مقالہ جات

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں۔۔۔!

اس دنیا میں انسان ہی انسان کی شکل میں حیوان بن کر اپنے جیسوں پر اپنی طاقت، قوت اور اختیار کا زور چلاتے ہوئے اسے اپنا غلام بنا لیتا ہے، کہیں یہ زور پیسے کے بل بوتے پہ چلتا ہے اور کہیں فوج اور اسلحہ کے زور پہ، کہیں یہ زور جنگوں کی شکل میں سامنے آتا ہے اور کہیں سازشوں اور جھوٹ کے ذریعے پھیلائے جانے والے پراپیگنڈا کے ذریعے۔ ایسا لگتا ہے کہ جب سے دنیا وجود میں آئی ہے، انسان کی حرص اور طمع بھی اس کیساتھ ساتھ سفر کر رہی ہیں، زمین پر جسے بھی طاقت و اختیار حاصل ہوا، اس نے زمین کا خدا بننے میں دیر نہیں لگائی، بس کسی نے خدائی کا دعویٰ کرکے فرعون کہلانا پسند کیا اور کسی نے عملی طور پہ فرعونیت اختیار کی، مگر دعویٰ خدائی سے پرہیز کیا۔ قدیم بادشاہوں اور ماضی قریب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ ابھی تک ہمارے اپنے ملک میں ایسے آثار کثرت سے محفوظ ہیں، جہاں بادشاہ اپنے مخالفین یا اختلاف کرنے والوں کو اندھیری کال کوٹھڑیوں میں ڈال دیا کرتے تھے اور پھر ان کی خبر کسی کو بھی نہیں ہوتی تھی۔ ہمارے ملک میں میں اس مقصد کیلئے مغلوں کے بنائے ہوئے قلعے اور ان میں اذیت خانے آنکھوں والوں کیلئے نشان عبرت کے طور پر موجود ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ملک کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو پیپلز پارٹی کے ورکرز اور جیالوں کو بدترین آمر ضیاء الحق نے ان قلعوں میں پابند سلاسل کیا، انہیں کوڑے مارے جاتے، انہیں غائب کیا جاتا، انہیں اپنوں سے دور کر دیا جاتا اور ان کی کوئی خبر کہیں سے نہ نکلتی، ان کے پیارے اپنی جان بچانے کی فکر میں ہو جاتے اور یوں کئی ایک جیالے بنا قصور کے ان کال کوٹھڑیوں میں مارے گئے۔

