مقالہ جات

عام انتخابات کیا کھویا کیا پایا؟

الحمدللہ عام انتخابات 2018 ایک دو دھشتگردی کے سانحات کے علاوہ کلی طور پر پر امن رہے اور واقعا اس نازک وقت میں اتنے پر امن اور تاریخ ساز انتخابات کرانے کا سہرا پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے سر ہے

جیسا کہ انتخابات سے قبل اپنی ایک تحریر میں عرض کیا کہ چار قابل عزت شخصیات اس وقت پاکستان میں خود کو تشیع کے حقوق کا علمبردار تصور کرتی ہیں اور ہر ایک کی سیاسی پالیسی بھی بیان کی تھی ۔۔۔۔

اب ذرا ان انتخابات کے بعد ان بزرگان کی پالیسی کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔۔

علامہ سید جواد نقوی صاحب نے حسب سابق نہ صرف ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا بلکہ اپنے موقف کو بھی مسلسل بیان کرتے رہے اور تمام مراجع عظام کے فتاوی زمینی حقائق اور ایران کے علاوہ باقی اسلامی ممالک میں رہبر معظم کی تعلیمات کی روشنی میں شیعہ کی سیاسی ترقی کے دسیوں شواہد پیش کرنے کے باوجود پاکستانی شیعہ کو اس جمہوری نظام کے خلاف کھڑا ہونے اور قیام نظام ولایت کیلئے تیاری کا مسلسل پرچار کرتے رہے ۔۔۔ان حامیوں اور مخالفین میں سخت بحث و تمحیص کا سلسلہ چلتا رہا اور بعض اوقات اخلاقیات سے گرے ہوئے مناقشات بھی دیکھنے کو ملے کہ جو قابل افسوس امر ہے۔بہرحال جو بھی ہو عملی طور پر میرے خیال سے شاید نظام ولایت کی وجہ سے 2 فیصد شیعہ بھی نہیں ہونگے جنہوں نے ووٹ کا بائیکاٹ کیا ہو۔۔بلکہ فقط چند سو افراد نے عملی طور پر اس موقف کو اپنایا ہو گا اور باقی انقلابی برادران نے بھی ووٹ کاسٹ کیا ہو گا ۔ اور نہ بھی کریں تو وہ اپنے فیصلوں میں مختار ہیں ۔۔۔

علامہ سید حامد علی موسوی صاحب کا جیسے عرض کیا تھا کہ انکا سیاسی طور پر ملکی سطح پر کوئی خاص کردار نہیں ہوتا وہ مقامی اور جزئی سطح پر سیاسی کردار ادا کرتے ہیں چنانچہ ھمیشہ کی طرح اس بار بھی ان کا سیاسی کردار جزئی ہی رہا اور راولپنڈی کی حد تک انہوں نے مومنین کو سیاسی رہنمائی فرمائی جس کا اظہار خود شیخ رشید نے میڈیا سے گفتگو میں کیا اور موسوی صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کیا ۔۔۔

