مقالہ جات

بیت المقدس سے متعلق ٹرمپ کا فیصلہ امریکی بے بسی کی علامت

تحریر؛ علی مہدی

قدس شریف کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بظاہر غیر متوقع اقدام بین الاقوامی برادری کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنا ہے جبکہ بعض اس اقدام کو ٹرمپ کی غیر متوازن شخصیت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس اعلان کے چند گھنٹے پہلے اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر اور ولی امر مسلمین امام خامنہ ای نے وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "یہ جو دعوی کرتے ہیں کہ وہ قدس شریف کو غاصب صہیونی رژیم کا دارالحکومت قرار دیں گے، اس کی وجہ ان کی بے بسی ہے، ان کی ناتوانی ہے۔ مسئلہ فلسطین کے بارے میں وہ مکمل طور پر بے بس ہو چکے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا یہ اقدام بھی ان کیلئے شدید نقصان کا باعث بنے گا اور اسلامی دنیا ان کے مقابلے میں اٹھ کھڑی ہو گی۔ یقیناً دشمن مسئلہ فلسطین کے بارے میں مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکتا اور فلسطین آزاد ہو کر رہے گا۔” (6 دسمبر 2017ء)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اقدام ولی امر مسلمین جہان کے بقول امریکی بے بسی کی علامت ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ امریکہ کے داخلی حالات کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ صدر کا یہ اقدام ایسے حالات میں سامنے آیا ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے قریبی افراد جن میں سے ایک ان کے داماد اور مشیر اعلی کشنر بھی شامل ہیں پر روسی ایجنسیز سے تعلقات کا الزام عائد کیا جا رہا ہے اور وہ اس اسکینڈل میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ نوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ ٹرمپ کو صدارتی عہدہ سے ہٹا دیئے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ لہذا ملکی رائے عامہ کی توجہ اس مسئلے سے ہٹانے کیلئے انہیں ایک زیادہ بڑی اور ہنگامہ خیز خبر کی ضرورت تھی جو انہوں نے قدس شریف کے بارے میں اپنا فیصلہ سنا کر ایجاد کر دی ہے۔ اسلامی دنیا کیلئے مسئلہ فلسطین انتہائی اہم ایشو ہونے کے ناطے امریکی صدر کے اس اقدام کے خلاف وسیع پیمانے پر ردعمل سامنے آیا ہے اور امریکی میڈیا پر بھی یہی خبر چھا چکی ہے لہذا وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

دوسری طرف عالمی سطح پر بھی امریکہ، اسرائیل اور خطے میں ان کے پٹھو اتحادیوں کو ایک عظیم شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ شکست درحقیقت اسلامی مزاحمتی بلاک کے ہاتھوں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی نابودی ہے۔ امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بعض دیگر ممالک نے شام اور عراق میں داعش کی بنیاد رکھی جس کا مقصد اسلامی دنیا کی توجہ قدس شریف اور مسئلہ فلسطین جیسے اہم ترین اسلامی ایشو سے ہٹانا تھا۔ اسی طرح اس تکفیری فتنے کا دوسرا مقصد خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کو کمزور کرنا تھا۔ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ خود اسلامی مزاحمتی بلاک نے ہی امریکی اور مغربی مدد کے بغیر داعش کی تہس نہس کر کے رکھ دی جس کے نتیجے میں ایک طرف خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے اثرورسوخ میں بے پناہ اضافہ ہوا جبکہ دوسری طرف خطے سے امریکہ، اسرائیل اور ان کے پٹھو حکمرانوں کے اثرورسوخ کا خاتمہ ہو گیا۔ اس ذلت آمیز شکست پر پردہ ڈالنے کیلئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور قدس شریف کو اسرائیلی دارالحکومت کے طور پر اعلان کر دیا۔ یہ اقدام درحقیقت خطے میں امریکی بے بسی اور ناچاری کا ایک ردعمل ہے۔