آمر کی رسی ڈھیلی رہی، ان تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کی بددعاؤں نے اثر کرنا چھوڑ دیا تھا اور جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا دور گیارہ سال تک چلتا رہا، اس آمریت نے اس ملک کے بخیئے ادھیڑ دیئے اور اس کی سالمیت پر ایسی ضربیں لگائیں کہ آج بھی اس کے آثار ہم واضح طور پہ دیکھتے ہیں اور ہر دم محسوس کرتے ہیں، جو ملک ایک قوم بن کے حاصل کیا گیا تھا، وہ قومیتوں، علاقوں، زبانوں اور فرقوں و صوبوں کی بنیاد پر پاکستان کے نقشے پر دیکھا جاسکتا ہے اور انہی تفرقات کی بنیاد پر ملک کے گوشے گوشے میں بے گناہ انسانوں کے خون کے فوارے دیکھے جا سکتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مسجدیں اپنے نمازیوں کے لہو سے رنگین ہیں، بازار تاجروں کی لاشوں کے گواہ ہیں، ڈاکٹرز اسپتالوں میں مسیحائی کرنے جاتے ہیں اور انہیں موت دے دی جاتی ہے، وکلاء اور ججز کورٹ کچہریوں میں نشانہ بن جاتے ہیں، افواج پاکستان کے سپوت اپنے ہیڈ کوارٹرز میں لہو میں نہا جاتے ہیں، عالیشان دربار ملنگوں اور منتیں ماننے والوں کے چیتھڑوں سے اٹ جاتے ہیں، ماتم کرتے، اپنا سینہ پیٹتے، اپنا لہو بہاتے ماتمی بموں اور خودکش دھماکوں سے حصے بخروں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ اسلام کے نام پر نجانے کیا کچھ ہو رہا ہے، اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے اس ملک میں سب سے مظلوم اسلام ہی دکھائی دیتا ہے، جس کیساتھ نجانے کون کون۔۔۔۔ بالجبر کر رہا ہے اور اس کے بعد یہ پاک سرزمین ہے جسے اسلام کا قلعہ بنانے کا سوچا گیا تھا اور تمام مذاہب و مکاتیب کو یکساں آزادی کی بات کی گئی تھی، اب یہاں صرف دوہرے معیار قائم ہیں، دوہرے قانون ہیں، دوہرے آئین ہیں، دوہرے ادارے ہیں یا پھر ان میں تقسیم ہے، کیٹیگریز ہیں، یہ تقسیم و تفریق معاشرے کو گھن کی طرح کھائے جا رہی ہے، ہمارے وطن کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین کا وجود موجودہ دور میں اس حوالے سے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ اس نے اپنے قیام سے لیکر آج تک ان ایشوز کو سامنے لانے میں بہت محنت اور جدوجہد کی ہے، جنہیں سرد خانوں کی زینت بنا کر رکھ دیا جاتا تھا، شیعہ قتل عام، ٹارگٹ کلنگ اور تسلسل سے بہنے والے بے گناہوں کے خون کی فریاد لیکر شہر شہر لے کر جانے کا مسئلہ ہو یا بیلنس پالیسی کے تحت حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی عصبیت و تعصب کے نتیجہ بے گناہ شیعہ مومنین کو پابند سلاسل کرنے کا اہم ترین ایشو، اس جماعت کے قائدین نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے، اس سے انکار ممکن نہیں کہ ایسے مسائل قومی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں، جن میں پوری قوم یعنی سب جماعتیں شامل ہو جاتی ہیں اور ان کا مقصد و مطمع نظر ایک ہی ہوتا ہے، مگر سر میدان للکارنا اور پہلا قطرہ بننا ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ اس کی واضح مثالیں گذشتہ برس علامہ ناصر عباس جعفری کی بھوک ہڑتال جو شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ایک طویل جدوجہد کی حیثیت رکھتی ہے اور اب بے گناہ شیعہ لاپتہ افراد کے حق میں چلائی جانے والی تحریک اور اس کی قیادت اس پہ جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے، علامہ حسن ظفر نقوی جو ایک مریض شخص ہیں، نے اسیران کی عدم رہائی پہ احتجاجی گرفتاری کا اعلان کیا تو ہر سو پھیلا اندھیرا چھٹنے لگا، مایوسیوں کے بادل بر طرف ہوگئے، جوش اور ولولے بیدار ہوگئے، نوجوانوں میں ایک تحرک سامنے آیا اور ورثا جو ڈر کے مارے چھپے ہوئے تھے، وہ بھی سامنے آئے اور بھرپور احتجاج شروع کیا۔

