مقالہ جات

افغان طالبان کے ایران کے ساتھ مذاکرات

شیعیت نیوز: چند دن پہلے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاھد نے ایرانی نیوز ایجنسی "ایلنا” کو انٹرویو دیتے ہوئے چند غیر متوقع بیانات دئیے ہیں جو اس وقت فارسی ذرائع ابلاغ اور پاکستانی سوشل میڈیا مبصرین کے درمیان زیر بحث ہیں.ذبیح اللہ مجاھد نے مجموعی طور پر تمام افغانوں کو ایک قوم سے تعبیر کیا اور خصوصا شیعوں جن کے فزیکل وجود کے لیے طالبان ہمیشہ سے ایک تھریٹ رہے ہیں کو افغان قوم کا حصہ قرار دیا اور انہیں اپنا بھائی کہا ہے. افغان طالبان کے ترجمان نے تکفیر سے برأت کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ داعش کے افعال کو نیز شریعت مخالف قرار دیا ہے.افغان طالبان کا یہ بیانیہ اس کے سابقہ بیانیے اور اعمال کے بالکل برعکس ہے اور یہ بیانیہ افغان طالبان کے رہنماوں کی ایرانی آفیشلز سے ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے. افغان طالبان افغانستان کے شیعوں سمیت ہمسایہ ممالک کے شیعوں کے لیے ہمیشہ سے ایک خطرہ رہے اور مختلف اوقات میں ہزاروں شیعہ مسلمان طالبان کے ہاتھوں قتل ہوتے رہے اور لاکھوں ہجرت پر مجبور رہے ہیں. ایران میں اس وقت 24 لاکھ کے قریب شیعہ افغان مہاجرین مقیم ہیں جو تقریبا تمام طالبان کے 5 سالہ دور حکومت میں شیعوں پر ظلم وستم کے خوف سے ایران ہجرت کرگئے تھے.حزب اسلامی کے سربراہ عبد العلی مزاری رح کو شہید کرنے اور شیعوں کو کابل سے بے دخل کرنے سے لیکر مزار شریف پر قبضے کی خونریز جنگ اور اس کے بعد تک دسیوں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں طالبان کے توسط سے افغانستان کی شیعہ ہزارہ قوم کی نسل کشی ہوئی ہے. سلفی, دیوبندی و وہابی افکار کے حامل اس گروہ "طالبان” کے تقریباً تمام سابقہ رہنما شیعوں کے افغانستان سے فزیکل وجود کے خاتمے اور سنی پشتونوں کی بطور قوم برتری کے قائل رہے ہیں. طالبان دور حکومت میں بعض شیعہ رہنما طالبان کے ساتھ ملنے اور اس حکومت کو بطور متفقہ قومی حکومت تسلیم کرنے کو افغان شیعہ قوم کی نجات کا واحد حل سمجھنے لگے اور اس کی بنا پر طالبان کے قریب بھی ہوئے تھے لیکن طالبان حکومت کی شیعہ مخالف پالیسز پر اس کا کوئی زیادہ اثر نہ ہوا.امریکہ کے طالبان پر حملے کے بعد 2006 میں جب دوبارہ طالبان افغانستان کے افق پر نمودار ہوئے تو اس وقت بھی ان کی شیعہ مخالف کاروائیوں اور افکار میں کسی قسم کی تبدیلی نظر نہیں آئی. یہاں تک کے چند سال پہلے داعش نے افغانستان میں موجودیت کا اعلان کردیا۔

