اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشل

باڈہ کے چار گم نام شیعہ شہیدکسے یاد ہیں؟

سانحہ باڈہ جنرل ضیاء کے دور میں 1983ع میں وقوع پذیر ہوا۔ یہ چار عظیم فراموش شدہ شہید ہیں۔ باڈہ میں بھی ایک گنج شہیداں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

باڈہ کے چار گم نام شیعہ شہیدکسے یاد ہیں؟ انتہائی دکھ کے ساتھ کہ یہ چار بھی ان متعدد شہداء میں سے ہیں جنہیں فراموش کردیا گیا۔ بلاشبہ مجموعی طور پر پاکستان اہلبیت نبوت سے محبت کرنے والوں کی سرزمین رہی ہے۔پھر بھی ناصبیت کے جراثیم بھی کونوں کھدروں میں موجود ضرور رہے۔ ناصبیت محض مکتب کا نام نہیں بلکہ کیفیت کا نام بھی ہے۔یہ چار شہداء بھی اہلبیت علیہم السلام سے بغض رکھنے والوں کی حیوانی سفاکیت کا ہدف قرار پائے۔

ناصبیت بمقابلہ اسلام

اہل بیت ؑ سے بغض و عناد کی مذموم کیفیت بسا اوقات تاریخ انسانی میں سانحات کا باعث بنی۔ طول تاریخ میں مکتب اہل بیت ؑ کے پیروکاروں کی شہادتیں انسانیت سوز ی کا ناقابل تردید ثبوت ہیں۔

یہ الگ بات کہ مکتب اہل بیت ؑ یعنی اسلام ناب محمدی، یعنی تشیع کی حقانیت کی انہی عظیم شہداء کے خون نے حفاظت کی۔ شمع رسالت و امامت و ولایت کے وہ پروانے جنہوں نے جام شہادت نوش کیا، ان کے درجات بلند ہیں۔ مگر وائے ہو ہماری غفلت پر کہ بہت سے عظیم شہید ہماری تاریخ میں فراموش کردیئے گئے۔

سانحہ باڈہ لاڑکانہ

حیف ہو ہم پر کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے بہت سے حقیقی روحانی بیٹوں کو ہم نے بھلادیا۔ یہ ناچیز یہ لکھنے پر مجبور ہے کہ وادی حسین ؑ سمیت کراچی اور بہشت زہراکوئٹہ میں مدفون شہداء خوش قسمت ہیں۔ لاہور سمیت پنجاب کے وہ ہائی پروفائل شہداء خوش قسمت ہیں کہ جن کے ناموں سے عوام کسی حد تک آشنا ہیں۔ حتیٰ کہ سانحہ ٹھیڑی خیرپور سندھ کے شہداء کو بھی کسی حد تک یاد رکھاگیا۔

مگر پاکستان کے صوبہ سندھ کے اہم سیاسی ضلع لاڑکانہ کے دیہی شہر باڈہ کے چار شہید ہمیں یاد نہ رہے۔ خدا ہماری اس غفلت کو معاف فرمائے۔ سانحہ ٹھیڑی جنرل ایوب خان کے دور میں رونما ہوا۔جبکہ سانحہ باڈہ جنرل ضیاء کے دور میں 1983ع میں وقوع پذیر ہوا۔

باڈہ تاریخی آثار موئن جو دڑو سے نزدیک دیہی علاقہ ہے۔ دریائے سندھ یہاں سے زیادہ دور نہیں۔ ہوا یوں کہ یہاں مکتب اہل بیت ؑ کے پیروکاروں نے ایک شیعہ عید گاہ تعمیر کی۔ باڈہ میں ایک بڑا گڑھا نما پلاٹ تھا جسے گندے پانی کا جوہڑ کہنا مناسب ہوگا۔ یہ پلاٹ حسینی عزاداروں نے خریدا۔ اس پر کافی محنت کرکے اس کو اس قابل بنایا کہ یہاں عید گاہ تعمیر ہوجائے۔

مگر صد افسوس کہ یہاں جب گندے پانی کا جوہڑ تھا تب کسی کو اعتراض نہ تھا۔ جونہی عید گاہ تعمیر ہوئی۔اور پہلی مرتبہ اس علاقے میں شیعہ عیدگاہ میں نماز عید الاضحی کا اہتمام ہوا۔ ناصبی کیفیت کا حامل طبقہ پہلے سے اس پر نظر رکھے بیٹھا تھا۔ سازش پہلے سے تیار تھی۔ خونیں حملہ کردیا گیا۔ چار شیعہ مسلمان اس حملے میں شہید ہوئے۔

گھر گھر علم لہراتے ہیں

گوکہ چار قیمتی جانوں کا نقصان ضرورہوا۔ لیکن باڈہ میں قرآن و اہل بیت ؑکی نورانی تعلیمات کی تبلیغ و ترویج کی راہ کی ہر رکاوٹ دور ہوگئی۔ قاتلان کا انجام بھی عبرت ناک ہوا۔ مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ انکی اگلی نسلوں کو اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے محبت اہل بیت ؑ عطا ہوئی۔ آج باڈہ میں ان گھروں پر بھی حضرت عباس علمدار ؑ کے علم کی شبیہہ لہراتی ہے۔

جس طرح دیگر سانحات کی یاد میں عزاداری برپا کی جاتی ہے۔ اسی طرح ان شہداء کا بھی حق بنتا ہے کہ انکی یاد زندہ کی جائے۔ یہ چار عظیم شہید فراموش شدہ شہید ہیں، یہ چار گم نام شہید ہیں۔ باڈہ میں بھی ایک گنج شہیداں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ امام حسین ع کی عزاداری کی نورانیت انہی شہداء نے جان قربان کرکے بچائی۔

سانحہ باڈہ کے عظیم شہداء کی یاد

اے سندھ کے شہر باڈہ، تیرے ان عظیم بیٹوں کو سلام۔ یہ چار گم نام شہید راہ خدا، راہ حسینی میں جان نچھاور کرگئے۔ ان کے مقدس خون نے مکتب فاطمی وعلوی کی آبیاری کی۔ اللہ اکبر سے یا حسین ؑ تک کی صدائیں خون شہداء کے اثر سے سند قبولیت پارہی ہیں۔

باڈہ کے ان عظیم شہیدوں کی یاد منانا ہم پر قرض ہے۔ اگر پانچ افراد بھی کسی ایک سانحے کے شہید کی برسی کے میزبان بن جاتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ پانچ دس افراد مل کر کسی ایک پروگرام کا ذمہ مستقل بنیادوں پر اپنے سر لے لیں۔ اگر ہر شہر میں اس طرح ہوجائے تب بھی شہداء کی برسی پر ہر سال ملک گیر سطح کے اجتماعات ممکن ہیں۔

تحریر : عین علی شیعت نیوز اسپیشل

(More to be added)

متعلقہ مضامین

Back to top button