یمن کی جنگ میں عمان کو دھکیلنے کیلئے سعودی عرب اور امارات کی کوششیں
سعودی اتحاد نے اس وقت یمن کی جنگ کے دلدل سے نکلنے کے لئے مصری صدر کی خدمات حاصل کی ہیں کہ وہ ابو ظبی کے ساتھ مل کر عمان پر زور ڈالے کہ وہ یمن کی جنگ میں حصہ لے۔عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق ، یمن پر جنگ کے آغاز کے تین سال بعد ، لوگوں کا قتل عام ، بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور عرب اتحاد کی شکست ، فوج اور عوامی رضاکار مختلف فوجی ، سیاسی اور اقتصادی محاذوں پر استقامت کا اظہار کرتے ہیں اور یہی چیز اتحاد میں شامل ممالک کی پریشانی اور ان کے آپسی اختلاف کا سبب بنی۔یمن کی فوج اور عوامی رضاکاروں نے اپنی فوجی طاقت بالخصوص اپنی میزائیلی طاقت کو فروغ دیا اور ریاض اور اس سے بھی آگے ابو ظبی کے ایٹمی پلانٹ البراکہ کو بیلسٹک میزائیلوں منجملہ برکان 2 اور کروز کا نشانہ بنایا۔یمنی ویب سائیٹ النجم الثاقب کی رپورٹ کے مطابق نام نہاد طوفان نامی آپریشن میں حصہ لینے والے ممالک جیسے مصر اور سوڈان ، یمن کی دلدل سے نکلنے کی کوشش میں ہیں ۔اس رپورٹ میں آیا ہے کہ جو کچھ بھی سوڈانی فوجیوں کے ساتھ یمن میں بالخصوص نجران میں یمن اور سعودی عرب کی سرحد پر جاری جنگ ، جازان عسیر اور یمن کے مغربی سواحل ، المخا اور دیگر محاذوں پر پیش آیا ہے وہ بہت سخت ہے اور یمن کی جنگی کیمروں نے سب کچھ قید کر لیا ہے۔لیکن مصریوں نے یمن کی جنگ میں تجربہ کر لیا ہے اسی لئے مصری حکومت نے طوفان قاطع نامی آپریشن کے لئے اپنی فوجیں بھیجنے سے قطعی انکار کر دیا اور انہیں حالات میں ، مصری فوج صرف اپنی زمین کی محافظ ہے ، اور خلیج فارس کی امنیت در اصل ہمارے لئے امنیت ہے ، اور مصر خلیج فارس میں اپنے بھائیوں کو اکیلا نہیں چھوڑے گا اور وقت آنے پر ان کا ساتھ دے گا جیسے خیالات کا اظہار کیا ہے تاکہ سعودی عرب کی حمایت سے دستبردار ہو سکے اس بنا پر قاھرہ دور سے یمن کی جنگ کی آگ کو بھڑکا رہا ہے لیکن اس میں کوئی زمینی کردار ادا نہیں کر رہا۔لیکن یمن میں ساٹھ کی دہائی کی جنگ درست ہے کہ ، مصر کی موجودہ فوجی صلاحیتوں اور تجربوں کو بڑھانے کے حوالے سے، یہ موجودہ جنگ سے مختلف ہے ۔لیکن دیگر معاملات میں حالات فرق نہیں کرتے کہ السیسی اور اس کی حکومت اس بات سے بخوبی واقف ہے۔ مصری فوجیوں نے بین الاقوامی سمندری سیکورٹی کی حفاظت کے بہانے سے اپنے بیڑے کے ساتھ سعودی اتحاد کے آپریشن میں حصہ لیا لیکن ہم یمن کے سواحل پر مصر کے آشکار تجاوز کے شاہد ہیں کہ جنہیں یمن کی دریائی فوج کی جانب سے منہ توڑ جواب ملا اور نیٹو اور مصری جنگی کشتیاں یمن کے سواحل پر تباہ ہو گئیں ۔اس وقت مصر میں صدارتی انتخابات کے موقع پر السیسی چاہتا ہے کہ یمن کی جنگ میں حصے دار بنا رہے تاکہ اسے عربی ، مغربی ممالک اور امریکہ اور اسرائیل کی حمایت حاصل رہے اور اسی طرح سعودی عرب اور امارات کی جانب سے عمان کے لئے ایک سیاسی نقشہ بنانا چاہتا ہے اس انداز سے کہ یمن میں جاری بحران کو ختم کرنے کے لئے علاقائی بحران میں مصر کے کردار کو ایک ثالثی کے طور پر مضبوط کرے۔ جو نقشہ السیسی مسقط لے کر گیا تھا وہ گذشتہ نقشے سے کوئی فرق نہیں رکھتا تھا کہ جس میں امریکہ اور خلیجی ممالک کی خواہشات کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ مصر اپنی فوج کو مشکلات سے نکالنے کے لئے سیاسی راہ حل کی تلاش میں ہے ۔ بالکل اسی طرح کہ جیسے سعودی عرب ، امارات اور طوفان قاطع نامی آپریشن میں شریک تمام ممالک تین سال گذر جانے کے بعد اس جنگ کو مزید بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ اس جنگ سے ان کے اقتصادی ، سیاسی ، اور فوجی حالات کو بہت بڑا دھچکہ لگا ہے۔یمنی عوام کے ساتھ مقابلے میں عربی اتحاد کی نظر میں سعودی عرب کی وضعیت نے 12 سال بعد 2006 کی لبنان کی جنگ کی یاد تازہ کر دی ہے کہ جس میں صہیونی فوج کو حزب اللہ کے مقابلے میں شکست کھانی پڑی ، لیکن اس مرتبہ کی شکست اس سے بڑی ہے کیونکہ تقریبا 17 عربی اور غیر عربی ممالک کہ جو یمن کے خلاف اتحاد میں شامل تھے انہوں نے یمنی مقاومت کے سامنے اپنی ناکامی اور شکست کا اعتراف کیا ہے۔مشرقی یمن میں المھرہ شہر میں عمان کی سرحد پر سعودی عرب اور امارات کی فوج کا تجاوز نشاندھی کرتا ہے کہ امارات کہ جو عدن اور چند جنوبی شہروں پر اپنے تسلط کو قطعی مان چکا ہے امریکہ اور سعودی عرب کی حمایت سے عمان میں دخل اندازی کرنے کی اپنی دیرینہ خواہش پوری کرنا چاہتا ہے ۔ امارات عمان پر انصار اللہ کو غیر قانونی طریقے سے اسلحہ فراہم کرنے کے بہانے سے اس ملک میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ اس بنا پر سعودی عرب اور امارات وہی نقشہ کہ جو امارات کے خلاف استعمال ہوا تھا اسے عمان کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں یعنی عمان پر انصار اللہ کی مسلحانہ مدد کرنے کا الزام کہ جسے وہ قطر کے خلاف استعمال نہیں کر سکے۔سعودی عرب اور امارات عمان پر ایران کی حمایت کرنے کا الزام لگاتے ہیں کیونکہ عمان ، یمن پر حملہ کرنے اور منصور ہادی کے دفاع کے بہانے سے اس ملک کے عوام کے قتل عام میں ان کا شریک نہیں بنا۔ سعودی اتحاد عمان پر نشطون اور صرفیت بندرگاہوں سے انصار اللہ تک غیر قانونی اسلحہ پہنچانے کا الزام لگاتا ہے اور اسی لئے سعودی عرب اور امارات نے فوجی اور قبائیلی دستوں اور اسی طرح القاعدہ اور داعش کے دہشتگردوں کو جنوب مغربی یمن پر مامور کر دیا تاکہ یمنی فوج اور عوامی رضاکاروں پر حملہ کرنے کا راستہ فراہم ہو سکے اور ممکن ہے اس طرح وہ صنعا اور شمال یمن پر حملہ کرنے کے بہانے عمان میں داخل ہو سکیں ۔