یہ حوصلے، یہ عزم سلامت رہیں، ہم نے ہر دور میں یہ صعوبتیں برداشت کی ہیں اور اب بھی یہ سب اسی کا سلسلہ ہیں، مگر ہم ایک آزاد ملک کے وفادار شہری ہونے کے ناتے اپنا آئینی و قانونی حق چھنتا نہیں دیکھ سکتے، یہ چاہے حکمرانوں کی طرف سے ہو یا اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے۔ ہم میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں، ہم اپنے پیاروں کے ساتھ مل کر دم لینگے، ہم انہیں جیلوں سے باہر نکال کر دم لیں گے، ہم انہیں اّزادی دلوا کر دم لیں گے، ہم میدان میں موجود ہیں، پوری قوم ایک ہے، کسی میں بھی تقسیم نہیں ہے، ہر ایک کا مقصد بے گناہوں کے بچوں کو ان کے والدین سے ملوانا ہے، انہیں اپنی ماؤں اور ضعیف و ناتواں باپ سے ملوانا ہے۔ علامہ حسن ظفر نقوی کے بعد علماء و ورثا گمشدگان کی طویل قطار ہے جو ہر جمعہ کو احتجاجی گرفتاری پیش کرنے کیلئے تیار ہیں اور اپنا نام لکھوا رہے ہیں، ہماری اطلاع کے مطابق احتجاجی گرفتاری پیش کرنے کیلئے ثبت نام کروانے والوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے، موجودہ حکمرانوں اور ملکی سلامتی کے ضامن اداروں کو اب سوچنا ہوگا کہ بے گناہ شیعہ اسیران کو کب تک غائب کرکے رکھتے ہیں، اب جبری طور پہ گمشدہ کئے گئے بیسیوں نوجوانوں اور آئے روز سی ٹی ڈی کی ناجائز کارروائیاں ہماری برداشت سے باہر ہوچکی ہیں، ہمارے صبر کو آزمایا جا رہا ہے، اس لئے کہ ہم نے کبھی انتظامیہ یا فورسز پر ایک فائر بھی نہیں کیا، جبکہ تکفیری گروہ نے کسی کو چھوڑا ہی نہیں۔

ہمارا تقابل ان سے کرنا جنہوں نے اس دھرتی کے آئین سے لیکر ہر چیز کو پائمال کیا، کسی صورت جائز نہیں، ہم ظلم برداشت کرتے آ رہے ہیں، ہم تکفیریوں کے مظالم کا شکار ہیں اور اس کو پینتیس چالیس برس ہو رہے ہیں، جبکہ ہمیں انہی تکفیریوں کے ساتھ نتھی کرکے یکساں سلوک کیا جاتا ہے، جو ناصرف ناانصافی ہے بلکہ اس دھرتی کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔ دوستان حوصلے نہیں ہارنے، اتحاد کو قائم رکھنا ہے، کریڈٹ کے چکر میں نہیں پڑنا، خلوص نیت اور للہ آگے بڑھنا ہے، تاکہ اللہ اپنی مدد نازل فرمائے، فرشتوں کا نزول ہو اور خالص خدا کیلئے میدان سجانے والوں کو کامیابی کا نقارہ سنائی دے، منزل کی طرف بڑھتے رہیں اور راستے میں آنے والی رکاوٹوں کا مقابلہ حکمت و تدبر سے کریں، کہیں آپ کی پرامن جدوجہد کو تشدد کی آمیزش سے نقصان نہ پہنچ جائے۔ لہذا ایسے عناصر پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہوگی، ذرا تصور کریں کہ اس جدوجہد کے نتیجہ میں برسوں سے دروازے کی طرف تکتی کسی کی ماں کو اس کا لخت جگر مل جائے تو اسے کتنی خوشی ہوگی، اگر کسی کال کوٹھڑی میں غائب کرکے رکھے گئے نوجوان کی سہاگن کو اس کا شوہر مل جائے تو وہ کس قدر شادمان ہوگی، اگر کسی معصوم بیٹے یا بیٹی کو مہینوں سے غائب اس کا بابا اچانک سے گلے لگا لے تو اس کی خوشی کتنی دیدنی ہوگی، یہ عظیم مقصد ہے، جس کیلئے پوری قوم کو متحد ہونا ہوگا، ہر ایک اپنا حصہ ڈالے، ذاکرین مجالس میں، خطباء جلسوں میں، سیاستدان اسمبلیوں میں اور علماء منبروں سے صدائے احتجاج بلند کریں، ان شاء اللہ منزل پر پہنچ کر ہی دم لیں گے۔۔۔اور
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں۔۔۔اب زندانوں کی خیر نہیں

متعلقہ مضامین

Back to top button