مقالہ جات

بلتستان کے لوگ بھارت کے ایجنٹ ہیں؟

کاچو عرفان علی

لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی خاص طور پر فرقہ وارانہ بنیادوں پر گلگت بلتستان کو تقسیم کرنے کی سازش نئی نہیں ہے۔ علاقے کے درجنوں چمکتے اور ابھرتے ستارے اسی آگ و خون کی نذر ہو چکے ہیں۔

سینکڑوں جانیں پاکستان پر نچھاور کرنے اور کرگل، سیاچن اور شخمہ کے مشکل ترین سرحدوں پر سینہ سپر ہو کر ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے بلتستان کے لوگوں کو  نیم صوبے کے وزیر اعلی  کی طرف سے را کے ایجنٹ قرار دینے پر شدید مذمت کرتے ہیں۔

ہم علاقے کی وکلا برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ وزیر اعلی صاحب کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے اور ان سے اس گھناونے الزام پر ثبوت مانگے۔  اگرچہ انہوں نے اس سے پہلے والے ویڈیو بیان میں اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج عوام کو دھمکی آمیز انداز میں ڈرانے کی ناکام کوشش کی مگر ان کے حالیہ الزام سے بلتستان کے لاکھوں عوام کی شدید دل شکنی و دل آزاری ہوئی ہے۔  

بلتستان کے لوگوں کو کسی مسلک سے کوئی پریشانی ہوتی تو وہ بلتستان سے تعلق رکھنے والے اور علاقے کے اکثریتی مسلک سے وابستہ سابق وزیر اعلی سید مہدی شاہ جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا، گندم سبسڈی کے خاتمے کے اوپر انہیں شدید عوامی احتجاج کے دباو پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہ کرتے۔

ان کے دور حکومت میں ہونے والے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد ان کے خلاف ملک بھر میں بلتستان کے لوگ احتجاج کر کے استعفی نہ مانگتے۔

اگر بلتستان میں فرقہ وارانہ منافرت ہوتی تو بلتستان میں رہنے والے شیعہ اثنا عشری، نوربخشی، اسماعیلی، اہل سنت،  اہل حدیث مسالک کے لوگوں کو ایک دوسرے سے کسی قسم کی سماجی تفریق یا منافرت یا امتیازی سلوک کی شکایتیں ہوتیں۔ وہ تو احتجاج میں صف اول میں شانہ بہ شانہ بلاتفریق مسلک شامل ہیں۔

پاکستان میں بلتستان شاید وہ واحد علاقہ ہے جہاں آج تک مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر کسی ایک شخص کا بھی خون نہیں گرا۔ جبکہ پاکستان کے مختلف علاقوں اور شہروں سے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یہاں سو سے زاید افراد کی لاشیں بھیجی گئیں جنہیں فرقہ وارانہ بنیادوں پر شناخت کر کے مارا گیا۔ کتنی مرتبہ راستے میں مسافروں کو شانختی کارڈ چیک کر کے مارا گیا مگر کسی قسم کے مسلکی ردعمل میں بلتستان میں ایک پتہ نہیں ٹوٹا۔  جبکہ مختلف ملکی سرحدوں اور اندرون ملک مختلف شہروں/ علاقوں میں ملک کی تزویراتی گہرائی کی پروردہ دہشت گردی سے مقابلہ کرتے ہوئے جان دینے والوں کا تناسب نکالا جائے تو آرمی خصوصا این ایل آئی رجمنٹ، پولیس، رینجرز، جی بی سکاوٹس کے آفیسروں اور جوانوں کی شہدا  میں سب سے زیادہ بلتستان سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ اسی لیے بلتستان کا چپہ چپہ ایسے قبروں سے بھرا ہوا ہے جن میں شہداء کی جسد خاکی ہو نہ ہو مگر پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا ہوگا۔ ہر طرح اور ہرطرف سے نظر انداز کیے جانے اور آئینی حیثیت و حقوق سے محروم والے بلتستان کے بوڑھے والدین اپنے پیاروں کے خون کس کے ہاتھ تلاش کریں اگر وہ خود اپنے لخت جگروں کے خون کا سودا کر کے بھارت کے ایجنٹ بنے ہوں اس سے سے فنڈز لیتے ہوں