علامہ سید ساجد علی نقوی صاحب اس بار متحدہ مجلس میں شریک تھے اور 5 مذہبی جماعتوں کے اس الائنس کے نائب صدر تھے انکا انتخابی نشان کتاب تھا۔اس دفعہ یہ مذہبی اتحاد بہت بری طرح ناکام ہوا ہے کہ جسکی مرکزی قیادت کسی بھی نشست پر جیتنے میں مکمل ناکام رہی۔حتی کہ مولانا فضل الرحمن دونوں نشستوں سے سراج الحق، اسلم درانی سمیت سب کے سب پارلیمنٹ سے آؤٹ ہو گئے ۔۔اور جو جیتے ہیں ان میں سے ایک بھی شیعہ نہیں۔ یعنی خود بھی ھارے اور حصہ بھی اس الائنس کا بنے کہ جسکو قوم نے بری طرح مسترد کر دیا ہے اب دھاندلی کا رونا رونے کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اسی الائنس کے سربراہ نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنے کا اعلان کرنے کے بعد سیاسی تنہائی کا شکار ہونے پر دوبارہ پارلیمنٹ میں جانے اور حلف اٹھانے کا یو ٹرن لے لیا ہے ۔۔۔۔
خدا شاہد ہے میں قبلہ سید ساجد علی نقوی صاحب کی شرافت،پرامن جدوجہد،اور ذمہ دار پاکستانی ہونے کا معترف ہوں لیکن جب میڈیا پر انکو یا انکے افراد کو اس فضل الرحمن کے ساتھ کھڑا دیکھتا ہوں تو دکھ ہوتا ہے لوگ کس طرح ان علما سو کی وجہ سے ان علما حقہ کو اور اخلاقی لحاظ سے پاک لوگوں بھی رگڑتے ہوئے مشترکہ گالم گلوچ کر رہے ہوتے ہیں۔کہاں وہ سارے کرپٹ ظالم چور منافق اور کہاں یہ آل رسول؟ ؟؟؟اور جو نادان دوست اسکو رہبر معظم کی سیرت پر قیاس کرتے ہیں وہ فکری طور پر واقعا نابالغ ہیں کیونکہ رہبر معظم سے پوری امت مسلمہ کے اکابرین انکی سیاسی بصیرت ،شجاعت اور قیمتی موقف اور خطے میں عسکری پوزیشن کو دیکھ کر ان سے مرعوب ہو کر اتحاد کو اپنا فخر سمجھتے ہیں جبکہ یہاں تو ہم پاکستانی قوم کے ھاتھوں شکست خوردہ دین فروش کو بھی اپنے قائد کا قائد ببانگ دہل کہنا فخر سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔۔۔مفہوم کے اعتبار سے فضل الرحمن کو قائد کا قائد کہنا غلط نہیں تھا چونکہ وہ اس الاینس کا قائد ہی تو تھا لیکن ان صاحب کے منہ سے یہ منطوق بہت برا لگا جنہوں نے لفظ قائد کو انتہائی حد تک حساس بنا دیا تھا اور قیادت کا لیبل کسی کے ساتھ برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔۔۔
خیر انکی اس سیاسی پالیسی کو اس مرحلے پر پوری پاکستانی قوم نے مسترد کر دیا۔دھاندلی کا شور تو ہر انتخابات کے بعد شکست خوردہ پارٹیز کی طرف سے ہوتا ہے

