مقالہ جات

کربلائے قطیف

شیعیت نیوز: تاریخ کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ میثم تمار امام علی ع کے صحابی تھے ایک دن امام علی ع کے ساتھ جا رہے تھے امام علی ع نے کھجور کے چھوٹے سے پودے کی طرف اشارہ کرکے فرمایا میثم اس کھجور کے درخت پہ تمہیں میری محبت کے جرم میں پھانسی پہ لٹکایا جائے گا، اس دن کے بعد تو جیسے میثم تمار کو اس پودے سے عشق ہوگیا ہو، روزانہ اس کھجور کے پودے کو پانی دیتے اور اس کی حفاظت کرتے اور آخر پھر وہ پودا درخت بنا اور میثم تمار عشقِ علی ع میں پھانسی پہ لٹکا دئیے گئے۔ آج اور قیامت کی صبح تک میثم تمار کا نام زندہ و سلامت رہے گا مگر شائد پھانسی پہ لٹکانے والوں کی قبروں کے نشان بھی مٹ چکےہیں سوائے قاتل کے ان کو کوئی نہیں جانتا۔

سعودی عرب کے مشرقی صوبے دمام کا ایک چھوٹا سا شہر قطیف جس کی آبادی ایک لاکھ اور چھپن ہزار کےقریب ہے وہاں کے مکینوں کے مزاج بھی میثم تمار سے ملتے ہیں ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان سب کے ایک نا ایک دن سر قلم ہونے ہیں اور ان کی خواتین کے مقدر میں زندان کی تاریکیاں اور پھر قبروں کے اندھیرے ہیں مگر یہ عشقِ علی ع میں ایسے مست ہیں کہ ان کو شہزادہ قاسم ع کی طرح موت شہد جیسے میٹھی لگتی ہے۔

آپ قطیف شہر میں کسی طرف سے بھی داخل ہوں آپ کو ہر گھر کے بعد باہر ان کے شہداء کی تصاویر آویزاں ملیں گی۔ ہر گھر کے اوپر سرکارِ وفا ع سے وفادار رہنے کا جھنڈا لہراتا ملے گا۔ دیواریں فضائل اہل بیت ع کی احادیث رسول ص سے سجی نظر آئیں گی۔ بچہ بچہ شہزادہ علی اکبر ع کے عشق میں مبتلا ملے گا، خواتین باپردہ اور ہاتھوں میں تسبیح پکڑے ذکرِ خُدا میں مشغول ملیں گی لیکن زینب بنت علی ع کی طرح پہاڑ جتنا حوصلہ بھی رکھتی ہیں کسی بھی یذید کے دربار میں خطبوں سے یذیدیت کا سرکاٹنے کی ہمت بھی رکھتی ہیں۔ بزرگ مردوں کے نورانی چہرے اور کثرتِ سجدہ کی وجہ سے ماتھوں پہ سنتِ سجاد ع سجائے پھرتے ہیں۔

پورے سعودیہ میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اس قوم کا قصور کیا ہے؟ آئے روز ان لوگوں پہ ظلم و بربریت کے پہاڑ آخر کیوں توڑے جاتے ہیں؟ ان کے پاس اسلحہ و بارود کی بجائے ایک ڈنڈا تک نہیں ہوتا پھر آخر کیوں ان پہ آگ برسائی جاتی ہے؟ ان کے گھروں کو مسمار کیوں کر دیا جاتا ہے؟ ان کے جوانوں کو جوان ہونے سے پہلے کیوں کفن پہنا دئیے جاتے ہیں؟ تو سنئیے ان کا قصور وہی ہے جو حسین ابن علی کا تھا باطل کی بیعت نا کرنا، ظالم کے سامنے سرناجھکانا، اور یذید ِ وقت کے سامنے کلمہ حق بیان کرنا ہے ، اور اس سے بڑا جرم محبتِ آلِ رسول ع ہے کیونکہ محبتِ اہل بیت ع دِلوں میں باطل سے نفرت اور ظالم سے ٹکرانے کی جرآت پیدا کرتی ہے اور یذیدِ وقت یہ نہیں چاہتا کہ اس کے سامنے کوئی سر اٹھائے۔

مگر۔۔۔۔۔۔ یہ رب ذولجلال کا قانون ہے کہ باطل مٹ کے رہتا ہے اور حق کی آواز ہمیشہ گونجتی رہتی ہے۔ وقت قریب ہے کہ ماضی کی طرح یذیدیت ہمیشہ کےلئے دفن ہوجائے گی اور حسینیت امر ہوجائے گی۔

الھم عجل لولیک الفرج

تحریر: علی اصغر

متعلقہ مضامین

Back to top button