اس سلسلے میں تین مہینے قبل ہونے والی گفتگو میں عمان کے چند عہدے داران نے کہا کہ انہوں نے المہرہ کے علاقائی حکام اور سعودی اتحاد کے درمیان ہونے والے سمجھوتوں کی بنا پر سر حد پر ہونے والی غیر قانونی تجارت کے خلاف سخت اقدامات کئے ہیں جب کہ علاقائی حکام عمان اور یمن کے تاریخی بھائی چارے کو قائم رکھنے کے حق میں ہیں جب کہ سعودی عرب اور امارات نے المھرہ کے علاقائی حکام سے خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ عمان کے ساتھ اپنی دوستی ختم کرتے ہوئے سعودی عرب اور امارات کی جارحانہ افواج کے لئے اس علاقے میں رہائش فراہم کریں کہ جن افواج کی تعداد المکلا اور حضر موت میں 123 اور 137 تک ہے۔ اسی سلسلے میں سعودی عرب نے المھرہ کے حاکم محمد عبد اللہ کدہ کہ جو عمان کے ساتھ بھائی چارہ بنائے رکھنے کے حق میں تھا کو معزول کر کے اس کی جگہ راجح سعید باکریت کہ جو یمن کے خلاف سعودی اتحاد کا حامی ہے کو منصوب کر دیا ہے۔ اسی سلسلے میں ، سعودی عرب نے فوری طور پر عمان کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے کچھ قبائلیوں اور مسلح گروہوں کے درمیان پیسہ تقسیم کرنے شروع کر دیا ہے اور اسی طرح عمان کے خلاف اشتعال انگیز اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے بالخصوص وہ غلط بیانیاں کہ جو امارات کے سفیر یوسف العتیبہ نے امریکہ میں عمان کے متعلق کیں ۔امارات اور سعودی عرب کی میڈیا کی عمان کے خلاف جنگ اس بات کی گواہ ہے کہ "عمان کے ساتھ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان میڈیا کا تنازع یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ یمن کی تباہی اور یمنی عوام کے قتل عام کی مدد سے سعودی عرب، خلیج کے علاقے پر اس کے اثر و رسوخ کے خلاف کسی بھی خطرے کو ختم کرنے کی کوشش میں ہے ، اور وہ نہیں چاہتا کہ اس علاقے کا کوئی بھی ملک اس کے تسلط سے خارج ہو ۔ لیکن امارات بھی یمن کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کا ساتھ دے کر علاقے کے اقتصادیات پر قابض ہونے اور تیل اور گیس کے ذخائر کو منتقل کرنے کی کوشش میں ہے۔ امارات کہ جس نے عدن اور جنوبی شہروں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے عید روس الزبیدی کی رہبری میں عبوری کونسل کے اقدامات کے ذریعے اس بات کی نشاندھی کر چکا ہے کہ وہ بندرگاہ عدن پر تسلط جمانے کا خواہاں ہے۔اسی طرح امارات نے بھی سعودی عرب کی طرح عمان کی سرزمین پر اپنے حق کا دعوی کیا ہے لیکن عمان نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ جزیرہ نما سعودی عرب یمن اور عمان کا حصہ تھا اور باقی تاریخی اور جغرافیائی تبدیلیوں کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں اس بنا پر ممکن ہے کہ سعودی عرب اور امارات خلیج فارس کے اہم ممالک کو نابود کر کے ان کے قدرتی ذخائر پر قابض ہونے کا ارادہ رکھتے ہوں اور اسی وجہ سے امارات کے وزیر انور قرقاش نے اس مسئلے کے متعلق اپنے بیانات میں اعتراف کیا اور کہا کہ امارات کا نظریہ سعودی نگاہ کا عکاس ہے۔