مقالہ جات

سعودی عرب کے لئےپاک فوج کے مزید دستے کیوں؟

پاک فوج کی جانب سے ایک بار پھر سعودی عرب فوج بھیجنے کے مسئلے پرنہ صرف سنیٹ اور پارلیمان سمیت عوامی حلقوں میں بھی بحث گفتگو جاری ہے بلکہ عالمی و عرب میڈیا بھی اس موضوع پر تبصرے اور تجزیے پیش کررہا ہے ۔
گرچہ پاک فوج کے ترجمان اور حکومتی ذمہ دار مسلسل یہ کہتے آئے ہیں کہ پاک فوج سعودی عرب سے باہر کسی بھی قسم کے تصادم میں شامل نہیں ہوگی لیکن خطے کے کئی تنازعات میں مصروف سعودی عرب کی پوزیشن کو دیکھ شک اور شکوک کا اظہار کیا جانا ایک قدرتی بات ہے ۔
میڈل ایسٹ آئی کے مطابق سعودیہ کو پاکستانی افواج کی ضرورت بیرونی کسی مشن سے زیادہ خود خاندانی تنازعات اور چلقش میں ہے
میڈل ایسٹ آئی کاکہنا ہے کہ ’’
"The Saudis may think there is an internal issue – they can’t trust their guys, so they are getting the Pakistanis,
سعودی بادشاہ سلمان اور اس کے بیٹے محمد بن سلمان نے خاندانی روایات اور سعودی قوانین کے برخلاف طاقت کو صرف اپنے ہی خاندان میں جمع کرنے کی کوشش کی ہے ۔
مسلسل خبریں آرہی تھیں کہ بادشاہ سلمان جلد ہی شاہی منصب اپنے بیٹے کو سونپنے والے ہیں اور خود اپنے باقی ماندہ بڑھاپے کو مراکش کے ایک انتہائی مناسب آب و ہوا کے مقام پر رہنا چاہتے ہیں ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ محمدبن سلمان کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے خاندان کے اندر کشیدگی پائی جاتی ہے اور اندر ہی اندر لاوا پک رہا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے ۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایسے پاکستان ابھرتے ہوئے سورج کا ساتھ دینا مناسب سمجھتا ہے خاص کر کہ جس نے کل کو مسند شاہی پر بھی براجمان ہونا ہے ۔
لیکن اہم سوال یہ ہے کہ سعودی خاندانی تنازع میں کیا پاکستان کو کسی ایک فریق کاحصہ بن چاہیے ؟اور کیا یہ ایک دانشمدانہ قدم ہوسکتا ہے ؟ اور کیا اس بات کی کوئی ضمانت ہے کہ پاکستانی حمایت یافتہ فریق ہی سعودی عرب کے مقدر کا سکندر ہوگا ؟کیا اس سے ہم سعودی عوام اور خاندان کے اس حصے میں اپنی ساکھ کھو نہیں دینگے جو اپوزیشن میں ہیں ؟
آرمی کے شعبہ ء تعلقات عامہ کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ پاک فوج سعودیہ میں تربیتی اور مشاورتی خدمات سر انجام دی گی ۔
انیس بیاسی سے پاکستان، سعودی عرب کے ساتھ ہونے والے ایک معاہدے کی بنیاد پر اپنی فوج بھیج رہا ہے اور اعلامیہ کے مطابق اس کا مقصد کا تربیتی مشن ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا سعودی افواج کی یہ تربیت پاکستان میں نہیں ہوسکتی ؟
ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی دو وجوہات ہیں سعودی افواج کے پاس امریکی جدیداسلحہ موجود ہے جس کو آپریٹ کرنے کا انہیں کسی قسم کا کوئی تجربہ نہیں ہے جبکہ دوسری بات یہ بھی ہے کہ ہماری افواج کے وہاں جانے سے خود ہماری افواج کے لئے بھی کئی قسم کے فوائد موجود ہیں ۔
عرب میڈیا کے مطابق سن 2015میں سعودیہ نے پاکستان سے یمن کے لئے فوج مانگی تھی کہ جس کی پاکستانی پارلیمان کی جانب سے مخالفت کی گئی اور خود فوج بھی یمن کے دلدل میں پھنسنا نہیں چاہتی تھی ۔
سینیٹر تاج حیدر کے بقول ’’اب تو اس اتحاد میں بھی پھوٹ پڑ گئی ہے جو سعودی عرب نے بنوایا تھا، تو اگر ہمارے فوجی جا رہے ہیں تو آدھے فوجی ایک گروپ کے لئے لڑ سکتے ہیں اور آدھے دوسرے گروپ کے لئے۔ ہم جا رہے ہیں تو ہمیں پیسے بھی تو ملیں گے۔ ‘‘
پاکستان میں سینٹ سے لیکر پارلیمان اور دانشوروںکے ایک بڑے حلقے کا خیال ہے کہ پاکستان کو سعودی عرب فوج نہیں بھیجنی چاہیے اور اگر بھیجنا بھی ہو تو اس کی پرلیمان سے اجازت لینی چاہیے یا کم ازکم ہم آہنگی ہونی چاہیے ۔
غیر ملکی ریڈیو کو دیے گئے ایک بیان میں سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ پارلیمنٹ کی قراردادوں کی نفی ہےاور ایسا کوئی فیصلہ جو پارلیمنٹ کی قراردادوں کی نفی کر رہا ہو، وہ قابلِ مذمت ہے۔
’’یہ ایک انتہائی غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے، جس کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ ہمارا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ہم نے افغانستان کی جنگ میں کود کر اپنے ہاتھوں کو جلایا اور اب ہم مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں مداخلت کر کے اپنے جسم کا جلا رہے ہیں۔ اس فیصلے سے ایران سخت ناراض ہوگا اور ہماری بین الاقوامی تنہائی میں مزید اضافہ ہوگا۔‘‘
جبکہ جرمن ریڈیو کو دیے گئے ایک بیان میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ء بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکڑ طلعت اے نے بھی اس فیصلے کو غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’مجھے اس فیصلے سے شدید مایوسی ہوئی ہے۔ جب پارلیمنٹ اور آرمی دونوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ فوج نہیں بھیجنی تو اب کیوں فوج بھیجی جارہی ہے؟ یہ بات غلط ہے کہ سعودی عرب کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔ سعودی عرب یمن میں بے رحمانہ انداز میں بمباری کر رہا ہے اور اس کی وجہ سے سعودی عرب کی دنیا میں بہت بدنامی ہوئی ہے۔ اس بمباری کے جواب میں حوثی باغی کچھ راکٹ فائر کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سعودی عرب کی سلامتی کو خطرہ ہے۔‘‘

متعلقہ مضامین

Back to top button