بلتستان کے عوام اگر فرقے کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے تو الیکشن پر کروڑوں خرچ کرنے والی مجلس وحدت مسلمین یا اسلامی تحریک کے نامزد امیدوار جیتتے،  مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی کے نمائندے نہیں۔

بلتستان کے لوگ اگر فرقے کی بنیاد پر سیاست کرتے تو "عوامی ایکشن کمیٹی” کے چیئرمین مولانا حافظ سلطان رئیس صاحب کی سربراہی کے بجائے کسی ہم مسلک مذہبی رہنما کو سرابرہی سونپنے کی ضد کرتے۔

راء کا ایجنٹ وہ ہے جو سینکڑوں پاکستانیوں کو قتل کروانے والے بھارتی دہشت گرد "کلبوشن یادو” اور ٹی ٹی پی کے احسان اللہ احسان اور عصمت اللہ معاویہ کے لیے تو "انسانی بنیادوں”  پر  نرم گوشہ رکھتے ہیں، ان کی ملاقاتیں کرواتے ہیں، ان کے ذرائع ابلاغ پر انٹرویوز کرواتے ہیں، انہیں ریاستی مہمان بنا کر رکھتے ہیں مگر سن اکہتر، اور اٹھانوے کی جنگوں کے دوران بلتستان کے چھوربٹ، کھرمنگ اور گلتری سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مہاجرین جو آج بھی بے گھر ہو کر درد بدر پھر رہے رہیں ان کو پوچھنے کی زحمت تک نہیں کرتے۔

راء کے ایجنٹ وہ ہیں جو علاقے کے متحد عوام کو مسلک اور علاقے کی بنیاد پر تقسیم بھی کر رہے ہیں اور عوامی نمائندہ کی حیثیت سے نیم صوبے کی وزارت اعلی کے منصب پر براجمان بھی ہیں۔

راء کا ایجنٹ وہ ہیں جو علاقے کے لاکھوں عوام کے سیاسی، اقتصادی اور قانونی حقوق کا مقدمہ لڑنے کے بجائے اپنی کابینہ کو لے کر لاہور میں چوہدری برجیس کے ہاں شادی کے ولیمے اڑاتے اور  نواز شریف کا برتھ ڈے کیک کاٹتے رہے جبکہ عین اسی وقت اس کو منتخب کرنے والے ہزاروں عوام خون جام کرنے والی سردی میں کھلے آسمان اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے تھے۔

حفیظ الرحمن صاحب باقی اضلاع اور وادیوں کی بات چھوڑیں سکردو بلتستان سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دُور آپ کے اپنے حلقے "کشروٹ” میں مکمل شٹر ڈاون کیوں اور کس کی طرف سے کیا گیا تھا اگر یہ احتجاج بلتستان کا معاملہ ہے تو؟

حفیظ الرحمن صاحب آپ یا تو سیاسی بلوغت کے لیے کچھ سال مزید انتظار کریں یا کسی طرح دو ہزار اٹھارہ میں مسلم لیگ نون کی سیٹ پر پنجاب میں کہیں جا کر الیکشن لڑیں۔ آپ کی قربانیوں اور وفاداریوں کے بدلے آپ کو پارٹی ٹکٹ مل ہی جائے گا۔

 آپ نے حالیہ ایک بیان میں کشمیر پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کئی مرتبہ انڈیا گئے ہیں۔  تو جاتے جاتے قوم کو بتا دیں کہ آپ بھارت کے دار الخلافہ دہلی اور سرینگر کونسے قومی مقاصد حاصل کرنے جاتے رہے ہیں؟

 آخر میں ہم گلگت اور دیامر ڈیویژنز کے چھ اضلاع (گلگت، ہنزہ، نگر، غزر، دیامر اور استور)  سے تعلق رکھنے مختلف مسالک کے احباب سے استدعا کرتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے گلگت بلتستان عوام کو تقسیم کرنے والی اس سوچ کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ آگے بڑھیں

متعلقہ مضامین

Back to top button