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کی سیاسی پالیسی جیسے عرض کی تھی کم برے کے ذریعے زیادہ برے کا راستہ روکنے والی تھی چنانچہ 2013 میں جذباتی فیصلوں کی بجائے اس دفعہ بہت محتاط انداز میں حکمت و بصیرت سے بھر پور سیاسی کھیل کھیلا زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے فقط چند ایک سیٹوں پر مستقل طور پر امیدوار کھڑے کئے اور چند ایک نشستوں پر تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈ جسٹ منٹ کی تھی۔ باقی پورے ملک میں تحریک انصاف کی سپورٹ جبکہ بعض سیٹوں پر پی پی کی حمایت اور چند مستقل نشستوں سے بھی آخری ایام میں بعض امیدواروں کو دستبردار کرا دیا تھا اور دو نشستیں انکی پورے ملک میں مضبوط تھیں ایک کوئٹہ کی pb27آقا رضا والی کہ جو خیمے کے نشان سے امیدوار تھے اور ایک سید علی حسین نقوی کراچی ps 89 سے بلے کے نشان پر امیدوار تھے ۔۔۔ان دونوں نشستوں پر اس جماعت نے کافی کوشش کی جلسے،عوامی رابطہ مہم،قائدین کے مختلف جلسوں میں حاضری اور خطابات، بہترین الیکشن کمپین چلائی لیکن افسوس کہ یہ دو سیٹیں بھی مکتب تشیع اپنے سیاسی تشخص سے لینے میں ناکام رہا۔ دونوں امیدواروں نے دھاندلی کا الزام لگایا درخواستیں بھی دیں لیکن مسترد ہو گئیں ۔۔کیونکہ ایک طرف تقدیر الہی ہے اور دوسرے طرف پاکستانی اداروں میں گھسی ہوئی کالی بھیڑیں بھی تو شیعہ کی سیاسی کامیابی برداشت نہیں کر سکتیں۔ ابھی بھی ان دونوں حضرات نے آگے بھی قانون کا دروازہ کھٹکانے اور اپنے حق کے حصول کیلئے ہر آئینی اور قانونی طریقہ اپنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے ۔ھماری دعا ہے کہ خدا ان دو سید زادوں کو کامیاب کرے۔
یہ جماعت اگرچہ خود الیکشن میں ظاہرا کامیاب نہیں ہوئی لیکن اس کی سیاسی پالیسی دفع المضرة أولى من جلب المنفعة(فائدہ اٹھانے کی بجائے نقصان کو دور کرنا زیادہ بہتر ہے) کے مطابق مکمل کامیاب رہی ۔ان لوگوں نے عمران کو سپورٹ کر کے پاکستان میں سیاسی تبدیلی کے سفر میں اپنا حصہ ڈال کر خود کو کامیاب بنا لیا اور سابقہ تمام بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے مہرے اور سیاسی مافیہ کے مقابل محب وطن،مظلوم طبقے کی بات کرنیوالی قوتوں کو سپورٹ کرکے پاکستان کے حقیقی وارث ہونے کا ثبوت دیا۔اپنے قائد و اقبال کے پاکستان کے نعرے اور عالمی حالات سے وطن عزیز کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں پاکستان میں آنیوالی متوقعہ حکومت کے ساتھ کامیاب سیاسی ڈیل کرنے میں بھی یہ لوگ کامیاب رہے ۔پنجاب میں ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی دختر کو خواتین کی خصوصی نشست پر نمائندگی دلوانا۔اگلے آئندہ فاٹہ میں ہونیوالے صوبائی انتخابات میں ایک نشست پر ابھی سے تحریک انصاف کے ساتھ ڈیل۔۔۔اس سیاسی مذہبی جماعت کی کامیاب پالیسیز کا ثمرہ ہے
کچھ لوگ تحریک انصاف کی کامیابی پر مجلس کی خوشی کو بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ سے تشبیہ دے رہے تھے تو ان دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ پورے ملک اور پوری دنیا سے مبارکباد وصول کرنے والوں کے متوقع وزیر دفاع کا راجہ صاحب قبلہ کے پاس دفتر میں آکر حمایت کا شکریہ ادا کرنا اور اسے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر فخریہ انداز میں لکھنا یہ اس جماعت کی با بصیرت قیادت کی حکیمانہ سیاسی پالیسی کی کامیابی کی واضح علامت ہے۔
ان دونوں جماعتوں (PTIاور MWM ) کا آپس میں الیکشن کی حد تک اتحاد تھا تا قیامت کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور نہ یہ کوئی تحریک انصاف میں ضم ہوگئی ہے جو ابھی سے عمران خان کے اقدامات پر انکو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور کچھ شیعہ پیجز تو عجیب بے بصیرتی کا ثبوت دے رہے ہیں اور عمران کے اقدامات پر شیعہ کو تنقید کا نشانہ بنانے لگے ہوئے ہیں جیسے انتظار میں تھے کہ بس کچھ ہو تو شروع ہو جائیں۔۔

