مقالہ جات

17 ربیع الاول ولادت صادقین کادن ہے۔

علمائے شیعہ کے نزدیک مشہور یہ ہے کہ جناب رسول خدا (ص) کی ولادت باسعادت عام الفیل میں انوشیروان عادل کے حکومت کے ایام میں 17 ربیع الاول کو مکه معظمہ میں اپنے ہی گھر میں جمعہ کے دن طلوع فجر کے وقت ہوئی ۔

اور اسی دن ۸۳ھ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت باسعادت بھی ہوئی لہٰذا اس دن کی شرافت میں اس کی وجہ سے مزید اضافہ ہوا ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :

آپ تمام صفات کمالیہ کے حامل تھے باوجود اس کے بہت سی صفات کمالیہ یکجا کرنا آسان نہیں۔ عالم تھے ، عارف تھے، عاشق تھے، دشمنوں پر سخت تھے، دوستوں پر مہربان تھے، بہادر تھے، ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے، عاقل تھے، آخرت کو ترجیح زیادہ دیتے تھے دنیا کو بھی جانتے تھے ، زاہد تھے، ثابت قدم تھے اور فعال تھے۔ آپ(ص) کی صفات کمالیہ بہت زیادہ ہیں۔
بلغ العلی بکماله کشف الدجی بجماله
حسنت جميع خصاله صلوا عليه و آله
آپ(ص) کے کمال کا پہلو اس حد تک پہنچا کہ آپ کے جمال کی برکتوں سے ساری تاریکیاں دور ہوگئیں ۔ آپ(ص) کے تمام خصائل نیک ہیں۔
قرآن کریم نے متعدد آیات میں یہ واضح کیا ہے کہ حضور اکرم(ص) ہر زمانے ، ہر جگہ اور ہر کسی کے لیے نبی ہیں۔
“وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمينَ”
“ ہم نےتمہیں نہیں بھیجا مگر یہ کہ سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔
“ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِنْ رِجالِكُمْ وَ لكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَ خاتَمَ النَّبِيِّينَ ” (سورہ احزاب ۴۰ )
“ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم تمہارے مردوں میں سےکسی کے باپ نہیں لیکن وہ اﷲ کے رسول(ص)اور خاتم الانبیاء ہیں۔”

آپ کے باطنی جمال و کمال کا کیا کہنا، آپ کو اللہ تعالٰی نے خاتم النّبیین، سید المرسلین، امام الاوّلین و الآخرین اور رحمتہ للعالمین بنایا۔ آپ کے احسانات اُمت پر بے حد و حساب ہیں، بلکہ آپ محسن انسانیت ہیں۔ صاحبِ جمال و کمال کے ساتھ محبت رکھنا اور محبت کا ہونا بھی لازمی امر ہے۔ تاریخ میں بہت سے لوگ اپنے کمالات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ حاتم طائی، اپنی سخاوت؛ نوشیرواں اپنے عدل و انصاف؛ سقراط و بقراط و افلاطون، اپنی دانائی و حکمت کی بنا پر مرجع خلائق اور لائق محبت تھے۔ مگر آپ (ص) کے جملہ کمالات ان سب سے کئی گنا بڑھ کر تھے، حتٰی کہ تمام انبیاء (ع) میں جو جو خوبیاں تہیں، وہ تنہا آنحضورؐ کی ذاتِ اقدس میں تھیں۔
بقولِ شاعر: حسن یوسف، دم عیسٰی، ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہاداری!

پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی (ص)کی ذات اقدس ، خداوند عالم کا مکمل آئینۂ جمال و کمال ہے اور پرودگارعالم نے کہ جوتمام خوبیوں اور اچھائیوں کا خالق ہے اپنی عظیم کتاب قرآن مجید میں اپنے اس عظیم پیغمبر(ص)کی مدح و ثنا کرتے ہوئے انہیں تمام مخلوقات عالم کے لئے باعث رحمت قرار دیا ہے-

