پاکستان

لاپتہ افراد کا معمہ

شیعیت نیوز: ملک بھر میں ’نامعلوم ‘ افراد کی جانب سے ہزاروں شہریوں کے جبری اغواء اور پھر لاپتہ کردیے جانے کے سلسلے کا برسوں سے جاری رہنا ، پارلیمنٹ ، وفاقی و صوبائی حکومتوں ، آزاد و خودمختار ہونے کی مدعی اعلیٰ عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت پوری پاکستانی قوم کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ کیا اس کے باوجود ہم ایک پابند آئین و قانون ملک اور مہذب معاشرہ کہے جانے کے حق دار ہیں؟ بدقسمتی سے تمام آئینی ادارے اس لاقانونیت کو روکنے میں مکمل طور پر بے بس نظر آتے ہیں جس کا ایک واضح ثبوت قومی احتساب بیورو کے سربراہ جسٹس(ر)جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم جبری طور پر لاپتا افراد کے کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی تازہ رپورٹ ہے۔ 31 مارچ کی شام منظر عام پر آنے والی اس رپورٹ کے مطابق سال رواں کی پہلی سہ ماہی میں ان واقعات میں ماہ بماہ اضافہ ہواہے۔ جنوری میںیہ تعداد 80تھی جو فروری میں 116اورمارچ میں 125 تک پہنچ گئی۔ 31مارچ کو ملک بھر میں لاپتا افراد کی کل تعداد 1710تھی،جن میں سے 67کاتعلق اسلام آباد،300 کاپنجاب، 144کا سندھ، 937 کاخیبر پختونخوا،146کا بلوچستان،90کا فاٹا،21کا آزادکشمیر اور 5کا گلگت بلتستان سے ہے۔ رپورٹ کے مطابق پچھلے سات برسوں میں3274لاپتہ ہونے والے افراد بحفاظت اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں جبکہ گزشتہ فروری تک

لاپتہ کیے جانے والے افراد کے مجموعی طور پر 4804واقعات کمیشن کے علم میں لائے گئے۔تاہم اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ بہت سے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔سوال یہ ہے کہ ملک بھر میں ان واقعات پر اظہار تشویش کے باجود یہ معمہ حل کیوں نہیں ہوتا کہ یہ نامعلوم افراد کون ہیں اور انہیں قانون کے دائرے میں لانے کی کوششیں کا میاب کیوں نہیں ہوتیں۔اگر ہمیں ایک مہذب معاشرے کی حیثیت سے دنیا میں اپنا مقام بنانا ہے تو پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج سمیت تمام ریاستی اداروں کو اس بے انصافی اور ظلم کے خاتمے کے لیے مشترکہ طور پر پیش قدمی کرنی ہوگی۔

ملک بھر میں ’نامعلوم ‘ افراد کی جانب سے ہزاروں شہریوں کے جبری اغواء اور پھر لاپتہ کردیے جانے کے سلسلے کا برسوں سے جاری رہنا ، پارلیمنٹ ، وفاقی و صوبائی حکومتوں ، آزاد و خودمختار ہونے کی مدعی اعلیٰ عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت پوری پاکستانی قوم کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ کیا اس کے باوجود ہم ایک پابند آئین و قانون ملک اور مہذب معاشرہ کہے جانے کے حق دار ہیں؟ بدقسمتی سے تمام آئینی ادارے اس لاقانونیت کو روکنے میں مکمل طور پر بے بس نظر آتے ہیں جس کا ایک واضح ثبوت قومی احتساب بیورو کے سربراہ جسٹس(ر)جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم جبری طور پر لاپتا افراد کے کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی تازہ رپورٹ ہے۔ 31 مارچ کی شام منظر عام پر آنے والی اس رپورٹ کے مطابق سال رواں کی پہلی سہ ماہی میں ان واقعات میں ماہ بماہ اضافہ ہواہے۔ جنوری میںیہ تعداد 80تھی جو فروری میں 116اورمارچ میں 125 تک پہنچ گئی۔ 31مارچ کو ملک بھر میں لاپتا افراد کی کل تعداد 1710تھی،جن میں سے 67کاتعلق اسلام آباد،300 کاپنجاب، 144کا سندھ، 937 کاخیبر پختونخوا،146کا بلوچستان،90کا فاٹا،21کا آزادکشمیر اور 5کا گلگت بلتستان سے ہے۔ رپورٹ کے مطابق پچھلے سات برسوں میں3274لاپتہ ہونے والے افراد بحفاظت اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں جبکہ گزشتہ فروری تک

 

لاپتہ کیے جانے والے افراد کے مجموعی طور پر 4804واقعات کمیشن کے علم میں لائے گئے۔تاہم اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ بہت سے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔سوال یہ ہے کہ ملک بھر میں ان واقعات پر اظہار تشویش کے باجود یہ معمہ حل کیوں نہیں ہوتا کہ یہ نامعلوم افراد کون ہیں اور انہیں قانون کے دائرے میں لانے کی کوششیں کا میاب کیوں نہیں ہوتیں۔اگر ہمیں ایک مہذب معاشرے کی حیثیت سے دنیا میں اپنا مقام بنانا ہے تو پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج سمیت تمام ریاستی اداروں کو اس بے انصافی اور ظلم کے خاتمے کے لیے مشترکہ طور پر پیش قدمی کرنی ہوگی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button