مقبوضہ فلسطین

سعودی عرب کی جانب سے فلسطینی امنگوں کی مخالفت

پاپولر فرنٹ فار فلسطین لبریشن Popular Front for Palestine Liberation نے ہندوستان کی فضائی کمپنی ایر انڈیا کو مقبوضہ علاقوں کے لئے اپنے فضائی روٹ کے استعمال کی اجازت دینے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے مسلم امہ اور مسئلہ فلسطین سے خیانت قرار دیا اور اس اقدام کو ریاض اور تل ابیب کے مابین سکیورٹی، تجارتی اور سیاسی تعلقات کی برقراری کے لئے رابطہ پل قرار دیا ہے۔

پاپولر فرنٹ فار فلسطین لبریشن نے اسی طرح سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کا تخت و تاج بچانے کے لئے اربوں ڈالر مالی امداد دینے کی سعودی پالیسی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بعض عرب ملکوں کی جانب سے مسلم امہ اور مسئلہ فلسطین سے خیانت کرنے کی باگ ڈور اب رسمی طور پر ریاض کے سپرد کر دی گئی ہے۔

تقریبا ایک ماہ قبل صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے دورہ نئی دہلی میں ہوائی ٹرانسپورٹ کے بارے میں ایک سمجھوتے پر دستخط کئے گئے تھے تاکہ ہندوستان سے مقبوضہ فلسطین کے لئے پروازوں کا سلسلہ شروع کیا جاسکے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ تقریبا 70 سال سے سعودی عرب کی فضائی حدود نہ فقط اسرائیلی پروازوں بلکہ ان تمام پروازوں کے لئے بند تھی جو مقبوضہ علاقوں کی سمت جانا چاہتی تھیں۔

بعض عرب ملکوں منجملہ سعودی عرب نے حال ہی میں اسلامی ملکوں کے سب سے بڑے دشمن اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بے نقاب کیا ہے۔

دوسری جانب قاہرہ میں فلسطین کے سفارت خانے کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ مصری حکومت نے جمعے سے دو روز کے لئے فلسطینی مسافروں کے لئے سرحدی گذرگاہ رفح کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مصری حکومت کے مطابق اس گذرگاہ کو فلسطینیوں کے آنے جانے اور امدادی اشیا کی منتقلی کے لئے دو روز کے لئے کھولا جا رہا ہے۔

فلسطینی ذرائع‏ کا کہنا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں طلبا، بیمار اور غزہ میں مقیم غیر ملکی شہری رفح گذرگاہ کھولے جانے کے منتظر رہے ہیں تاہم مصری حکومت کے اعلان کے بعد فلسطینی ذرائع‏ کا کہنا ہے کہ پائی جانے والی مشکلات اور مسائل کے پیش نظر رفح گذرگاہ کو صرف دو روز کے لئے کھولے جانے سے یہ مشکلات اور مسائل دور نہیں ہو سکتے اس لئے وقت مزید بڑھائے جانے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ دو ہزار سترہ میں رفح گذرگاہ کو پورے سال کے دوران صرف پینتیس روز کے لئے کھولا گیا تھا اور یہ ایام ماضی کے برسوں کے مقابلے میں بہت کم تھے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button