اگر چہ عقل انسان ، اس انسان کامل کے بہترین اسوہ کی توصیف اور اسے قلمبند کرنے سے عاجز ہے ، رسول اکرم(ص)کی زندگی ،اعلی انسانی فضائل اور پسندیدہ صفات سے سرشار ہے ان کے پسندیدہ اخلاق میں عظمت و بزرگی مکمل طور پر عیاں ہے ۔ حضرت محمد مصطفی(ص)تمام اعلی اخلاقی صفات و کمالات سے بہرہ مند تھے اور یہ تمام صفات آپ میں بدرجۂ اتم موجود تھیں اور اسی بناء پر خداوند عالم ، سورۂ قلم کی آیت نمبر 4 میں آنحضرت(ص) کی یوں توصیف فرما رہا ہے ” اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجے پر فائز ہیں ” اس بناء پر پیغمبر اسلام(ص)تمام مسلمانوں کے لئے ،انسانی کمالات کا بہترین اور اعلی ترین نمونہ ہیں ۔

خداوند عالم نے سورۂ احزاب کی آیت 21 میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ کی اتباع کریں اور خداوند عالم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آپ(ص)کے احکام کی پیروی کریں چنانچہ ارشاد ہورہا ہے کہ مسلمانو، تم میں سے اس کے ليے رسول(ص) کی زندگی میں بہترین نمونۂ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔

پیغمبر عظیم الشان(ص)انسانوں کے مکمل ترین اسوہ کے طور پر تمام انسانوں کے حق میں بہت زیادہ مہربان تھے آنحضرت (ص) اپنی ان ہی قابل تعریف فضائل وخصائل کی بناء پر 23 برسوں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے مکتب کا شیفتہ اور گرویدہ بنانے میں کامیاب رہے اور انہیں گمراہی و ضلالت کے راستے سے ہٹاکر صراط مستقیم پر چلایا ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام:

17ربیع الاول سن تراسی ہجری قمری کو طلوع فجر کا وقت تھا شہر رسول ص مدینے کی فضا برکت سے معمور تھی ۔ اسی ہنگام خاندان عصمت و طہارت کی ایک عظیم ہستی امام جعفر صادق علیہ السلام نے عالم ہستی میں قدم رکھا اور شہر مدینہ کی خیرو برکت میں مزید اضافہ ہوگیا ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی 65سالہ بابرکت زندگی میں اسلام کی بے پناہ خدمت کی اور اسلامی تعلیمات کو پھیلانے کا جو عظیم سلسلہ آپ کے والد بزرگوار امام محمد باقرعلیہ السلام نے شروع کیا تھا اسے نہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے مزید وسعت دی ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چھٹے امام کے نام اور لقب کے بارے میں فرمایا ہے جب میرا بیٹا جعفر پیدا ہو تو اس کا نام صادق رکھنا ۔ آپ کے القاب صادق ، مصدق ، محقق ، کاشف الحقائق ، فاضل ، طاہر ، قائم ، منجی اور صابر ہیں ۔ جبکہ کنیت ابوعبداللہ ، ابو اسماعیل اور ابو موسی ہے ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد اکتیس سال کی عمر میں ایک سو چودہ ہجری قمری کو عوام کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ سنبھالا اور منصب امامت پر فائز ہوئے ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے کو علمی اِرتقاء اور ترقی کا زمانہ کہا جاسکتا ہے کیونکہ عوام و خواص ہر ایک اس زمانے میں تحصیلِ علم کی طرف متوجہ تھا۔ اور اس زمانے کا ماحول کاملاً اسرارِ قرآنی کی تبلیغ اور انکشاف کے لئے سازگار تھا۔ اِس علمی ماحول ہی کی وجہ سے امام کو اسرارِ علومِ دینی کے حتی الوسع اِنکشاف کا موقع ملا۔ آپ کے حکیمانہ کلمات علمی وطبی نظریات اور دینی بیانات کی پُرجوش نہر تھی جو تشنگانِ معرفت کو سیراب کرتی چلی جا رہی تھی۔ تشنگانِ دانش اور بیمارانِ جہل دور درازسے آتے اور جہالت کی بیماری سے شفایاب ہوتے۔

آپ کا علم

عِلمِ نبوت کا ایک پر تو ہے جس کا اَصل سرچشمہِ وحی اور پیغامِ خداوندی ہے۔ اسی سر چشمہ اور علم نبوتی کا دھارا حضرت علی علیہ السلام ہیں جن سے فرزندے بہ فرزندے امام جعفر صادق علیہ السلام تک بہ فیضانِ وحی پہونچتا ہے۔ مختصر یہ کہ معارفِ جعفری، اَسرار قرآنی کا ایک راز۔ انوارِ نبوت کا ایک نور۔ فیضانِ امامت کا ایک روشن فیض ہے۔

