اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشل

مکہ کانفرنس، سعودی عرب مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام

تحریر : عین علی شیعت نیوز اسپیشل

عالم اسلام و انسانیت کے مقدس ترین شہر مکہ میں سعودی عرب کی حکومت نے تین بڑے عرب و اسلامی اجتماعات کی میزبانی و سربراہی کی۔جگہ مکہ المکرمہ اورشب و روزرمضان المبارک کے مقدس ترین مہینے کے، اسکے باوجود سعودی حکومت ناکام و نامراد رہی کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے اور سعودی بدنیتی ان اجتماعات میں بھی بے نقاب ہوئی۔ جو سمجھتے ہیں سعودی حکومت ناکام و نامراد نہیں بلکہ کامیاب ہوئی ہے، وہ اس سوال کا جواب ڈھونڈیں: کیا واقعی مکہ کانفرنسوں میں جی سی سی، عرب لیگ اور او آئی سی کے پلیٹ فارم سے سعودی عرب کی حکومت اپنے اہداف کو حاصل کرپائی؟

مکہ کانفرنس میں جی سی سی اور عرب لیگ کے پلیٹ فارم سے ایران کے خلاف بیان جاری کرکے بھی سعودی حکومت زمینی حقائق میں معمولی سی تبدیلی لانے میں بھی ناکام رہی ہے۔

اگر مرضی کے چند تنقیدی و مذمتی بیانات یا اظہار یکجہتی اور حمایت کے اظہار پر مبنی اعلامیے، پریس ریلیز اور گروپ فوٹو سیشن ہی سعودی ہدف تھا، تو اسکے لئے اتنا خرچہ اور اپنا اور دیگر ممالک کے سربراہان اور خود اپنا اتنا وقت ضایع کرنے کی کیا ضرورت تھی!! پچھلے بیانات، پریس ریلیزیں، فوٹو سیشن یا وڈیو فوٹیج جمع کرکے ایک اور مرتبہ دنیا بھر کے ذرایع ابلاغ کے توسط سے جاری کردیتے۔ جو کچھ سعودی حکومت دکھانا چاہتی تھی، یہ سب کچھ تو دنیا پچھلے کئی برسوں سے دیکھتی آرہی ہے، اس میں نیا پن تو کچھ بھی نہیں ہے۔

مکہ کانفرنس میں جی سی سی اور عرب لیگ کے پلیٹ فارم سے ایران کے خلاف بیان جاری کرکے بھی سعودی حکومت زمینی حقائق میں معمولی سی تبدیلی لانے میں بھی ناکام رہی ہے۔ مثال کے طور پر یمن میں سعودی فوجی اتحاد کی جنگ اور یمن کی حوثی انصار اللہ تحریک کے خلاف اور ایران کے خلاف الزامات کو دہرادینے کے لئے مکہ میں سربراہی اجلاسوں کی کیا ضرورت تھی، یہ تو پہلے بھی جاری ہوچکے ہیں۔ کیا یمن کی مزاحمتی حوثی تحریک کو ان بیانات سے انکے برحق موقف سے پیچھے ہٹانے میں سعودی حکومت کامیاب ہوگئی یا ایران کو اسکا موقف تبدیل کرنے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہوگئی؟! ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا۔

یمن کی مزاحمتی حوثی انصار اللہ تحریک اور انکی اتحادی یمنی افواج کا موقف واضح ہے کہ سعودی فوجی اتحاد یمن پر مسلط جنگ کو ختم کرے، حملے بند کرے، نیابتی گروہوں کی سرپرستی ترک کرے اور یمن کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے، یمنیوں کو پرامن طریقے سے مذاکرات کے ذریعے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے دیں۔

جی سی سی اور عرب لیگ ہنگامی سربراہی اجلاس میں سعودی عرب نے یمن جنگ کے حوالے سے نہ تو کوئی نئی ”کامیابی“ حاصل کرلی ہے اور نہ ہی کوئی ٹھوس اور عملی حمایت، جی سی سی اور عرب لیگ کے اجتماعات کے بعد بھی صورتحال وہی ہے جیسی پہلے تھی!!

دوسری طرف سعودی فوجی اتحاد ہر صورت میں یمن میں حوثی تحریک سمیت ہر ایسے غیرت مند یمنی رہنما کو مٹانے کے درپے نظر آتا ہے کہ جو یمنی رہنما یا جماعت امریکا و اسرائیل کی عرب مسلمان ممالک میں مداخلت اور سازشوں کے خلاف ہے۔ یمنی حوثی یا انکے اتحادی عرب مسلمان ممالک کے خلاف نہیں تھے اس کے باوجود سعودی فوجی اتحاد نے ان پر یکطرفہ اور بلا اشتعال جنگ مسلط کردی۔ مارچ 2015ع سے سعودی فوجی اتحاد یمن پر جارحیت کررہا ہے۔ لہٰذا جی سی سی اور عرب لیگ ہنگامی سربراہی اجلاس میں سعودی عرب نے یمن جنگ کے حوالے سے نہ تو کوئی نئی ”کامیابی“ حاصل کرلی ہے اور نہ ہی کوئی ٹھوس اور عملی حمایت، جی سی سی اور عرب لیگ کے اجتماعات کے بعد بھی صورتحال وہی ہے جیسی پہلے تھی!!

