مقالہ جات

عالمی سطح پر گرتی امریکی مقبولیت

گیلپ انسٹی ٹیوٹ کی تازہ ترین سروئے کے مطابق ٹرمپ کی صدارت کے آغاز سے اب تک دنیا میں امریکی مقبولیت کا گراف تیس فیصد گر چکا ہے۔
دلچسب بات یہ ہے کہ امریکہ خود اپنے ہی اتحادیوںیعنی یورپی ممالک کے درمیان مقبولیت کھوتا جارہا ہے۔
امریکی پالیسی پر دنیا کے اہم ترین اور امریکی اتحادی شمار ہونے والے 65کے قریب ممالک میں ایک قسم کا عدم اطمنان اور امریکہ کے بارے میںبے اعتمادی پائی جاتی ہے ۔
اس رپورٹ کے مطابق سال 2016میں امریکہ پر عدم اطمنان کا اظہار کرنے والے ممالک کی تعدا صرف سولہ تھی لیکن اب یہ تعداد بڑھ کر 53ہوچکی ہے اور مجموعی طور پران ممالک کی تعداد 65ہوچکی ہے ۔
ان ممالک میں شمالی یورپ کے اکثر ممالک اور امریکہ لاتینی کے تمام ممالک شامل ہیں
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے ڈیڑھ سالہ دور میں دنیا حیرت اورغیر متوقع unpredictability کیفت سے دوچار رہی ہے اور ہم آج دیکھ سکتے ہیں کہ ٹرمپ یورپ سمیت دنیا بھر میں اپنی مقبولیت کھوتا جارہا ہے کہ جس کہ ایک بڑی مثال امریکہ کے اہم ترین اتحادیوں یعنی یورپ کی جانب سے امریکی خارجہ پالیسی کو ٹھکرانا ہے ۔
اس وقت امریکی اتحادی اس کی پالیسیوں کو لیکر شدید کنفیوژن اور بے اعتمادی کا شکار دیکھائی دیتے ہیں ۔
امریکہ پر بےاعتمادی کی وجوہات
ماہرین کہتے ہیں کہ چند ایسی چیزیں ہیں کہ جس نے امریکہ پر بے اعتماد کو مزید بڑھاوا دیا ہے
الف:نسل پرستی اور قوم پرستی
دنیا کی زیادہ تراقوام کی یہ کوشش جاری تھی کہ وہ نسل پرستی اور قوم پرستی جیسے مسائل کا خاتمہ کریںلیکن ٹرمپ نے آتے ہی نسل پرستی اور قوم پرستی کی فضا قائم کی کہ جس کے سبب عوامیت پسندی اور پاپولیزم جیسے مسائل نے امریکہ اور یورپ کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لیا ۔
ب:بین الاقوامی معاہدوں کی خلاوف وزریاں
ٹرمپ نے آتے ہیںبہت سے ان بین الاقوامی اتفاق شدہ معاہدوں کی خلاف وزری کرنا شروع کردیا کہ جس پر اقوام عالم ایک مشترکہ فیصلہ اور راحل پر اتفاق کرچکے ہیں
ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے پیریس معاہدے کی خلاوف وزری ،ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی مذاکرات اور معاہدے کے بارے میں مسلسل دھمکیوں نے ٹرمپ کی پالیسیوں کے بارے میں دنیا وک سخت عدم اطمنان سے دوچار کیا ہواہے
ج:خودپسندیک طرفہ فیصلے
امریکہ کی توجہ صرف اپنے مفادات پر مرکوز ہورہی ہے اور خارجہ پالیسی میں اس کے فیصلے خود پسندی اور یک طرفہ دیکھائی دیتے ہیں ،وہ اپنے درینہ اتحادیوں کو ان فیصلوں میں شامل کرنے کے لئے تیار دیکھائی نہیں دیتا ۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو ممالک کے درمیان ایک قسم کا فاصلہ ایجاد ہوتا جارہا ہے ،یورپ اب بین الاقوامی سطح پر اپنی مستقل پوزیشن کی تلاش میں ہے وہ امریکہ کی کامیابی یا ناکامی سے خود کو وابستہ کرنے کے لئے تیار دیکھائی نہیں دیتا ۔
یورپ کی پوری کوشش ہے کہ بین الاقوامی منظر نامے میں اپنی ایک مستقل شناخت اور وزن پیدا کریں یہی وجہ ہے کہ ان کی پوری کوشش ہے کہ یورپی یونین اور اتحاد برقرار رہے کہ جو ان کی قوت کی اکائی ہے
د:مشرق وسطی میں شدت پسند پالیسی
یہ بات واضح ہے کہ مشرق وسطی کے زمینی حقائق کے بارے میں امریکہ کی شناخت انتہائی سطحی ثابت ہوئی ہے جس کے سبب مسلسل اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔
مشرق وسطی کی تین اہم پراکسی وار میں امریکہ کو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اور پڑ رہی ہے جو عراق ،شام اور یمن سے عبار ت ہے ۔
اسرائیل کی نسل پرستانہ اور تشدد آمیز پالیسیوں کی بلا چون چرا حمایت اور پھر اسرائیلی دارالحکومت کو قدس لے جانے کا شور نے مشرق وسطی میں امریکہ کی رہی سہی حثیت کو شدید نقصان پہنچایا تو دوسری جانب عوام کے مقابل ڈکٹیٹر بادشاہتوں کی مسلسل بہ بانگ دھل حمایت اور عوامی مطالبات کو طاقت سے دبانے والے ڈکٹیٹروں کے ظلم و ستم کی عالمی فورمز میں حمایت یا خاموشی نے امریکی مقبولیت کو مزید دھچکہ پہنچایا ہے
اگر امریکہ کو واپس بین الاقوامی سطح پر ایک طاقتور اور اثر انداز ہونے والے ملک کے طور پر آنا ہے تو اسے قوموں کی پسند و ناپسند اور قانونی حکومتوں کا احترام کرنا ہوگا ،متفقہ عالمی قوانین اور فیصلوں کو تسلیم کرنے سمیت تمام ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی اپنانا ہوگی ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button