مقالہ جات

سعد الحریری کا فلمی استعفیٰ

تحریر: ثاقب اکبر

لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری 3 نومبر2017کو بیروت سے ریاض پہنچے تو بیروت میں ان کی اپنی پارٹی سمیت کسی کو کانوں کان خبر نہ تھی کہ وہ اچانک سعودی ٹیلی ویژن العربیہ کی سکرین پر نمودار ہوں گے اوراپنااستعفی پڑھ کر سنائیں گے۔ جہانِ سیاست کوا س اچانک استعفیٰ نے حیران کرکے رکھ دیا۔اس سفارتی اور سیاسی اچنبھے پر پوری دنیا میں اظہار حیرت کیا جارہا ،ہے طرح طرح کے تبصرے ہیں اور طرح طرح کے سوالات۔ لبنان کے صدر مائیکل عون نے ریاض میں استعفیٰ کے اس اعلان پر کہا کہ سعد الحریری سعودی عرب میں بیٹھ کر جو بھی اعلان کریں وہ حقیقت نہیں رکھتا، ان کی کیفیت مشکوک ہے ،اسے سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔ مائیکل عون نے سعد الحریری کا استعفیٰ منظور کرنے سے انکار کردیا۔لبنان کی پارلیمینٹ کے سپیکر نبیہ بری نے سعد حریری کے استعفیٰ پر ردعمل میں کہا کہ سعد حریری کے استعفیٰ کے بارے میں لبنان کے قانون کی روشنی میں بات کی جانی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ جب تک لبنان کی سرزمین پر استعفیٰ نہیں دیا جاتا، قابل قبول نہیں ہے۔

لبنان کے صدر مائیکل عون نے حکومت سعودیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ سعد الحریری کی بیروت واپسی میں حائل رکاوٹوں کی وضاحت کرے۔سعدی الحریری نے اپنے استعفیٰ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اس لیے وہ بیروت سے ریاض آئے ہیں۔ انھوں نے حزب اللہ اور ایران پر تنقید بھی کی۔ ان کے بیان کے بعد لبنان کی فوج کے ترجمان نے اعلان کیا کہ ان کے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں کہ جس کی روشنی میں کہا جاسکے کہ سعد حریری کی جان کو کوئی خطرہ ہے۔ ایسا ہی بیان لبنان کی خارجہ اور داخلی سیکورٹی کے اداروں کی طرف سے بھی جاری کیا گیا ہے۔ گویا تمام حکومتی اور ریاستی ادارے اس امر پر متفق ہیں کہ سعد حریری کی جان کو لبنان میں کوئی خطرہ درپیش نہیں تھا۔حزب اللہ کے قائد اور سعد الحریری کی حکومت کے حلیف سید حسن نصراللہ نے اس واقعے پر ایک تفصیلی بیان میں کہا کہ سعد الحریری کو لبنان میں کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔ انھیں سعودی عرب نے مجبور کرکے ایک لکھی ہوئی عبارت پڑھوائی ہے۔خود سعد حریری کی پارٹی کے راہنماؤں نے بھی تشویش کا اظہار کیا اور ان کی لبنان واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔گذشتہ روز سعد الحریری ایک مرتبہ پھر ایک سعودی ٹی وی چینل پر نمودار ہوئے اور انھوں نے کہا کہ استعفے کی عبارت انھوں نے خود لکھی تھی لیکن ان کی وضاحت اور انداز وضاحت نے فضا صاف کرنے کی بجائے مزید دھندلی کردی۔ وہ جب وضاحت کے لیے ایک خاتون کو انٹرویو دے رہے تھے تو پیچھے ایک عربی لباس پہنے شخص کھڑا تھا۔ اس کا چہرہ نہیں دکھایا گیا ، سعد الحریری کے بیان اور لہجے میں اضطراب نمایاں تھا۔ ان کا چہرہ پریشانی کی حکایت کررہا تھا۔ انھوں نے اس انٹرویو میں جلد واپس لبنان جانے کا عندیہ بھی دیا۔

