مقالہ جات

پاکستان سمیت پانچ ملکی اتحاد خطے کی نئی قوت

شام کے بدلتے حالات کے تناظر میںایران میں سپریم لیڈر کےعسکری اسسٹنٹ اور سینئر مشیر میجر جنرل صفوی نے پیش کش کی کہ شام میں امریکہ ترکی اور اسرائیل کے مقابلے میں روس ،شام ،عراق،ایران اور پاکستان پر مشتمل ایک پانچ ملکی اتحاد بننا چاہیے ۔
ایران کےاس اعلی فوجی آفیسرنے مزید انکشاف کیا کہ روس اور شام کے درمیان سیکوریٹی امور میں ایک 49سالہ معاہدہ ہوچکا ہے کہ جس کی رو سے طرطوس اور لاذقیہTartus and Latakia کے اڈے روسیوں کے پاس رہے گے ۔
ان دونوں اڈوں میں روس نے S400جیسے دفاعی میزائل سسٹم کی تنصیب بھی کی ہے ان کا کہنا تھا کہ روس اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے شام کی مدد کرسکتا ہے گرچہ ایران بھی اس سلسلے میں تعاون کرسکتا ہے ،لیکن آخرکار یہ شام کی عوام اور حکومت ہی ہونگے جنہوں نے فیصلہ کرنا ہے ۔
اسی سلسلے میں روسی نیوز ایجنسی سپتنک نے دو ایسے تجزیہ کاروں اور ماہرین سے گفتگو کی ہے کہ جن میں سے ایک کا تعلق ایران سے جبکہ دوسرے کا تعلق روس سے ہے ۔
مشرق وسطی مشرق وسطی امورکے ماہراورلبنان میں سابق ایرانی سفارتکارسید ہادی افقہی کا کہنا ہے کہ اس قسم کا ایک اتحاد ممکن ہے
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا شام کے ایشو میںاس قسم کے پانچ ملکی کسی اتحاد کی گنجائش دیکھائی دیتی ہے تو ان کا کہنا تھا
مسٹرصفوی نے خطے میں طاقت کے توازن اورعسکری حکمت عملی کے اعتبار سے جو پیش کش کی ہے تاکہ خطے کے ممالک امریکہ اور اسرائیل کا مقابلہ کرسکیں ،عملی طور پر اس قسم کا ایک اتحاد ایک وسیع اور کامیاب تعاو ن کی شکل میں ڈھل سکتا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے بارے میں ہم آگے جاکر تفصیل سے بات چیت کرینگے لیکن ایران، روس اور شام کا درمیان اچھا تعاون پایا جاتا ہے جبکہ دہشتگردی کیخلاف جنگ کے کنٹرول روم میں عراق کا کوئی خاص عملی کردار نہیں پایا جاتا ،لیکن وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیکورٹی تعاون کے کنٹرول روم میں ہمارے ساتھ موجودہے ۔
لیکن میں پاکستان کے بارے میں ایک مختلف نقطہ نظر رکھتا ہوں ،سودیت یونین کیخلاف جنگ میں پاکستان امریکہ ،یورپ اور عرب ملکوں کے ساتھ کھڑا تھا ،شائد صفوی کی جانب سے پاکستان کو امریکہ اور اسرائیل کیخلاف اس اتحاد میں شامل کرنےکی اصل وجہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی حالیہ کشیدہ گی ہے ۔
ٹرمپ نے پوری دنیا بشمول یورپ، نیٹو، شمالی کوریا، وینزویلا، شام اور یہاں تک کہ روس کے ساتھ ایک قسم کی جنگ کا اعلان کیا ہوا ہے ۔
اسی طرح ٹرمپ نے حال ہی میں پاکستان کیخلاف بھی ماحول خراب کیا ہے ،ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جس مقدارمیں ہم پاکستان پر خرچ کررہے ہیں اس اندازے کے مطابق پاکستانی ہماری قدر نہیں کرتے اور پاکستانی امریکی توقعات پر پورا نہیں اتر رہے ہیں ۔
ٹرمپ کے یہ بیانات در حقیقت پاکستان کے قومی وقار کی توہین کرنا ہے اور یوں پاکستان نے بھی اس کا جواب دینا شروع کردیا ۔
شائد اس صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے میجر جنرل صفوی نے پاکستان کو بھی اس اتحاد میں شامل کرنے کی بات کی ہے ۔
یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اگر پاکستان بعنوان ایک ملک اور قوم کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں از سر نو غور کریں توروس کے ساتھ مل کر امریکہ پر ایک کاری ضرب اس خطے میں لگائی جاسکتی ہے
روس اس حد تک کامیاب ضرور ہوا ہے کہ پاکستان کو مغربی بلاک سے نکال کر مشرقی بلاک کی جانب متوجہ کرسکے اور ظاہر ہے کہ اس سے علاقے میں بہت سے سیاسی اوراسٹریٹجک توازن خودروس اور روسی شراکت داروں کے حق میں بھی ہونگے ۔
تو اس قسم کے پانچ ملکی اتحاد کے اہداف و نتائج کیا ہوسکتے ہیں ؟
