اہم ترین خبریںمقالہ جات

زید حامد کی شیعہ مخالف تحریر پر سماجی رہنما گل زہرہ کا تجزیہ

تحریر گل زہرا رضوی

کچھ دیر پہلے زید حامد کی ایک تازہ تحریر نظر سے گزری جس میں انہوں نے روایتی جھوٹ اور بغض سے کام لیتے اور زمینی حقائق کو یکسر نظر انداز کرتے ایک بے سر و پا بائنری بنانے کی کوشش کی ہے ۔ تحریر میں بنیادی طور پر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ :

1۔ پاکستان میں شیعہ نسل کشی کا وجود نہیں ہے اور یہ ایران و سعودی کی فرقہ وارانہ جنگیں ہیں ۔
2۔ پاکستان میں شیعہ دہشتگرد ہیں جنکی مالی و تکنیکی معاونت ایران کر رہا ہے ۔

اس تحریر میں زید حامد نے نہ صرف مظلوم کو مظلوم ماننے سے انکار کر دیا بلکہ اس سے بڑا ظلم کرتے مظلوم کو ظالم کی صف میں لا کھڑا کر دیا ۔ پاکستان میں شیعہ نسل کشی سے انکار کوئی نئی بات نہیں ہے ، کمرشل لبرل لابی ہو یا لفافہ صحافی ، ب ہی اس دلخراش حقیقت کا رخ بدلنے کی کوشش کرتے ہیں اور شیعہ نسل کشی سے یکسر انکار کرتے اسے فرقوں کی جنگ قرار دیتے ہیں ۔ پہلے یہ سمجھیں کہ نسل کشی یعنی Genocide کیا ہے ۔ Geno یعنی قبیلہ اور ۔Cide یعنی قتل ۔ جینو سائیڈ سے مراد کسی قبیلے / گروپ کو اس انداز میں تباہ کرنا کہ انکا وجود ہی ختم ہو جائے ۔ ضروری نہیں کہ یہ خاتمہ یکمشت یا بڑے پیمانے پر قتل و غارت سے ہو ، یہ ایک مسلسل عمل ہے جس سے کسی گروہ کو ذہنی ، جسمانی و دیگر نقصانات پہنچائے جاتے ہیں ۔ اس تعریف کی روشنی میں پاکستان میں 1980 سے اب تک شیعہ پاکستانیوں کی حالت کا جائزہ لیا جائے تو کوئی بھی منصف مزاج انسان یہ کہنے میں دیر نہیں لگائے گا کہ پاکستان میں شیعوں کی نسل کشی ہو رہی ہے ۔

شیعوں کو کسی اور وجہ نہیں بلکہ عقیدے کیوجہ سے مارا جا رہا ہے ؟ ان میں ڈاکٹر، وکلاء ، اساتذہ، طالب علم تو ہیں ہی ، شیر خوار بچے بھی محفوظ نہیں ہیں

پچھلے پچیس تیس سال میں پاکستان میں پچیس ہزار کے قریب شیعہ مارے گئے ، آپ ان تمام واقعات کا ایک ایک کر کے جائزہ لیں ، ہر واقعے کی بنیاد ان افراد کا شیعہ ہونا تھا ۔ مثال کے طور پر 20 ستمبر 2011 میں کوئٹہ مستونگ میں مسلح افراد کے ایک جتھے نے زائرین کی بس کو روکا ، اعلان کر کے سنیوں کو بس سے اتارا ، تصدیق کیلئے شناختی کارڈ دیکھے اور جس جس کی تشخیص شیعہ نام سے ہوئی ، انہیں گولیوں سے بھون دیا ۔ اس واردات کی ذمہ داری لشکر جھنگوی سپہ صحابہ نے قبول کی ، یاد رہے اس گروہ کا نعرہ ہے "کافر کافر شیعہ کافر جو نہ مانے وہ بھی کافر” ۔ کیا یہ نعرہ ہی اس بات کو ثابت کرنے کیلیے کافی نہیں کہ شیعوں کو کسی اور وجہ نہیں بلکہ عقیدے کیوجہ سے مارا جا رہا ہے ؟ ان میں ڈاکٹر، وکلاء ، اساتذہ، طالب علم تو ہیں ہی ، شیر خوار بچے بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ کوئٹہ میں بالخصوص ہزارہ شیعہ برادری پر زندگی اسقدر تنگ کر دی گئی ہے کہ حالیہ شیعہ نسل کشی کے واقعات میں ہزارہ کمیونٹی پرقریبا 120 حملے ہوئے [صرف2012 میں 56 حملے] اور ڈیڑھ ہزار سے زیادہ ہزارہ شیعہ شہید جنکہ لگ بھگ ساڑھے تین ہزار زخمی ہوئے ہیں ۔ ان سبکو مارنے سے پہلے لشکر جھنگوی نے مشہور زمانہ خط کے ذریعے آگاہ کر دیا تھا کہ یا پاکستان چھوڑ جائو یا مرنے کیلئے تیار ہو جائو کیونکہ تم "ناپاک شیعہ” ہو اور پاکستان پاک لوگوں کی جگہ ہے ۔ کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ انکی جانیں عقیدے کی بناء پر لی جا رہی ہیں؟ نسل کشی کی تعریف کے عین مطابق، پاکستان میں شیعوں کو جانی نقصان تو پہنچایا جا ہی رہا ہے ، ساتھ ہی ذہنی اذیت بھی دی جاتی ہے ۔ اکثر ادارے ایسے ہیں جو شیعوں کو نوکری نہیں دیتے ۔ شیعہ، بالخصوص ہزارہ شیعہ، خوف و ہراس کے عالم میں زندگی بسر کرنے یا پھر ملک چھوڑنے ہر مجبور ہیں ۔ یہ نسل کشی نہیں تو کیا ہے ؟

