مقالہ جات

سعودی عرب عراق میں سافٹ پاور کا استعمال کررہا ہے

اکونومیسٹeconomist اخبار میں چھپنے والے ایک مضمون کے مطابق عراق میں سعودی عرب ماضی کی طرح ایک نرم وملائم طاقت کا استعمال کررہا ہے جو عراق کے ہمسائیہ ملک ایران کے تشویش میں اضافے کے باعث بن رہی ہے ۔
ایران کے قریب واقع عراق کا جنوبی حصہ ایران کے لئے اہمیت کا حامل علاقہ ہے کہ جہاں اس وقت سعودی سیاحوں کی رفت آمد کا سلسلہ ایک بار پھر زور پکڑا رہا ہے ۔
ماضی میں اس علاقے میں سعودی بہت سے امیر شہریوں نے مکانات اور ویلاز خریدے تھے بہت سوں نے یہاں شادی کی ہوئی تھیں ۔
بصرہ کے شیرٹن ہوٹل کہ جہاں سعودی ایمبیسی بھی واقع ہے میں عراقی سنگروں کے گانے سنتے ہیں ،گذشتہ ماہ گزشتہ ماہ درجن بھر سے زیادہ سعودی شرایہاں منعقد ہونے والے ایک ادبی تہوار میں بھی شریک ہوئے تھے ۔
اس وقت سعودی عرب اور عراق کے درمیان پروازوں کی تعداد میں بھی قابل ملاحضہ اضافہ ہوا ہے کہ جس کی تعداد اب 140پروازیں ہرماہ بن جاتی ہیں ۔
بہت سے سعودی سرکاری کمپنیاں بھی عراق میں اپنے دفتر کھولنے شروع کردیے ہیں کہ جس میں ایک اہم کمپنی پیٹرو کیمکل سے تعلق رکھنے والے SABICکمپنی ہے ۔
داعش کیخلاف جنگ سے باہر نکلنے والے عرا ق کی تعمیر نو کے لئے کویت میں ہونے والی ایک کانفرنس میں سعودی وزیر خارجہ عادل جبیر نے ایک کروڑ ڈالر عراق کو امداد فراہم کرنے جبکہ پانچ سوملین ڈالر برآمدات کے لئےامدادی قرضہ دینے کی بات کی ۔
سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب کی عراق کی جانب غیر معمولی توجہ اس مسلم ہمسائیہ عرب ملک عراق کی مدد کرنا ہے ؟
اخبار لکھتا ہے کہ عراق میںسعودی دلچسپی شروع میں امریکہ کی جانب سے ناپسندیدگی کے طور پر دیکھی گئی جو ایران کیخلاف خلیجی ممالک کو اکھٹا کرنے کی تگ و دو میں ہے ،یقینا شروع میں سعودی عرب کے لئے یہ ایک مشکل کام تھا ۔
صدام نے سعودی عرب کو دھمکیاں دیتا رہتا تھا کہ وہ سعودی عرب پر حملہ کرے لیکن گذشتہ کچھ سالوں میں سعودی عرب نے ایران کی حمایت یافتہ عوامی رضاکار فورسز کو اجازت دی کہ وہ سعودی باڈر کے نزدیک فوجی اڈے بنالیں ۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ سن 2015میں بن سلمان نے عراق کے ساتھ تعلقات میں ایک بڑی چھلانگ لگائی اور گذشتہ سال عراق اور سعودی عرب کے درمیان زمینی سرحد بھی رفت و آمد کے لئے کھول دی گئی
عرا ق کے بہت سے فعال اور موثر شیعہ شخصیات کو رقوم سے نواز کہ جس میں سرفہرست مقتدی الصدر اور ایران کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے عراق وزیر داخلہ قاسم اعرجی شامل ہیں ۔
کویت کانفرنس میں ایک عراقی رہنما کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میدان جنگ میں ایران کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد اب پیسے بانٹنے میں اس پر برتری رکھنا چاہتا ہے ۔
اخبار کے مطابق سعودی عرب فارسی ایران کے مقابلے میں عربی عراق کو اپنے قریب کرنا چاہتا ہے کیونکہ سن 2003میں صدام کے سقوط تک عراق کی عربی شناخت مفقود رہی ہے ۔
سعودیوں کی زیادہ تر توجہ اور فوکس بصرہ جیساوسائل سے مالا ل شہر ہے ،وہ بصرہ کی پیٹروکیمکل فیکٹری میں سرمایہ کاری کے زریعے سے اس شہر کو ایران مصنوعات سے دور کرنا چاہتے ہیں
سعودی عرب کی توجہ سرحدی زرخیز علاقوں پر بھی ہے جبکہ عراقی ذمہ دار امیدرکھتے ہیں کہ اس سے ایک ریلوئے لائن کا راستہ بھی ہموار ہوگا اور سن 1990سے بند پڑی ہوئے پائپ لائن بھی کھولی جاسکتی ہے کہ جس کے زریعے عراقی تیل کو آسانی کے ساتھ بحیرہ احمر تک پہنچاسکتے ہیں ۔
عراق کا جنوبی حصہ اس وقت ایرانی اثر ورسوخ کے مدار میں موجود ہے ،یہاں موجود ہائے وے کا نام آیت اللہ امام خمینی کے نام کی گئی ہے اور یہاں کا کنٹرول ایران کےنزدیک سمجھی جانے والی پارٹیوں کے پاس ہے ۔
اخبار کا کہنا ہے کہ تہران میں بہت سے افراد سعودی ماضی کو پیش نظر رکھتے ہوئے تشویش میں مبتلا ہیں کہ ماضی کی آٹھ سالہ جنگ میں کسی طرح سعودی عرب نے عراقی عربوں یہاں تک کہ بعض شیعہ کو بھی اس جنگ میں جونک دیا تھا ۔
چائنہ کے بعد خطے میں non-oil products تیل کی مصنوعات سے ہٹ کر مصنوعات بنانے والے دوسرے بڑے ملک کے تاجروں کے سامنے سعودی سرمایہ کاری ایک چلینج سمجھی جارہی ہے ۔
ایران اور عراق نے آزاد تجارت کے لئے بصرہ کے قریب شملچہ کے پاس آزاد تجارتی علاقہ free-trade zoneبنالیا ہے جو دونوں ملکوں میں مزید قربت بڑھاسکتا ہے ۔
خوزستان کے سرحدی علاقے میں عراقی بغیر کسی ویزے کے کسی بھی کرنسی میں خریداری کرسکتے ہیں واضح رہے کہ عراق برآمدکے مقابل 100 گنا زیادہ ایران سےدرآمد کرتا ہے۔
بصرہ میں ایسے بہت سے عراقی ہیں جو سعودی عرب کو ویلکم کرنے کے لئے تیار دیکھائی نہیں دیتے ،داعش میں تین ہزار سے زیادہ سعودی شامل تھے شائد یہی وجہ ہے کہ بصرہ میںعوامی رضاکار کے ایک فرد کا کہنا ہے کہ ہم کیسے اپنے قاتلوں کو ویلکم کہہ سکتے ہیں ؟۔
نجف کے مذہبی ذمہ دار سعودی عرب کی جانب سے شیعہ مقدس شہر نجف اشرف میں قونصلیٹ کھولے جانے کی درخواست پر شش و پنج کا شکار دیکھائی دیتے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button