داعشی رہنما طالبان کو خلیفہ بغدادی کی بیعت سے انکاری گروہ سمجھتے اور ان کی تکفیر کرتے ہیں.داعش کے افغانستان میں وجود نے طالبان کے وجود اور تسلط کے لیے شدید خطرہ پیدا کردیا ہے. داعش جہاں طالبان کے وجود کے لیے خطرہ ہے وہیں افغان شیعوں اور ہمسایہ ممالک کے لیے نیز خطرہ ہے. امریکی وزارت خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ تین سال میں داعش نے اغوا و قتل اور مذھبی اماکن و شیعہ اجتماعات پر بمب دھماکوں سے تقریبا 1 ہزار شیعہ شہید اور کئی ہزار زخمی کئیے ہیں.گذشتہ سالوں کےدوران ہونے والی شیعہ کے خلاف دہشت گردی افغانستان کی تاریخ میں وہ پہلا موقع تھا کہ جب طالبان نے شیعہ کے خلاف ہونے والی کسی دہشت گردی کی کاروائی کی مذمت کا بیانیہ جاری کیا. طالبان اس مذمت سے خود کو افغانستان میں موجود دیگر شدت پسند و دہشت گرد گروہوں سے علیحدہ کرنا چاہتے تھے. یاد رہے افغان پولیس کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اس وقت 26 دہشت گرد گروہ وجود رکھتے ہیں جن کے سینکڑوں تربیتی مراکز, لاکھوں مسلح افراد اور دسیوں رہنما اب بھی افغانستان میں موجود اور مختلف علاقوں پر قابض ہیں. طالبان کے بقول وہ ملک کے 50 فیصد علاقوں پر قابض ہیں. قندھار طالبان کا مرکز ہے. طالبان کو افغانستان کے افق پر اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے اس وقت چار بڑے چیلنجز درپیش ہیں. پہلا چیلنج اندرونی اختلافات پر قابو پانا اور مختلف دھڑوں کو متحد رکھنا ہے. طالبان میں ہر ایک سربراہ کی موت کے بعد ایک یا دو دھڑے جداہوکر مستقل حیثیت میں سامنے آتے رہے ہیں. طالبان کو دوسرا چیلنج امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کی صورت میں درپیش ہے. جب تک امریکہ افغانستان میں موجود ہے طالبان افغانی سیاست و حکومت میں کوئی بڑا رول پلے کرنے سے قاصر ہیں. کیونکہ جو رول طالبان مانگتے ہیں وہ مرکزی رول ہے اور امریکہ ایسا کوئی رول بھی طالبان کو دینے پر تیار نہیں ہے. طالبان کا اب تک کے مذاکرات میں سب سے پہلا مطالبہ یہی رہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے افواج واپس بلائے اور یہاں کے امور یہاں کے اسٹیک ہولڈرز کے سپرد کردے اور ان کے بقول طالبان افغانستان کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں۔

دوسری طرف امریکہ بغیر کسی ضمانت کے ایسا کوئی رول طالبان کو نہیں دینا چاہتا.طالبان کو درپیش تیسرا بڑا چیلنج افغانستان کی موجودہ وفاقی حکومت ہے. وفاقی حکومت کے حلیف جہادی افغان رہنما گلبدین حکمتیار نے طالبان کو جزوی حکومتی کردار دینے کی تجویز بھی پیش کی ہے لیکن طالبان کی خواہش ہے وہ افغانستان کے مستقبل میں کوئی بڑا رول پلے کریں جس کے لیے وہ وفاقی حکومت سے بڑے پیمانے پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں. ملا عبد المنان نیازی حکومت اور طالبان کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے. طالبان کو درپیش چوتھا بڑا چیلنج داعش کا افغانستان میں وجود ہے. طالبان دیوبندی, سلفی اور وہابی فکر کی پیداوار اور طالبان کی سب سے بڑی حمایت و افرادی قوت و نرسری اسی مکتب فکر کے ماننے والوں میں سے ہوتی ہے یعنی طالبان کا تمام انسانی و فکری سرمایہ سلفی, دیوبندی اور وہابی مکتب فکر ہے. دوسری طرف داعش نیز اسی فکر کی پیداوار اور اسی فکر کے حامل قبائل و افراد میں مقبول ہورہی ہے جس کی بنیاد پر طالبان کو اپنے نظریاتی وجود کے خاتمے کا خطرہ درپیش ہے. طالبان کے کئی زیر کنٹرول علاقوں میں داعش اور طالبان کی چند بار جھڑپیں بھی ہوچکی ہیں.طالبان نے خود کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اپنی ترجیحات کا ازسرنو تعین کیا ہے. طالبان کے بقول ایک سربراہ کی موت کے بعد دوسرے کے آنے پر اندرونی اختلافات فطری بات اور دنیا کا کوئی گروہ, تنظیم یا جماعت اس سے مبرا نہیں ہے لیکن ان کے بقول گذشتہ چند سالوں میں کافی حد تک اندرونی اختلافات پر قابو پالیا گیا اور موجودہ امیر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کی اطاعت میں بہتری آئی ہے اور طالبان کے تمام گروہ ہیبت اللہ کی رہبری میں متحد ہیں. بقیہ تین چیلنجز میں سے طالبان نے داعش اور امریکہ کے افغانستان میں وجود کو اپنی ترجیحات پر رکھا ہے۔

