مشرق وسطی

ملک شام میں کیا ہو رہا ہے

آجکل ملک شام سے متعلق بہت سی متضاد اور غیر مصدقہ اطلاعات سوشل میڈیا پر بہت تواتر کے ساتھ گردش کررہی ہیں جنکا مقصد مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کے سوا کچھ نہیں کیونکہ اس میں اصل حقائق کو بڑی چالاکی سے چھپا کر رخ فرقہ واریت کی طرف موڑا جا رہا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ آج مسلمانوں پر یہ وقت آن پہنچا ہے کہ مسلمان ہی مسلمان کا خون بہا رہا ہے اور حد تو یہ ہے کہ آج کا مسلمان اپنے اس مزموم مقصد کی تکمیل کیلئے امریکہ، اسرائیل، روس اور چین سے مدد مانگ رہا ہے۔

آج بد قسمتی سے عراق اور شام میں جو جنگ ہو رہی ہے اس میں ایک گروپ کو سعودی عرب لیڈ کررہا ہے اور اس گروپ کو امریکہ و اسرائیل کھل کر مالی اور اسلحے کی مدد فراہم کر رہا ہے اسی گروپ کی حمایت یافتہ تنظیم ‘داعش’ نے اس جنگ کی ابتدا کی تھی۔ یہاں یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ داعش یا ISIS کن الفاظ کا مخفف ہے۔ داعش کا مطلب ہے ‘دولت اسلامیہ عراق و شام’ جسکا آسان اردو میں مطلب ہے ‘عراق اور شام پر مشتمل اسلامی ریاست’ اسی طرح
ISIS = Islamic State of Iraq and . Syria

داعش نے ہی اس خطے میں یہ لڑائی شروع کی تھی اور شیعہ اور سنی مسلمانوں کا انتہائی بیدردی سے قتل عام شروع کیا تھا انھوں نے سیکنڑوں کی تعداد میں لوگوں کو پکڑ کر انھیں اجتماعی طور پر زبح کیا باوجود اسکے کہ زبح ہونے والے بھی مسلمان ہی تھے اسی طرح انھوں نے بیشمار لوگوں کو آگ میں جلا کر مار ڈالا، لوگوں کو پانی میں ڈبو کر مار ڈالا جبکہ مرنے والے سب مسلمان تھے بس قصور یہ تھا کہ مرنے والے دہشت گردوں کے مخصوص دہشت گردانہ نظریات سے اختلاف رکھتے تھے داعش نے ویسے تو شرعیت کے نفاذ کے نام پر ہر غیر شرعی کام کیا ہے لیکن ایک ایسا بد فعل جس کو جان کر ہر انسان چیخ اٹھے وہ یہ کہ یہ جس علاقے کو فتح کرتے اسکی مستورات کو ‘لونڈی ‘ قرار دے کر انکی عصمت دری تو کرتے ہی لیکن یہ باقاعدہ طور پر ان لونڈیوں کی منڈیاں لگاتے اور انھیں نیلام کرکے رقم ‘نفاذ شرعیت ‘ کے نام قائم فنڈ میں جمع کرواتے صرف یہی نہیں بلکہ داعش نے تو یہاں تک اعلان کیا تھا کہ ہم خانہ کعبہ کو بھی گرادیں گے کہ اسلام میں پتھر کی پوجا جائز نہیں۔

شروع میں داعش کے خلاف کسی نے بھی مزاحمت نہیں کی اور یہ بہت تیزی سے عراق اور شام کے علاقے فتح کرتی چلی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے جیش اسلام، القاعدہ اور النصرہ فرنٹ کے جنگجو بھی اس جنگ میں داعش سے مل گئے اور یہ ایک بہت بڑی اور بظاہر ناقابل شکست طاقت میں تبدیل ہو گئی اور عراق و شام کے بے شمار علاقوں پر قابض ہو گئی لیکن جب اس دہشت گرد گروہ نے اصحاب رسولؐ اور اھلبیت رسولؐ کے مزارات کو میزائیلوں سے نشانہ بنانا شروع کیا تو اھلبیت رسولؐ اور اصحاب رسولؐ کے عقیدت مندوں نے منظم ہونا شروع کیا اور پھر شیعہ تنظیم ‘حزب اللہ’ اور ایران کے ‘پاسداران انقلاب’ عملی طور پر اس لڑائی میں شامل ہوگئے جس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ تھی کہ داعش نے رسول پاک کی نواسی، بی بی فاطمة الزہرا اور حضرت علیؑ کی صاحبزادی اور امام حسنؑ و امام حسینؑ کی بہن سیدہ ذینب سلام اللہ علیہا کے مزار کو میزائل مار کر شہید کردیا اور وہاں زیارت کو جانے والوں کا قتل عام شروع کردیا یہی نہیں بلکہ اصحاب رسولؐ کی قبروں کو بھی مسمار کرنا شروع کیا اور امام حسینؑ کی صاحبزادی سیدہ سکینہ بنت الحسین کا مزار بھی میزائل مار کر شہید کردیا۔

