مقالہ جات

نئی امریکی دفاعی حکمت عملی یا اعلان جنگ

امریکہ محکمہ دفاع پینٹاگون کی جانب سے نئی دفاعی حکمت عملی پر مشتمل گیارہ صفحات کی دستاویز نشر کی گئی کہ جس کے مطابق اب امریکہ کا فوکس دہشتگردی کیخلاف جنگ کے بجائے چین اور روس کی بڑھتی ہوئی قوت کو روکنے کے پر ہوگا۔
تقریبا سن 2014کے بعد پہلی مرتبہ امریکہ دفاعی حکمت عملی پر مشتمل دستاویز کے کچھ حصوں کو برملا نشر کررہا ہے ۔
واضح رہے کہ گذشتہ تقریبا پندرہ سالوں سے امریکہ نے خود کودہشتگردی کیخلاف جنگ کے نام سے مصروف رکھا ہوا تھا لیکن امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کی قومی سلامتی کی پالیسی کا اہم مرکز اب دہشتگردی نہیں بلکہ چین اور روس جیسی طاقتوں کے خطرات کا مقابلہ کرنا ہے۔
پینٹاگون نے نئی دفاعی حکمت عملی میں چین اورروس کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے اس کے اہم نکات کچھ یوں ہیں ۔
۱:چین اور روس دہشتگردی کے خطرے سے کہیں زیادہ سنگین خطرہ ہیں۔
۲:چین کی تیزی سے پھیلتی ہوئی فوجی طاقت اور روس کا بڑھتا ہوا جارحانہ رویہ امریکا کی قومی سلامتی کے لیے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔
۳:چین اور روس کی عسکری توسیع سے امریکا کی عالمی برتری کے لیے خطرہ پیدا ہو رہا ہے اورامریکا کو بحیزہ جنوبی چین کے تنازعے پر تشویش ہے
۴:روس نیٹو کو تقسیم کرنے ور یورپ و مشرق وسطی کے سیاسی اور سیکورٹی کی صورتحال کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
۵:ایران اور شمالی کوریا عالمی امن کے لئے خطرہ ہیں
لہذا امریکہ کو چین اور روس کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو روکنے کے لئے
۱:مریکا کو بہت زیادہ خون آشام جنگ کرنا ہو گی۔
۲: امریکا کو بہت زیادہ مزید اخراجات کرنے ہوں گے اور بہت سی افرادی قوت بھی استعمال کرنا ہو گی۔
۳:امریکی فوج تین اہم علاقوں بحر ہند، پیسفک، مشرق وسطی اور یورپ میں جارحیت کو روکنے کی کوشش کریں گی۔
۴:افغانستان ،عراق اور شام میں امریکہ جو کچھ حاصل کرچکا ہے اس کی حفاظت کرے گا
جس وقت یعنی جمعہ ۲۱جنوری کو پینٹاگون کی جانب سے نئی دفاعی حکمت عملی کا اعلان ہوا اسی دن ہی چین کی وزارت دفاع کی جانب سے ایک فوری ردعمل میں کہا گیا کہ
الف: نئی امریکی دفاعی اسٹرٹیجی سرد جنگ کے دور کی سوچ کا تسلسل ہے۔
ب: امریکی پالیسی میں جیت اور ہار کو رمیتھ میٹک جمع تفریق ہے اوراس نئی اسٹریٹیجی میں امریکی حکومت نے ریاستوں کے درمیان اسٹراٹیجکل مقابلے کو فوقیت دینے کا اشارہ دیا ہے اور دہشت گردی پر بنیادی توجہ کم کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
ج:امریکی دفاعی حکمت عملی کی نئی ترجیحات میں ایسی اقتصادی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کا واضح عندیہ دیا گیا ہے، جن کا مقصد چند ریاستوں کو خوفزدہ کرنا مقصود ہو گا۔
د:بیجنگ کو حق حاصل ہے وہ اپنی حاکمیت و سالمیت کو برقرار رکھے اور جب چاہے اور جہاں چاہے بحیرہ جنوبی چین میں فوج متعین کر سکتا ہے۔
ادھر روسی وزیر خارجہ نے پینٹاگون کی جانب سے نئی امریکی دفاعی اس حکمت عملی کے اعلان کے بعد کھلے لفظوں کہا کہ
الف:امریکی نئی دفاعی حکمت عملی محاذ آرائی اور تصادمStrategic Confrontation پر مشتمل ہے