دیکھیں خطے میں امریکی اثر رسوخ کے مراکز میں کمی واقع ہوگی ،نیٹو اور اس کے اتحادیوں کی اثرو رسوخ میں کمی واقع ہوگی اور یہاں تک کہ اس قسم کا اتحاد آگے چل کراسٹرٹجکل تعاون سے اقتصادی تعاون میںبدلا جاسکتا ہے خطے کی اہم اقتصادی گذرگاہوںاور کوریڈورزکا کنٹرول بھی ان ملکوں کے پاس ہوگا یوں پاکستان اور روس کے درمیان سمندری تعاون میں بھی اضافہ ہوگا ۔
ایران اور پاکستان انسداد دہشت گردی میںروسی تعاون اور نگرانی کے بعد مزید بہتر انداز سے کام کرسکتے ہیں ۔
یہاںکی عوام میں ایک ایسی کلاسیکل قوت ایجاد کی جاسکتی ہے کہ خطے کو کنٹرول کرنے کے امریکی پلان پر پانی پھیر دے یا کم ازکم اسے انتہائی محدود کرکے رکھ دے ۔
مثال کی طور پر امریکہ نے یک طرفہ اپنی جانب سے قبلہ اول کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کردیا تو ایسے میں اس قسم کا اتحاد امریکی اس اعلان کے آگے روکاوٹ بن سکتا ہے اور ہرقسم کے امریکی توسیع طلب عزائم expansionismکو روک سکتا ہے ۔
دوسری جانب روسی تجزیہ کار نکولای الکلاندروچ کوزینفف کا خیال ہے کہ روس اس قسم کے کسی اتحاد کو صرف دہشتگردی کیخلاف جنگ کے لئے مناسب سمجھتا ہے، نکولاکے خیال میں روس اپنے خطے میں اپنی اسٹرٹیجی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا ۔
نکولا کا کہنا ہے کہ روس شام میں بھی بڑی احتیاط کے ساتھ چل رہا ہے وہ نہ تو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی خلیجی ملکوں کے ساتھ موجود تعلقات میں کسی قسم کا بحران چاہتا ہے
ماسکواس قسم کے اتحاد میں کچھ تبدیلیاں ضرور چاہے گا اور اس کی خواہش ہوگی کہ اتحادکازیادہ ترفوکس دہشتگردی کیخلاف جنگ ہو۔
ایران کے ساتھ اس قسم کے اتحاد میں شامل ہوتے ہوئے روس کی پوری کوشش ہوگی کہ خطے میں دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات اور مشرق وسطی میں اس کی اپنی اسٹرٹیجی کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے ۔
مشرق وسطی میں روس کی اسٹرٹیجی ’’روس اور دیگر علاقائی طاقتوں کے درمیان توازن‘‘قائم کرنا ہے لہذا روس کے لئے مجوزہ شکل و صورت میں یہ اتحاد پوری طرح قابل قبول نہیں ہوگا ۔
البتہ میرے خیال میں روس اس اتحاد کے فارمیٹ کو بدل سکتا ہے ،جیسے ایران، روس، پاکستان،شام اور عراق کے درمیان ممکنہ طور پر تشکیل پاناوالا یہ اتحاد دہشت گردی کے خاتمے کے لئےمل کر کوشش کرے لیکن سعودی عرب اور اسرائیل سمیت دوسرے ممالک کیخلاف کسی قسم کا کوئی اقدام نہ کرے ۔
میرے خیال میں شام کا بحران کوئی ایک ملک حل نہیں کرسکتا نہ ہی اکیلا روس اور نہ ہی ایران اور ترکی بلکہ اس بحران کو حل کرنے کے لئے باہمی تعاون ایک مجبوری ہے ۔
میرے خیال میں اس وقت عفرین میں جس قسم کے حالات اور مشکلات ہیں وہ اس کی ایک کھلی مثال ہے ۔
باوجود اس کے کہ روس عفرین پر ترکی کے حملے کا مخالف ہے لیکن وہ ترکی کے اس حملے کے آگے صرف اس لئے خاموش ہے کیونکہ ترکی کوشام کے بحران کے لئے ہونے والے سوچی مذاکرات میں شامل رکھنا ضرور ی ہے ۔
دوسری جانب کُردوں نے روس کی پیشکش ٹھکرادی کہ وہ اپنے علاقوں کو شام کی حکومت کے حوالے کردیں اگر کرد اپنے علاقوں کا کنٹرول شام کی حکومت کے حوالے کرتے تو روس اس وقت عفرین اور کرد علاقوں کی سیکوریٹی کے مسائل حل کرسکتا تھا ۔
کُردوں نے امریکیوں پر بھروسہ کیا اور کہا کہ ہم ترک افواج کی جارحیت کا مقابلہ امریکی تعاون سے کرینگے لہذا روس نے عفرین پر ترک جارحیت کا کوئی جواب نہیں دیا ۔
ان دو تجزکاروں کے تجزیوں کے بعد جو نتائج سامنے آتے ہیں اس کا خلاصہ کچھ یوں کیا جاسکتا ہے
الف:خطےمیں پانچ ملکوں پر مشتمل ایک اتحاد کی تشکیل کا امکان پایا جاتا ہے
ب:اس قسم کا ایک اتحاد نہ صر ف دہشتگردی کو جڑ سے ختم کردے گا بلکہ خطے میں طاقت کا بہترین توازن بھی برقرار کرے گا
ج:اس قسم کے اتحاد کے لئے یہ بھی بہت حد تک ضروری ہے کہ اس اتحاد میں شامل ممالک ایک دوسرے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو بگاڑے بغیر ایک دوسرے کو قبول کریں ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button