البتہ مکہ کانفرنس (جی سی سی و عرب لیگ) میں بعض سربراہان مملکت نے شرکت نہ کرکے اور اپنے نمائندگان کو بھیج کر سعودی عرب کے اس واویلا کی اہمیت کو کم ضرور کردیا کہ سعودی عرب کو خطرات لاحق ہیں۔ خاص طور پر مراکش، سعودی کشیدہ تعلقات قطر، سعودی تنازعہ، عمان اور کویت کا ایران کے خلاف سخت عملی اقدامات سے گریز کرنا اور عراق کے صدر برہم صالح کا عرب سربراہی اجلاسوں میں ایران کے خلاف موقف سے عدم اتفاق،یہ موٹی موٹی چند مثالیں ہیں کہ سعودی حکومت مکہ کانفرنس سے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام و نامراد رہا ہے۔

اگر اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے سربراہی اجلاس پر نگاہ کریں تو یہاں تو معاملہ بالکل ہی سعودی عرب کے خلاف نظر آتا ہے۔او آئی سی مکہ سرابراہی اجلاس نے مسئلہ فلسطین پر فوکس کیا، اسرائیل کو ہٹلر اور اسکی نازی تحریک سے تشبیہ دی، القدس کوآزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قراردیا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر وغیرہ امریکی حکومت کی نام نہاد ڈیل آف دی سینچری کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے میں سہولت کار بنے ہوئے ہیں، لیکن او آئی سی مکہ کانفرنس نے ڈیل آف دی سینچری کو اسکے رسمی اعلان سے پہلے موت کے گھاٹ اتاردیا۔

عالم اسلام و عرب کی دنیا کے کم از کم ایک سو ممالک میں عالمی یو م القدس کی ریلیاں اس مرتبہ بہت زیادہ کامیاب رہیں کیونکہ ہر سال یہ امریکا و اسرائیل کو بے نقاب کیا کرتی تھیں لیکن اس برس امریکی اسرائیلی سہولت کار منافقین مکہ بھی بے نقاب ہوئے!!!

سعودی حکومت کی مکہ کانفرنسوں کی ٹائمنگ بھی سازشانہ تھی۔ یعنی جب پوری دنیا امام خمینی اور امام خامنہ ای کی اپیل پر جمعۃ الوداع کے روزعالمی یوم القدس کے اجتماعات کی تیاریوں میں مصروف تھی تو منافقین مکہ عبداللہ بن ابیہ کے پیروکار بنے نظر آرہے تھے۔ او آئی سی سربراہی اجلاس میں رکن ملک ایران کے صدر حسن روحانی کو مدعو نہ کرکے بھی سعودی وہابی بادشاہت نے اپنی تنگ نظری و تعصب اور دشمنوں کے سہولت کار ہونے کا ثبوت دیا۔ خدا کی کرنی یہ ہوئی کہ عالمی یوم القدس پر ایک طرف عرب و مسلمان عوام ایران کے مقاومتی بلاک کا جزو لاینفک بن کر اسرائیل، امریکا اور انکے سہولت کاروں کے خلاف ریفرنڈم کا مظہر نظر آئے۔

دوسری طرف ایرانی صدر کی عدم موجودگی کے باوجود مسئلہ فلسطین ہی پوری کارروائی پر حاوی نظر آیا۔اس طرح مکۃ المکرمہ میں تین بڑے اجتماعات کے ذریعے سعودی حکومت جو کچھ حاصل کرنا چاہتی تھی، اس میں کوئی نئی کامیابی حاصل کرنے میں مکمل ناکام رہی۔ فلسطین پر او آئی سی کا بیان یا موقف ویسے تو پرانا ہی ہے لیکن ڈیل آف دی سینچری کو عملی جامہ پہنانے کے وقت اسی موقف کا اعادہ کرنے سے اس کی اہمیت زیادہ ہوگئی۔ کہا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام و عرب کی دنیا کے کم از کم ایک سو ممالک میں عالمی یو م القدس کی ریلیاں اس مرتبہ بہت زیادہ کامیاب رہیں کیونکہ ہر سال یہ امریکا و اسرائیل کو بے نقاب کیا کرتی تھیں لیکن اس برس امریکی اسرائیلی سہولت کار منافقین مکہ بھی بے نقاب ہوئے!!!

متعلقہ مضامین

Back to top button