گذشتہ چند سالوں کے دوران امریکی حکام نے خطے سے متعلق جو سازش بھی انجام دی ہے اس کے برعکس نتائج ظاہر ہوئے ہیں۔ شام اور عراق میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی بھرپور فوجی، مالی اور انٹیلی جنس مدد بھی اس گروہ کو نابودی سے نہ بچا سکی۔ اسی طرح عراق کے زیر کنٹرول کردستان میں بھی امریکی صہیونی سازش ناکام ہو گئی اور ریفرنڈم کے ذریعے اسے عراق سے علیحدہ کرنے کی کوشش کا نتیجہ بارزانی کی برطرفی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ بغداد حکومت ایران کی مدد سے کرد علیحدگی پسندوں پر قابو پانے میں آسانی سے کامیاب ہو گئی۔ لبنان کے وزیراعظم سعد حریری کے جبری استعفی پر مبنی مضحکہ خیز سازش بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی اور آخرکار یمن میں اپنے پٹھو عناصر کی مدد سے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرنے کی سازش بھی ناکام رہی اور علی عبداللہ صالح مارا گیا۔ امریکہ اور سعودی عرب علی عبداللہ صالح کے ذریعے یمن کو دو حصوں شمالی اور جنوبی یمن میں تقسیم کرنا چاہتے تھے۔

شاید خطے میں انہیں مسلسل ناکامیوں کے باعث کچھ دن پہلے سابق امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے: "ہم ایک انتہائی تاریک راستے پر نیچے گرتے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں امریکہ گوشہ نشینی کا شکار ہو جائے گا اور اس سے نہ صرف امریکی عوام کے مفادات حاصل نہیں ہوں گے بلکہ خطرے میں پڑ جائیں گے۔” مذکورہ بالا حالات کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ نے درپیش مشکلات سے فرار اختیار کرنے اور ناکامیوں کا ازالہ کرنے کیلئے مسلمانان عالم کے قبلہ اول کو غاصب اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے جیسا گستاخانہ قدم اٹھایا ہے۔ لیکن ٹرمپ کے اس اقدام کا نتیجہ بھی برعکس ظاہر ہوا ہے اور موجودہ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں اسلامی مزاحمت مزید مستحکم ہوئی ہے۔ اسرائیل سے سازباز کی کوشش کرنے والے بعض اسلامی ممالک اب تک اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ خطے میں پائیدار امن صرف امن مذاکرات کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتا ہے لیکن ٹرمپ کے اس یکطرفہ اقدام نے انہیں بھی اپنی اسٹریٹجی پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

آج عالم اسلام میں یہ سوچ جڑ پکڑتی جا رہی ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس اور سرزمین فلسطین کی آزادی کا واحد راستہ مسلح جدوجہد ہی ہے۔ اسی طرح مسئلہ فلسطین جو گذشتہ سات برس سے تکفیری فتنے کے باعث اسلامی دنیا کی توجہ سے ہٹ گیا تھا ایک بار پھر مسلم دنیا کا پہلی ترجیح کا حامل مسئلہ بن چکا ہے۔ آج تک جس چیز نے سرزمین فلسطین کو امریکہ اور اسرائیل کی سازشوں اور جارحانہ اقدامات کے مقابلے میں اسلامی دنیا سے منسلک رکھا ہوا ہے وہ سعودی حکومت یا کسی دوسری عرب رژیم کے وعدے نہ تھے بلکہ اہل فلسطین کی مزاحمت اور مسلح جدوجہد تھی۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس سے ٹرمپ بھی بہت جلد باخبر ہو جائے گا۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اسی حقیقت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے: "زمینی حقائق کی روشنی میں اور الہی وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ انشاءاللہ ٹرمپ کا حالیہ اقدام اسرائیل کی نابودی کا پہلا قدم ثابت ہو گا۔”

متعلقہ مضامین

Back to top button