جب آپ منصب امامت پر فائز ہوئے تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی جس کی بنا پر اموی حکمرانوں کی توجہ خاندان رسالت سے کسی حد تک ہٹ گئی اور خاندان رسالت کے افراد نے امویوں کے ظلم و ستم سے کسی حد تک سکون کا سانس لیا ۔ اسی دور میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اسلامی تعلیمات کی ترویج کے لئے بے پناہ کوششیں انجام دیں اور مدینے میں مسجد نبوی اور کوفہ شہر میں مسجد کوفہ کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیا جہاں انہوں نے ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی اور ایک عظیم علمی و فکری تحریک کی بنیاد ڈالی اس تحریک کو خوب پھلنے پھولنے کے مواقع ملے ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ‌زمانہ علوم و فنون کی توسیع اور دوسری ملتوں کے عقائد و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ اسلامی افکار و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے تقابل اور علمی بحث و مناظرے کے اعتبار سے خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ اسی زمانے میں ترجمے کے فن کو بڑی تیزی سے ترقی حاصل ہوئی اور عقائد و فلسفے دوسری ‌زبانوں سے عربی میں ترجمہ ہوئے ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ تاریخ اسلام کا حساس ترین دور کہا جا سکتا ہے ۔ اس زمانے میں ایک طرف تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی اور دوسری علویوں کی بھی مسلح تحریکیں جاری تھیں ۔

آپ نے ہمیشہ عوام کو حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور غلط حرکتوں نیز غیراخلاقی و اسلامی سرگرمیوں سے آگاہ کیا ۔ آپ نے عوام کے عقائد و افکار کی اصلاح اور فکری شکوک و شبہات دور کرکے اسلام اور مسلمانوں کی فکری بنیادوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کی اور اہل بیت علیہم السلام کی فقہ و دانش کو اس قدر فروغ دیا اور اسلامی احکام و شیعہ مذہب کی تعلیمات کو دنیا میں اتنا پھیلایا کہ مذہب شیعہ نے جعفری مذہب کے نام سے شہرت اختیار کرلی ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے جتنی احادیث راویوں نے نقل کی ہیں اتنی کسی اور امام سے نقل نہیں کیں ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسب فیض کرنے والے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں ۔ آپ کے ممتاز شاگردوں میں ہشام بن حکم، محمد بن مسلم ، ابان بن تفلب ، ہشام بن سالم ، مفصل بن عمر اور جابربن حیان کا نام خاص طور سے لیا جا سکتا ہے ۔ ان میں سے ہر ایک نے بڑا نام پیدا کیا مثال کے طور پر ہشام بن حکم نے اکتیس کتابیں اور جابربن حیان نے دو سو ‌زائد کتابیں مختلف علوم و فنون میں تحریر کی ہیں ۔ جابربن حیان کو علم کیمیا میں بڑی شہرت حاصل ہوئی اور وہ بابائے علم کیمیا کے نام سے مشہور ہیں ۔ اہل سنت کے درمیان مشہور چاروں مکاتب فکر کے امام بلاواسطہ یا بالواسطہ امام جعفر صادق علیہ السلام کےشاگردوں میں شمار ہوتے ہیں خاص طور پر امام ابوحنیفہ نے تقریبا” دوسال تک براہ راست آپ سے کسب فیض کیا ۔ آپ کے علمی مقام کا اعتراف کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ نے کہا ہے : ” میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ پڑھا لکھا کوئی اور شخص نہیں دیکھا۔”

ایک اور مقام پر امام ابوحنیفہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں گزارے ہوئے دو سالوں کے بارے میں کہا "لولا السنتان ۔ لھک نعمان” اگر یہ دوسال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کی سیرت اور اخلاقی کمالات :آپ کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ آپ لوگوں کے ساتھ انتہائی محبت اور مہربانی کے ساتھ پیش آتے تھے اور حاجت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کیا کرتے تھے اور لوگوں کو بھی اپنی باتوں کی نصیحت کرتے تھے ۔

آپ فرماتے ہیں :اپنے رشتے داروں کے ساتھ احسان کرو اور اپنے بھائیوں کے ساتھ نیکی کرو چاہے وہ سلام کرنے یا خندہ پیشانی کے ساتھ سلام کا جواب دینے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔

متعلقہ مضامین

Back to top button