سعودی ریال کی ایک اور قسط:  محب وطنوں پر وطن سے غداری کا مقدمہ درج

جہاں تک بات ہے کہ یہ فرقہ وارانہ جنگ ہے ، اس بات کا سرے سے کوئی سر پیر ہی نہیں ۔ 2013 میں راولپنڈی راجا بازار پر حملے کیبعد آئی ایس پی آر نے خود ہی اس بات کی قلعی کھول دی تھی کہ یہ فرقہ وارانہ واقعات شروع کرنے کی سازش تھی اور درحقیقت دیوبندی طبقے نے خود اپنی ہی مسجد پر حملہ کیا تھا ، اس میں شیعہ برادری کا کوئی ہاتھ نہیں ۔ اگر یہ فرقہ واریت ہوتی ، تو راولپنڈی میں اس سانحے کیبعد شیعوں کے اپنے ہی امامبارگاہ نہ جلتے ۔ مزے کی بات جب اس سانحے کی ذمہ ساری شیعوں پر ڈالنے کی کوشش کی گئی تو اسکے فورا بعد کسی دیوبندی مسجد یا سنی مسجد پر کسی شیعہ حملے کی خبر نہ آئی بلکہ الٹا ملتان ، بہاولنگر ، پنڈی میں خود شیعوں پر ہی مزید حملے ہوئے ۔ یہ کیسی فرقہ واریت ہے جس میں نہ کوئی شیعہ ملوث ہے نہ سنی بلکہ ہمیشہ آگ لگانے والا وہابی دیوبندی گروہ لشکر جھنگوی سپہ صحابہ ہی نکلتا ہے ؟ صاف ظاہر ہے کہ زید حامد جیسوں کی تحریروں سے متاثر شدہ تکفیری فکر کے حامل افراد ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت دیکھنا چاہتے ہیں اور اسکے لئے برابر شیعہ سنی دونوں پر حملے کرتے ہیں ۔

۔ جب شیعہ قوم نے مسلسل دس دن صدر کے گھر کے سامنے دھرنا دیا یہ کہتے ہوئے کہ گمشدہ افراد کو سامنے لایا جائے یا انکا جرم بتایا جائے ، تو ان پر جھوٹے مقدمے ڈال کر انہیں دہشتگرد بنا کر پیش کر دیا گیا

تحریر میں دوسری بنیادی بات پاکستان میں شیعہ دہشتگردوں سے متعلق ہے اور اس میں انیس شیعہ افراد کا ذکر کیا گیا ہے ۔ کراچی میں صدر عارف علوی کے گھر کے باہر دس دن سے دھرنا دیئے بیٹھے شیعوں کے بارے میں معمولی سی جانکاری رکھنے والا انسان بھی بتا سکتا ہے کہ جن افراد کو حال ہی میں "شیعہ دہشتگرد” بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ، یہ وہ مسنگ شیعہ پرسنز ہیں جنہیں ادارے رات کی تاریکی میں انکے گھر سے اٹھا کر لے گئے تھے ۔ جب شیعہ قوم نے مسلسل دس دن صدر کے گھر کے سامنے دھرنا دیا یہ کہتے ہوئے کہ گمشدہ افراد کو سامنے لایا جائے یا انکا جرم بتایا جائے ، تو ان پر جھوٹے مقدمے ڈال کر انہیں دہشتگرد بنا کر پیش کر دیا گیا ۔

زید حامد کی ایک بار پھر شیعہ مسلمانوں کوریاست مخالف قراردینے کی مذموم کوشش

زید حامد جیسے افراد ، جنکی کچھ فالور شپ بھی ہے ، کو تھوڑا ذمہ دارانہ رویہ دکھانا چاہئے ۔ پاکستان میں شیعہ پہلے ہی تکفیری دیوبندی وہابیوں کی نفرت کا شکار ہیں اور اوپر سے اس قسم کی تحاریر شیعوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث ہی بنتی ہیں ۔ پاکستان میں شیعہ ، صوفی بریلوی سنی ، غیر مسلم ، معتدل دیوبندی ، لبرلز سب ہی تکفیری دیوبندی وہابیوں کی دہشتگردی کا نشانہ بن چکے ہیں جن کی کل تعداد اسی ہزار کے لگ بھگ ہے اور جن میں پچیس ہزار کے قریب شیعہ شامل ہیں ۔ شیعہ پاکستان میں کوئی عسکری ونگ نہیں رکھتے نہ ہی کبھی دہشتگردی کی کسی واردات میں ملوث پائے گئے ہیں ۔ شیعہ، پاکستان میں نسل کشی کا شکار ہیں ۔ انکا ساتھ دیجئے نہ کہ خرافات اور جھوٹ پر مبنی تحاریر سے لوگوں کو انکے قتل پر اکسائیں ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button