استعفیٰ کے بعد یہ ان کا پہلا انٹرویو تھا جو لبنانی ٹی وی چینل المستقبل نے نشرکیا۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اس انٹرویو پر تبصرہ کرتے
ہوئے لکھا ہے کہ یہ اصلاً اطمینان بخش نہیں تھا اور اس سے یہ شک برطرف نہیں ہو سکے گا کہ انھیں سعودی عرب میں نظر بند کیا جا چکا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے مزید لکھا ہے کہ لبنانی وزیراعظم کے سعودی عرب عارضی اور رازدارانہ قیام نے مشرق وسطیٰ کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ ان کا انٹرویو بعید ہے کہ ان کی آزادی کے بارے میں شکوک کودورکر سکے۔ اخبار لکھتا ہے کہ لبنان کے کم ازکم پانچ ٹی وی چینلوں نے اس انٹرویو کو یہ کہہ کر نشر کرنے سے انکار کردیا کہ انھیں اس انٹرویو کے آزادانہ دیے جانے پر شک ہے۔اس دوران ایک اور واقعہ نے مسئلے کی پیچیدگی کو مزید گہرا کردیا اور وہ یہ ہے کہ فرانس کے صدر جو گذشتہ دنوں سعودی عرب پہنچے، انھوں نے لبنان کے مستعفی وزیراعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اسے قبول نہ کیا۔ فرانسیسی صدر امانوئل مکرون کے ہمراہ موجود سفارتکاروں نے سعد حریری کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ساتھ جوکچھ سعودی عرب میں پیش آیا ہے اسے ہالی وڈ کی فلموں کے مشابہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
فرانسیسی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے عرب ٹی وی چینل المیادین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پیرس سعد الحریری کو مستعفی نہیں سمجھتا اس کی رائے ہے کہ اگر انھوں نے استعفیٰ دینا بھی ہے تو انھیں آزادانہ طرز عمل اختیار کرنا ہوگا۔ اس مسئلے میں فرانس کی دلچسپی کی ایک تاریخ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسئلے کے تعاقب کے لیے آئندہ چند روز تک فرانسیسی وزیر خارجہ ریاض کا دورہ کرنے والے ہیں۔ہماری رائے یہ ہے کہ سعد الحریری کی جان کو خطرہ ضرور ہو سکتا ہے لیکن انہی قوتوں سے جنھوں نے ان کے والد رفیق الحریری کو قتل کیا تھا۔رفیق حریری کو 14فروری 2005کو بیروت میں ایک دھماکے میں قتل کردیا گیا تھا۔ وہ اس وقت لبنان کے وزیراعظم تھے۔ اس قتل کا الزام پہلے حزب اللہ پر اور پھر شام پر رکھا گیا۔ شام پرزبردست عالمی دباؤ ڈالا گیا۔ البتہ اس مسئلے کی ایک الگ تفصیل ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں۔ سعد الحریری بھی مسلسل شام پر اپنے والد کے قتل کا الزام عائد کرتے رہے لیکن بالآخر ستمبر2010 میں انھوں نے یہ الزامات واپس لے لیے۔ رفیق حریری کو کس نے قتل کیا۔ سید حسن نصراللہ نے اسی زمانے میں دلائل و شواہد کے ساتھ یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کے قتل میں اسرائیل کی موساد کا ہاتھ ہے۔ہماری رائے یہ ہے کہ سعد الحریری جب "آزاد” ہوں گے اور حالات کچھ بدلیں گے تو بڑی توقع ہے کہ وہ اپنے”’قتل کے خطرے” کے بارے میں بھی نیا بیان دیں گے۔ استعفیٰ کے بارے میں بھی ان کا نیا بیان آئے گا۔ البتہ اس کے لیے ان کا آزاد اور سلامت رہنا ضروری ہے۔ ہم ان کی لبنان میں خیر وسلامتی سے واپسی کے لیے دعا گو ہیں۔ انھوں نے لبنان واپس آنے کے جس عندیہ کا اظہار کیا ہے اسے لبنانی صدر مائیکل عون کے علاوہ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی امید افزا قرار دیا ہے۔ شایدیہ امید بر آئے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button