اسکے بعد اھلبیت رسولؐ اور اصحاب رسولؐ کے عقیدت مندوں نے حزب اللہ کی سربراہی میں داعش کے خلاف زبردست مزاحمت کی اور داعش کے غبارے سے ہوا نکال کر رکھ دی نہ صرف یہ بلکہ داعش کے زیر قبضہ علاقوں کو بھی واگزار کروالیا۔

اب جو لڑائی ہو رہی ہے وہ شام کے علاقے ‘غوطہ’ میں ہو رہی ہے آپ پوچھیں گے غوطہ کیا ہے تو سمجھ لیجئے غوطہ اسوقت ملک شام کا ‘وزیرستان’ ہے یہاں داعش اور اسکے اتحادی جنگجووں کا مکمل کنٹرول ہے اور عراق اور شام میں لڑائی کیلئے تمام رسد اور کمک غوطہ ہی سے مہیا کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ دنیاں بھر میں دہشت گرد گروپوں کے حامیوں کو اب صبح شام یہ پریشانی لاحق ہے کہ اگر غوطہ بھی ‘موصل’ ‘رقعہ’ اور "حلب” کی طرح چھن گیا تو کیا ہوگا۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ غوطہ میں موجود دہشت گرد عناصر نے غوطہ کی تین لاکھ سے زائد سولین آبادی کو یرغمال بنا رکھا ہے اور اپنے آپ کو بچانے کیلئے انھیں ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ جب غوطہ کے علاقے میں آپریشن شروع کیا گیا تو شامی فورسز اور اسکی اتحادی فورسز کی حتی الوسع کوشش تھی کہ سولین آبادی کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے تاکہ کسی غیر مسلح شخص کو کوئی نقصان نہ پہنچے لیکن امریکہ و اسرائیل کی زیرپرستی لڑنے والے دہشت گردوں نے اس کوشش کو کامیاب نہ ہونے دیا اور اب تک مسلسل انھیں اپنے قبضے میں رکھا ہوا ہے اور علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہیں دے رہے حتی کہ انھیں لوہے کے پنجروں میں قید کرکے رکھا ہوا ہے۔شامی فورسز نے ہرروز پانچ گھنٹے کی جنگ بندی کا اعلان کررکھا ہے تاکہ سولین باحفاظت جنگ کے علاقے سے نکل جائیں اور ہرروز اپنے طیاروں کے زرعئے غوطہ کے علاقے میں نقشے بھی پھینکتے ہیں تاکہ عام عوام کو باہر جانے کے محفوظ راستوں کا علم ہوسکے۔ لیکن چونکہ دہشت گرد گروپوں کو معلوم ہے کہ اگر سولینز کو غوطہ چھوڑنے کی اجازت دے دی تو پھر دہشت گردوں کو چھپنے کی بھی کوئی جگہ نہیں مل پائے گی لہزا وہ دنیا بھر میں اپنے حامیوں کے زرعئیے جھوٹا پراپیگنڈا کررہے ہیں کہ شام میں بیگناہ سولینز کو مارا جارہا ہے اور چونکہ امریکہ اور اسرائیل بھی کھل کر انکا ساتھ دے رہے ہیں لہزا مغربی میڈیا بھی اس جھوٹے پراپیگنڈا کو خوب Promote کررہا ہے جسکا واضح ثبوت حال ہی میں سامنے آنے والی وڈیو جس میں زندہ لوگوں کو کفن پہنا کر لٹایا گیا ہے تاکہ لوگوں کو جعلی لاشیں دکھا کر گمراہ کیا جائے اس پر مستزاد یہ کہ چونکہ حزب اللہ اور ایرانی فورسز بھی حکومت شام کی بھرپور مدد کررہی ہیں سو دہشت گرد گروپ اور انکے نظریاتی حامی اسے ‘شیعہ سنی لڑائی’ کے طور پر پیش کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں جبکہ اسکا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسوقت شام میں شیعہ اور سنی مل کر تکفیری ذہن رکھنے والے ‘امریکہ و اسرائیل کے پالتو دہشت گردوں’ کا اپنی سرزمین سے صفایا کرنے میں مصروف ہیں بالکل اسی طرح جسطرح پاک فوج نے وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں آپریشن کرکے ان علاقوں کو دہشت گردوں سے کلئیر کروایا ہے۔

اچھی خبر یہ ہے کہ اللہ تعالی کی زبردست مدد و نصرت سے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مشرقی غوطہ کا پچاس فیصد علاقہ کلئیر کروایا جاچکا ہے اور انشاء اللہ بہت جلد باقی علاقہ بھی کلئیر ہوجائے گا اور اسرائیل اور امریکہ کو امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کی اس مزموم سازش کے نتیجے میں منہ کی کھانی پڑے گی۔

تحریر: آصف ممتاز ملک، ایڈووکیٹ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button