مقالہ جات

مکار تاجر اور خوفزدہ امیر زادے

ایران کاایٹمی معاہدہ اور ٹرمپ کی دھمکیاں
ایک باپھرٹرمپ نے خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب کے بارے میں توہین آمیز انداز اختیار کرتے ہوئے نہ صرف مزید رقم کا مطالبہ کیا بلکہ کہنے لگا کہ’’ خلیجی ریاستیں امیر بن ہی نہیں سکتیں تھیں اگر امریکہ کی حمایت نہیں ہوتی تو ‘‘
اس کے جواب میں سعودی وزیر خارجہ عادل جبیر کا کہنا تھا کہ قطر کو چاہیے کہ وہ امریکی افواج کا خرچہ اداکرے ۔
امریکی صدر ٹرمپ نے فرانسیسی صدر ماکروںکے ہمراہ پریس کانفرنس میں جو کچھ کہا اسے ہم زیل میں نکات کی شکل میں ڈالتے ہیں ۔
۱۔ہم شام میں اپنی افواج کی موجودگی کا مزید خرچہ نہیں اٹھاسکتے لہذا خلیجی ملکوں کو چاہیے کہ وہ اگر چاہتے ہیں کہ ہماری افواج شام میں رہیں تو اس کا خرچہ اٹھالیں ،کیونکہ وہ امیر ملک ہیں اورایسا کرسکتے ہیں ۔
واضح رہے یہ گذشتہ تین ہفتوں میں دوسری بار ہے کہ ٹرمپ اس بات کو دہرارہا ہے ۔
۲۔ہم فرانس اور برطانیہ نے شام کیخلاف کیمکل کے استعمال پر فضائی حملے بڑی کوششوں کے بعد انجام دیے ہیں اور یہ شام پر ایک کاری ضرب تھا ۔
۳۔امریکہ سات ٹریلین ڈالر خرچ کرچکا ہے لیکن اس کے مقابلے میں اسے کچھ بھی نہیں ملااور وہ اب مزید رقم خرچ نہیں کرسکتا ۔
ادھر سعودی وزیر خارجہ عادل جبیر نے ٹرمپ کے مطالبے کے جواب میں کہا کہ ’’قطر کو شام میں امریکا کی فوجی موجودگی کی قیمت ادا کرنی چاہیے
امریکا نے اپنا فوجی اڈا ختم کردیا تو قطری رجیم کا ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں دھڑن تختہ ہوجائے گا‘‘
العربیہ ٹی وی کے مطابق عادل الجبیر کا کہنا ہے کہ قطر کو شام میں اپنی مسلح افواج بھیجنی چاہییں اور اس کو ایسا امریکی صدر کی جانب سے قطر کے تحفظ اور دفاع سے دستبرداری سے قبل کرنا چاہیے۔
جبکہ اس سے پہلے عادل جبیر کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ قیادت کرے تو ان کا ملک شام میں افواج بھیجنے کے لئے تیار ہے ۔
ماہرین کہتے ہیں کہ شام میں امریکی افواج کی موجودگی کی ضرورت قطر سے زیادہ سعودی عرب کو ہے لہذا عادل جبیر کا یہ کہنا کہ قطر اس کی قیمت چکائےٹرمپ کی جانب سے مسلسل توہین آمیز رویے کے رخ کو اپنے مخالف ملک قطر کی جانب موڑ کر یہ تاثر دینا ہے کہ جیسے یہ قطر ہے جو امریکی توہین کو سہہ رہا ہے ۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی ٹرمپ کئی بار اس قسم کا مطالبہ کرتا رہا ہے
کچھ عرصہ قبل سعودی بادشاہ سے 4ارب ڈالرمانگ لیے ہیں اور یہ رقم ایسے مقصد میں استعمال کی جائے گی کہ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا۔
ترک خبرساں ادارے اناطول اور ٹی آرٹی نے انکشاف کیا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ اور سعودی فرماں روا شاہ سلمان کے مابین گزشتہ سال دسمبر میں فون پر بات ہوئی تھی۔
اس بات چیت میں ٹرمپ نے ان سے 4ارب ڈالر فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
بظاہروائٹ ہاؤس کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ رقم شام میںامریکی زیر کنٹرول علاقوں میں تعمیر نو کے کاموں میں خرچ کی جائے گی اور جنگ کی تباہ کاریوں کا ازالہ کرنے کے بعد امریکہ کے شام سے انخلاء کی راہ ہموار ہو گی ۔
امریکہ سعودی عرب کے علاوہ بھی دیگر کئی ممالک سے رقم کا متقاضی ہے تاکہ شام کے جنگ سے تباہ ہونے والے علاقوں میں بحالی کے کام ہو سکیں۔
یہ وہ علاقے ہیں جو امریکی فوج اور اس کے مقامی اتحادیوں نے شدت پسند تنظیم داعش سے خالی کروائے ہیں۔
داعش کے ساتھ جنگ ختم ہو چکی ہے اوراب امریکہ کے لیے اگلا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ان علاقوں کو بشارالاسد اوراس کے اتحادیوں روس اور ایران کے قبضے میں جانے سے روکے۔
