مقالہ جات

10 رجب امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی ولادت مبارک

امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی ولادت امام موسی بن جعفر علیہ السلام کی دختر اور امام رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ سیدہ حکیمہ فرماتی ہیں: جب امام محمد بن علی (ع) کی ولادت کا وقت آن پہنچا تو امام رضا علیہ السلام نے مجھے بلواکر فرمایا: بہن حکیمہ! بی‏بی خیزران اور دایہ کے ہمراہ ایک کمرے میں چلی جائیں؛ آپ (ع) نے ہمارے لئے ایک چراغ روشن کیا اور دروازہ بند کرکے چلے گئے۔ اسی وقت درد زہ کا آغاز بھی ہوا اور چراغ بھی بجھ گیا میں فکرمند ہوئی لیکن امام جواد علیہ السلام نے چودھویں کے چاند کی مانند اچانک طلوع کیا جبکہ آپ (ع) کا بدن لطیف اور نرم و نازک سے کپڑے میں لپٹے نے لپٹا ہوا تھا اور بچے کے نور نے کمرے کو روشن کیا ہوا تھا. میں نے امام (ع) کو اٹھا کر اپنی گود میں لیا اور وہ نازک کپڑا آپ (ع) کے بدن سے الگ کیا کہ اتنے میں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام اندر تشریف لائے اور آپ (ع) کو لے کر گہوارے میں ڈال دیا اور فرمایا: بہن! گہوارے کا خیال رکھنا.تین روز گذرنے کے بعد امام جواد علیہ السلام نے اپنی آنکھیں آسمان کی جانب کھول دیں اور نگاہ دائیں اور بائیں طرف دوڑائی اور فرمایا: اشہد ان لا الہ الا الہ و اشہد ان محمداً رسول اللہ (ص).گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کی سوا کوئی معبود نہیں ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے پیغمبر ہیں۔ میں ہراساں ہوکر اٹھی اور امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میرے مولا! میں نے اس بچے سے بہت حیران کن بات سنی ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: کونسی عجیب بات سنی ہے آپ نے؟میں نے جو سنا تھا نقل کرکے سنایا.امام (ع) نے فرمایا: اے حکیمہ! اس بچے سے جن عجیب چیزوں کا آپ مشاہدہ کریں گی وہ اس سے بہت زیادہ ہیں جو آپ نے سن لیا ہے۔ (مناقب، ج 4، ص 394)امام جواد علیہ السلام کی ولادت کی پیشین گوئی ابن ابی نجران نقل کرتے ہیں: واقفیہ فرقے کے ایک راہنما "حسین بن قیاما” نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا: کیا آپ امام ہیں؟امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاں! میں ہی امام ہوں.اس شخص نے کہا: خدا کی قسم آپ امام نہیں ہیں.امام علیہ السلام چند لمحوں تک سر جھکا کر بیٹھے رہے اور پھر اس شخص سے فرمایا: تم کیوں سوچتے ہو کہ میں امام نہیں ہوں؟اس شخص نے کہا: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ "امام بانجھ نہیں ہوسکتا جبکہ آپ اس عمر میں بھی صاحب اولاد نہیں ہیں اور آپ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے۔امام رضا (ع) کی خاموشی اس بار طویل ہوگئی اور پھر سر اٹھا کر فرمایا: "خدا کی قسم! بہت زیادہ عرصہ نہیں لگے گا جب خداوند متعال مجھے ایک بیٹا عطا فرمائے گا”.ابن ابی نجران کہتے ہیں: ہم نے اس کے بعد مہینے گننا شروع کئے اور ابھی ایک سال نہیں گذرا تھا کہ خداوند متعال نے امام رضا علیہ السلام کو امام جواد علیہ السلام عطا فرمایا.(بحار الانوار، ج 49، ص 272، ح 18)امام جواد علیہ السلام کی تاریخ ولادتتمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ امام جواد علیہ السلام سنہ 195 ہجری کو مدینہ منورہ میں متولد ہوئے مگر آپ (ع) کی تاریخ ولادت میں اختلاف ہے۔:محمد بن یعقوب کلینی نے الکافی میں، شیخ مفید نے الارشاد میں اور شہید ثانی نے الدروس میں تحریر کیا ہے کہ امام جواد علیہ السلام ماہ مبارک رمضان سنہ 195 کو پیدا ہوئے.بعض مورخین نے آپ (ع) کی تاریخ ولادت شب جمعہ 19 رمضان المبارک کی شب، بیان کی ہے اور بعض دوسروں نے لکھا ہے کہ امام (ع) پندرہ رمضان کو پیدا ہوئے ہیں. تا ہم شیخ طوسی کتاب "المصباح” میں لکھتے ہیں کہ امام جواد علیہ السلام کا یوم پیدائش 10 رجب المرجب سنہ 195 ہجری ہے۔ (بحار الانوار، ج 50، ص 1 تا 14) امام رضا علیہ السلام امام جواد علیہ السلام کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟کلیم بن عمران کہتے ہیں: میں نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا: اللہ تعالی سے التجا کریں کہ آپ کو اولاد نرینہ عطا فرمائے. امام علیہ السلام نے فرمایا: میری قسمت میں ایک ہی بیٹا ہے جو میرا وارث ہوگا.جب امام جواد علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تو امام رضا علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا: خداوند متعال نے مجھے ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کی طرح دریاؤں کو شکافتہ کرنے والا ہے اور حضرت عیسی بن مریم کی طرح ہے جس کی ماں مقدس ہے اور پاک و طاہر متولد ہوا ہے۔ میرا یہ فرزند ناحق مارا جائے گا اور آسمان والے اس پر گریہ و بکاء کریں گے اور اللہ تعالی اس کے دشمن پر غضبناک ہوگا اور بہت تھوڑا عرصہ بعد اس کو دردناک عذاب سے دوچار فرمائے گا. امام رضا علیہ السلام پوری رات گہوارے میں اپنے بیٹے سے بات چیت کیا کرتے تھے۔ (بحار الانوار، ج 50، ص 15، ح 19) امام جواد علیہ السلام کی امامت کے آغاز میں شیعہ راہنماؤں کا اجتماع امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے وقت امام جواد علیہ السلام کی عمر تقریباً سات برس تھی؛ اسی بنا پر بغداد اور دیگر شہروں میں لوگوں میں اختلافات ظاہر ہوئے. ریان بن صلت، صفوان بن یحیی، محمد بن حکیم، عبدالرحمن بن حجاج، یونس بن عبدالرحمن و دیگر نے عبدالرحمن بن حجاج کے گھر میں اجتماع کیا تا کہ اس سلسلے میں بات چیت کریں. تمام حاضرین امام رضا علیہ السلام کی شہادت کی مصیبت پر گریہ و بکاء کررہے تھے. یونس بن عبدالرحمن نے کہا: رونے کا وقت نہیں ہے اس مسئلے کے بارے میں بات کرو کہ جب تک ابوجعفر بڑے ہونگے منصب امامت کس کے پاس رہے گا؟ اور ہم اپنے سوالات کس سے پوچھیں گے؟ریان بن صلت یہ بات سن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور یونس کا گریباں پکڑ لیا اور کہا: تم بظاہر ایمان کا مظاہرہ کرتے ہو لیکن باطن میں اہل تردید اور اہل شرک ہو. کیا تم نہیں جانتے کہ اگر کوئی فرد خدا کی طرف سے امامت پر منصوب ہو وہ اگر ایک روزہ بچہ بھی ہو ایک بوڑھے عالم و دانشور کی مانند ہے اور اگر خدا کی جانب سے نہ ہو اور ایک ہزار برس تک بھی جئے وہ بہرصورت ایک عام انسان ہی ہے اور ہمیں اس موضوع پر بحث کرنی چاہئے۔ ریان بن صلت کے بعد دوسروں نے بھی یونس بن عبدالرحمن پر ملامت کی. (بحار الانوار، ج 50، ص 99، ح 12) امام رضا علیہ السلام نے امام جواد علیہ السلام کی امامت پر تصریح فرمائی عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں: میں صفوان بن یحیی کے ہمراہ امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی. امام جواد علیہ السلام کی عمر اس وقت تین برس سے زیادہ نہ تھی اور امام رضا علیہ السلام کی پہلو میں کھری تھی. ہم نے عرض کیا: ہم اللہ کی پناہ مانگتی ہیں؛ اگر آپ کو کچھ ہوجائے تو…امام علیہ السلام نے فرمایا: میرا یہ بیٹا؛ اور امام رضا علیہ السلام نے امام جواد علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: اور ہان! اسی چھوٹی عمر میں ہی، خداوند متعال نے حضرت عیسی علیہ السلام کو دو سال کی عمر میں نبوت کا عہدہ سونپ دیا. (بحار الانوار، ج 50، ص 35، ح 23 – بحار الانوار، ج 50، ص 21، ح 8)کم سنی میں امامت کے حوالے سے ہونے والے اعتراضات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد سے پہلی مرتبہ اہل تشیع کو ایک نئے مسئلے کا سامنا تھا اور وہ مسئلہ کم سنی میں امام جواد علیہ السلام کی امامت کا مسئلہ تھا. کیونکہ امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے وقت امام جواد علیہ السلام سات برس کے تھے اور اسی عمر میں ہی مرتبہ امامت پر فائز ہوئے. چونکہ اس سے پہلے ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں ایسا مسئلہ پیش نہیں آیا تھا لہذا اہل تشیع کے بعض گروہ بھی شک و شبہے کا شکار ہوئے اور امام جواد علیہ السلام نے خود ہی کئی مرتبہ اس شبہے کا ازالہ فرمایا. کم سنی میں امام جواد علیہ السلام کی امامت کے عنوان سے اٹھے ہوئے سوال کا جوابابراہیم بن محمود کہتے ہیں: میں خراسان میں امام رضا علیہ السلامی کی خدمت میں حاضر تھا. اسی وقت امام (ع) کے ایک صحابی نے سوال کیا: اگر آپ کو کوئی حادثہ پیش آئے تو ہم کس سے رجوع کریں؟امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے بیٹے محمد سے.اس وقت امام علیہ السلام کی عمر بہت کم تھی اور امام علیہ السلام نے ممکنہ شبہے کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: خداوند متعال نے حضرت عیسی علیہ السلام کو میرے محمد (محمد تقی الجواد) کی موجودہ عمر سے بھی کم عمری میں نبی بنا کر بھیجا اور ان کو ایک نئی شریعت قائم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جبکہ میں اپنے بیٹے کو اسلام کی مستحکم شدہ شریعت کی برپائی اور حفاظت کے لئے متعارف کررہا ہوں. (بحارالانوار، ج 50، ص 34، ح 20.)
امام جواد علیہ السلام کا اونچا مقام و مرتبہ ـ حدیث لوحامام جواد علیہ السلام سلسلہ امامت کی نویں کڑی ہیں اور آپ کو اللہ تعالی کی طرف سے خاص قسم کی خصوصیات عطا ہوئی ہیں جن کے باعث آپ (ع) خداوند متعال کی بارگاہ میں بھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، ائمۂ طاہرین اور اپنے والد بزرگوار کے نزدیک بھی اونچے مقام و منزلت کے مالک ہیں.

متعلقہ مضامین

Back to top button