شیعوں کا وجود یا دیگر قومی و مذھبی گروہوں سے درپیش خطرے کو طالبان فی الحال نظرانداز کرنا چاہتے اور اپنی توجہ انہی دو بنیادی خطرات پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں. ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے طالبان ہمسایہ ممالک سمیت دنیا کے اکثر مسلمان و غیر مسلمان ممالک سے رابطے میں ہیں اور مذاکرات کررہے ہیں. ہمسایہ ممالک کو طالبان سے دوطرح کے خطرات درپیش رہے ہیں. ایک سرحد پار امن عامہ میں خلل تو دوسرا افغانستان کے اندر موجود ان ممالک کے مفادات کا عدم تحفظ. طالبان اگر ان ممالک کو ان دونوں امور کی ضمانت دے دیتے تو یہ ممالک افغانستان کے مستقبل میں طالبان کے کسی واضح کردار ادا کرنے میں نہ فقط مانع نہیں ہوں گے بلکہ طالبان کی مدد کرنے پر تیار ہوں گے.ایران کے طالبان کے ساتھ موجودہ مذاکرات کے تناظر میں عرض ہے کہ ایران کے افغانستان میں دو طرح کے مفادات ہیں ایک شیعہ ہزارہ قوم کے وجود و حقوق کا تحفظ جو مذھبی اشتراک کیوجہ سے ہمیشہ افغانستان کے اندر ایران کی سب سے بڑی طاقت اور حامی ثابت ہوئے ہیں. دوسری طرف افغانستان میں موجود ایران مخالف طاقتوں کو متزلزل رکھا جانا اور ایران کے خلاف کسی بڑے اقدام سے باز رکھنا.داعش اور امریکہ افغانستان میں موجود ایران کے دو بڑے دشمن ہیں. ذبیح اللہ مجاھد کا موجودہ بیان اور ایران طالبان مذاکرات انہی دو پہلووں کے ذیل میں قابل تجزیہ ہیں یعنی ایک طرف مشترکہ دشمن سے جنگ تو دوسری طرف ایرانی مفادات و حامیوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت.اس تناظر میں مشکل وہاں پیش آتی ہے جب ہم طالبان کے ماضی اور فکری خط پر نظر ڈالتے ہیں. طالبان نظریاتی لحاظ سے بھی عرب ریاستوں کے زیادہ قریب ہیں. طالبان کی سیاسی فکر سلفی اور وہابی افکار سے مستخرج ہے جس میںں آزادی, انسانی حقوق, عوام کا حق حکومت, مساوات و دیگر سماجی و سیاسی تصورات کی تشریح جدید دور کے تقاضوں سے کوسوں دور ہے. طالبان کا یہی فکری خط اس بات کی دلیل ہے کہ طالبان کا افغانستان کے شیعوں و دیگر کے بارے نرم گوشہ اور بیانات ان اقوم و مذاھب کے حقوق کے تحفظ کی عارضی ضمانت تو ہوسکتے ہیں لیکن کسی طویل المدت اور ہمیشگی ضمانت یا متمدن معاشرے کی تشکیل میں معاون ثابت ہونے کا گمان درست نہیں ہے.طالبان کا افغانستان کے مستقبل میں کیا کردار ہوگا اس کا فیصلہ وقت کرے گا لیکن جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ طالبان اپنی فکر و سوچ اور سیاسی نظریے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے اور اگر طالبان دوبارہ حکومت میں آتے یا مستقبل کے افغانستان میں کوئی اہم رول پلے کرتے ہیں تو نتیجہ 1996 سے 2001 کے دور حکومت سے زیادہ مختلف نہیں نکلے گا.افغان طالبان کے ترجمان کے موجودہ بیانات مشترکہ دشمن کے خلاف جنگ میں مدد کی شرط کا نتیجہ ہیں. لیکن اہم یہ ہے کہ ایران اپنے اس بالقوہ دشمن سے بالفعل دشمن کے خلاف کیا مدد لے سکتا اور مستقبل میں اس دشمن جسے آج وہ خود طاقتور بنائے گا سے کیسے نمٹے گا۔

 

تحریر: ڈاکٹر شاہ

متعلقہ مضامین

Back to top button