ٹرمپ اور ماکروں کی پریس کانفرنس کا دوسرا حصہ ایران کے ایٹمی معاہدے کی اگلے ماہ توثیق یا عدم توثیق سے تعلق رکھتا تھا ۔
۱۔اگر تہران نے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کی تو اسے ’سنگین مسائل‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
۲۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ اپنے فرانسیسی ہم منصب ایمانوئل ماکروں کے ساتھ ایران کی جوہری ڈیل کے حوالے سے جلد ہی کسی سمجھوتے پر متفق ہو سکتے ہیں۔
ایران کے حوالے سے کافی بہتر گفتگو ہوئی ہے اور اس حوالے سے کچھ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
واضح رہے کہ یورپی یونین کی پوری کوشش ہے کہ امریکہ یکجانبہ طور پر اس معاہدے سے الگ نہ ہوجائے کیونکہ اس صورت میں چین اور روس سمیت متعدد یورپی ممالک اس معاہدے کے ساتھ جڑے رہے گے اور یوں یہ معاہدہ ایک نئے بحران کا سبب بن سکتا ہے ۔
۳۔ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں مزید کہا کہ اگر عالمی جوہری ڈیل ختم ہونے کے بعد اس نے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش بحال کی تو اسے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایران نے کہا ہے کہ اگر امریکا اس ڈیل سے دستبردار ہوا تو لازمی نہیں کہ ایران اس ڈیل پر قائم رہےگا۔
اس سے پہلے ایران نے کہا تھا کہ اگر وہ اسے پھاڑ ڈینگے تو ہم بھی پھاڑ ڈالے گے ۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے سرکاری ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے اس کے ایٹمی پروگرام سے متعلق عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کا احترام کرتے ہوئے اس پر کاربند رہیں، ورنہ اس کے ’نتائج شدید‘ برآمد ہوں گے۔
’’اگر کسی نے اس معاہدے کے حوالے سے دھوکا دہی کی کوشش کی، تو اسے یہ علم بھی ہونا چاہیے کہ اسے ایسے کسی بھی اقدام کے شدید نتائج بھگتا ہوں گے۔‘‘ صدر روحانی نے یہ بات ایرانی شہر تبریز میں ہزارہا شہریوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا، ’’ایران ہر طرح کی ممکنہ صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل اسی ہفتے امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں انہیں راضی کرنے کی کوشش کریں گے کہ ٹرمپ ایرانی جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔
جرمنی اور فرانس کی اس کوشش کو ایرانی جوہری معاہدے کو بچانے کے حوالے سے اب تک کا سب سے بڑا اور واضح اقدام قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس تناظر میں ’ای تھری‘ گروپ اور امریکا کے مابین طویل عرصے سے مذاکرات جاری ہیں۔ ای تھری گروپ میں جرمنی، فرانس اور برطانیہ شامل ہیں۔ اس گروپ کی کوشش ہے کہ وہ اس معاہدے کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے ان تحفظات کو دور کرنے میں کامیاب ہو سکے، جن کا اظہار ٹرمپ نے بارہ جنوری کو ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرتے وقت کیا تھا۔ تاہم بارہ مئی ایران پر عائد یہ پابندیاں نرم کرنے کے حوالے سے آخری تاریخ ہے اور جوہری معاہدے کو زندہ رکھنے کی ایک اہم ترین شرط بھی ہے۔
آئی اے ای اے کی طرف سے اس کی ایک رپورٹ میں یہاں تک کہا چکا ہے کہ ایران اس جوہری معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے لیکن امریکہ اس کے باوجود اسے ایک بدترین معاہدہ کہتا ہے کہ جس میں سارا کا سارا فائدہ ایران اٹھارہا ہے ۔
اس سلسلے میں آنے والے دنوں میں مزید تفصیل اور تجزیات پیش خدمت ہونگے

متعلقہ مضامین

Back to top button