جہاں تک تعلق ہے عمران خان کا تو وہ وزیر اعظم بنے یا نہ بنے لیکن اس کا خطاب واقعا پاکستان کی تخلیق سے لیکر آج تک 70 سالوں میں پہلی دفعہ روح پاکستان اور پاکستان کے حقیقی بیٹے کی گفتگو عکاس تھا لیکن یہ کتنا ان باتوں پر عمل کر سکے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا تاہم فی الحال اسے ایک قومی ہیرو سمجھ کر عزت کی نگاہ سے دیکھنا ہر محب وطن کا حق ہے۔ جیسے کہ معروف ہے بندے کا حال اہم ہے ماضی نہیں ۔
عمران خان کوئی کٹر شیعہ نہیں جو ھماری طرح سوچے اور ہر تکفیری کو مسترد کر دے اگرچہ وہ لشکر جھنگوی کی مذمت اپنی پریس کانفرنسز میں کرتا رہا رہے ہیں لیکن وہ یو ٹرن لینے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ وہ وہ کم از کم 60 سے 70 فیصد شیعہ سنی عام پاکستانی اور 95 فیصد پاکستانی نوجوان طبقے کا متفقہ لیڈر ہے شیعہ کا قائد نہیں جو سو فیصد ھماری مرضی کی پالیسیز بنائے لہذا ماضی کے مقابلے بہت کچھ لو اور تھوڑا سا دینا بھی پڑے تو وطن کی خاطر شیعہ محب وطن حاضر ہے۔ ۔لیکن تکفیریوں کے مسلے پر شور مچانا اور انکو انکے اپنے موقف کی یاد دہانی کرانا نہ فقط پر امن شیعہ سنی کا مذھبی حق ہے بلکہ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے بھی اس احتجاج کا حق محفوظ ہے۔۔ کیونکہ یہ لوگ 80 ھزار پاکستانی قوم کے قاتلوں کے ھمدرد ہیں داعش اور طالبان کو فکری سہولتکار اور عسکری نرسری فراہم کرنے والے یہی لوگ ہیں ۔پورے پاکستان میں قوم نے انکو بہت بری طرح مسترد کیا ہے لدھیانوی ،آصف معاویہ، فاروقی ،رمضان مینگل، سمیت سب کے سب بری طرح شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔اور پھر پی ٹی آئی کو پاس پنجاب میں عددی برتری حاصل ہونے کے باوجود ان قاتلوں کو اہمیت دینا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے ہر پارٹی اور ادارے کی طرح کالی بھیڑیں تحریک انصاف میں بھی موجود ہے ۔۔۔۔
بہرحال ایک تکفیری کی سیٹ کو اس قدر اہمیت دینا بھی ناقابل فہم امر ہے جب اسکا باپ کچھ نہ کرسکا تو یہ کیا کر لے گا؟؟ اور اگر ھم شیعہ سنی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکو ذلیل کرتے رہیں تو یہ سیاسی حلقوں میں بھی منفور ہی رہیں گے ۔۔جسکی واضح مثال رانا ثناءاللہ کی ذلت ہے اور ایک تکفیری کا چکوال میں الیکشن میں سب تکفیریوں کی شکست کے بعد جذباتی خطاب ہے۔
تنقید اس پر کریں جو تنقید کا حق دار ہے اور اسی جہت سے تنقید کریں اور تعریف بھی اسی کی کریں جو قابل تعریف ہے۔ نہ افراط نہ تفریط خیر الامور اوسطہا
آخری عرض یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف سارا کرپٹ مافیہ اور دھشتگردوں کے سربراہ اور سہولتکار اکٹھے ہیں جو اپنی شکست کا بدلہ لینے کیلئے کوئی بھی حربہ استعمال کر سکتے ہیں لہذا عمران سے اختلاف جزئی رکھیں اور ملک کی خاطر اس کی کلی طور پر مخالفت نہ کریں کیونکہ اس کے علاوہ باقی سب کو آپ40 سال سےآزما چکے ہیں

اس مذکورہ بالا تحریر سے آپ پاکستان میں 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں شیعہ کے چاروں قابل احترام قائدین کی سیاسی پالیسیز میں سے کامیاب ،فکر، سوچ اور بابصیرت تنظیم و قیادت کا بالکل آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں ۔۔۔

میری اس تحریر سے ہر آگاہ باشعور شیعہ کو اختلاف کا پورا پورا حق حاصل ہے ۔کیونکہ مقصد اصلاح ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button