ب:امریکہ اپنی پوزیشن کو برقرار رکھنے کے لئے اس قسم کی متصادم حکمت عملیوں کا سہارا لے رہا ہے بجائے اس کی کہ بین الاقوامی معیارات اور قوانین کا سہارا لے ۔
ج:امریکی عسکری ادارہ اس قسم کی اسٹرٹیجیوں کے زریعے مزید فنڈ اکھٹا کرنا چاہتا ہے
د:روس نے گفتگو کے دروازے کھلے رکھے ہوئے ہیں اور امریکی بہت سے عسکری ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ انہیں اس وقت ایک اسٹریٹیجک استحکام Strategic Stabilityکی ضرورت ہے ۔
امریکی اس نئی دفاعی حکمت عملی کو اگر ہم امریکی نئی جارحیت اور جنگ کا اعلان کہہ دیں تو زیادہ مناسب ہوگا ۔
یہ بات واضح تھی کہ امریکہ دنیا میں اپنا کھوتا ہوا اثر ورسوخ سے کافی پریشان تھا اسے مسلسل یہ محسوس ہورہا تھا کہ اب دنیا پر وہ اپنا کنٹرول کھوتا جارہا ہے۔
اقتصادی ترقی کے سبب چین کی بڑھتی ہوئی قوت تو دوسری جانب روس کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت کا اکھٹ امریکہ کے چوہدراہٹ کے خاتمے کا اعلان تھا ۔
مشرق وسطی کہ جسے ہمیشہ امریکہ اپنے کنٹرول میں سمجھتا تھا اب اس کے ہاتھ سے تقریبا نکلتا جارہا ہے اور اسے وہاں اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود شدید ناکامیوں کا سامنا ہے ۔
دوسری جانب وہ چین کو روکنے کے لئے پوری طرح ایشیا کا رخ کرنا چاہتا ہے کہ جس کا اب وہ کھلے لفظوں اعلان کرچکا ہے ۔
بہت سے تجزیہ کار امریکی اس اعلان جنگ کو ایک نئی سرد جنگ کا آغاز کہہ رہے ہیں لیکن اگر بغور دیکھاجائے تو سرد جنگ پہلے سے چلے آرہی ہے جس میں مزید شدت آسکتی ہے یا پھر جیسا کہ روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم ایک بڑے تصادم کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔
یہ بات واضح ہے کہ سرد جنگ کی شدت ہو یا ایک نیا تصادم دنیا ایک بار پھر دوحصوں میں تقسیم ہونے جارہی ہے کہ جہاں امریکا اور اس کے حلیف ایک طرف ہوں گے جب کہ دوسری طرف روس اور چین کے حلیف ہوں گے۔
لہذا ہر ملک اور ہرقوم کو اپنا فیصلہ بروقت کرنا ہوگا کہ اسے کس سمت جانا ہے ،پاکستان کو جس قدر جلدی ہوسکے امریکی بلاک سے باہر نکل آنا چاہیے اور اس میں ہی ہماری بھلائی ہوگی ۔
دہشتگردی کیخلاف جنگ کے نام پر امریکہ لیبیا ،عراق ،شام افغانستان کو مکمل تباہ کرچکا ہے جبکہ پاکستان اب تک امریکی اسی جنگ کی قیمت اداکررہا ہے ۔
امریکہ پاکستان پر نہ صرف بھروسہ نہیں کرتا بلکہ وہ کسی بھی طور پر پاکستان کو ایک مضبوط ملک کے طور پر قبول کرنے کے لئے تیار ہی دیکھائی نہیں دیتا اس کی پالیسی میں اپنے مفادات پہلی ترجیح کی بنیاد پر رہے ہیں خواہ اس کے لئے پاکستان کو کسی بھی پہلو سے نقصان پہنچے ،ہمسائیوں کے تعلقات کی خرابی ہو یا پھر ملکی معیشت کی تباہی اور مسلسل بدامنی سب امریکی پالیسی کو قبول کرنے کا نتیجہ ہے ۔
یہ بات واضح ہے کہ امریکہ چین سے مقابلے کے لئے بھارت اور افغانستان کو پولیس مین کا کردار دے رہا ہے ،اس خطے میں بھارت کی بالادستی امریکی پالیسی کا حصہ ہے ۔
اس وقت ہم ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں ہمارا کیا گیا آج کا فیصلہ نسلوں تک اثر ڈالے گا ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button