیں۔ یمن کی غیر ضروری یکطرفہ جنگ اور جارحیت پاکستان کے خلاف ایک ٹریپ ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر اس جنگ میں شرکت کی مخالفت کرکے جان چھڑالی۔مگر وہ قرض اور ادھار دے کر پاکستان کو دیگر ممالک میں مداخلت میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

جیسا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ امریکا اور سعودی عرب نے ان سے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ امریکا و سعودیہ کی کشیدگی کو ختم کروانے کے لیے کردار ادا کریں۔یعنی ثالثی کریں۔ لیکن جب عمران خان نے یہ حقیقت دنیا کو بتادی تو ٹرمپ نے اسکی تردید کردی۔ انہوں نے کہا کہ یہ عمران خان کی خواہش تھی نہ کہ انکی اپنی۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اقوام متحدہ میں ایران کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کردی۔اس متضاد اور دہرے طرز عمل سے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء سمیت کہیں بھی پائیدار امن ممکن نہیں۔ اسرائیل اور بھارت جیسے ظالم، جارح، قابض اور غاصب سے امریکی دوستی، شراکت داری اور اتحاد امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

 امریکا کو امن کے قیام سے دلچسپی نہیں

تو صاف ظاہر ہوچکا کہ امریکا کو امن کے قیام سے دلچسپی نہیں ہے۔ اور ویسے بھی جنوبی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کی تاریخ گواہ ہے کہ اقوام متحدہ ان خطوں میں جنگیں روکنے میں ناکام رہا۔ اور اس ناکامی کا سب سے بڑا ذمے دار خود امریکا ہی ہے۔

تاریخ شاہد کہ مسلمانوں یا عربوں پر ظلم و ستم ختم کرانے میں بھی اقوام متحدہ ناکام رہا۔ اور یہ بھی ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کی اس ناکامی کا سب سے بڑا ذمے دار خود امریکا ہی ہے۔ امریکی حکومت اگر اسرائیل کے خلاف قراردادیں ویٹو نہ کرتی تو شاید کچھ نہ کچھ بہتر ضرور ہوتی۔ جی ہاں، یہ امریکا ہے کہ جس کا صدر اپنے سیاسی حریف کے خلاف یوکرین کے صدر سے مدد طلب کرتا ہے۔

کیا امید رکھی جاسکتی ہے

جو سربراہ مملکت و حکومت اپنے عہدے کو اس طرح غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر اپنے ہی ملک کے سیاستدان کے خلاف استعمال کرے، اس سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے۔ اور جو امریکی سیاسی نظام واٹر گیٹ اسکینڈل، مونیکا لیونسکی اسکینڈل پررچرڈ نکسن اور بل کلنٹن کا مواخذہ کرنے کے باوجود انہیں عہدے سے معزول نہیں کرتا، وہ دیگر ممالک کے ساتھ کس طرح حسن سلوک روا رکھ سکتا ہے۔

پاکستان سمیت عرب اور مسلمان رائے عامہ

یہ بات پاکستان سمیت عرب اور مسلمان رائے عامہ کو معلوم ہے، بلکہ عالمی رائے عامہ ایسی غیر انسانی سوچ کے خلاف ہے۔ مگر اب حکمران طبقہ بھی اس تلخ حقیقت کو سمجھ لے کہ امریکا یا امریکی بلاک صرف اپنے مفاد کا ہے۔ اسکی نظرمیں پاکستان جیسے ملکوں کا کردار تنخواہ دار یا ٹھیکیدار سے زیادہ کا نہیں۔ اس لئے اب عمران خان اور پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ خود ہی سمجھ لے کہ عالمی سیاست کے اس ”ملک صاحب“ نے کشمیر پر ”نہ“ کردی ہے

محمد عمار ، شیعت نیوز اسپیشل

متعلقہ مضامین

Back to top button