مقالہ جات

انقلابی ایران اور مزاحمتی ایران

عبدالباقی

مورخہ 19-5-2017 کو جماعت اسلامی کے اخبار "جسارت” میں ایک کالم شائع ہوا . جسکا عنوان "انقلابی ایران اور استعماری ایران” تھا . جماعت اسلامی کے ممتاز کالم نگار شاہنواز فاروقی صاحب نے ایران کو استعماری ثابت کرنے کے لئے کئی مضحکہ خیز اور بے ربط دلیلیں پیش کی ہیں جو کسی طور پر ایک نظام کو استعماری ثابت کرنے کے لئے درست نہیں . لفظ "استعمار” کے لغوی معنی "آباد کرنا” ہے لیکن سیاسی اصطلاح میں اس سے مراد کسی گروہ کی دوسرے لوگوں یا کسی اور سر زمین پر حاکمیت یا قبضہ ہے . دور جدید میں اسکا مشابہ لفظ "امپریالزم” ہے.
مقصود یہ نہیں کہ کالم نگار استعمار کی تعریف اور معنی سے نا آشنا ہیں بلکہ یہ ان کی فرقہ ورانہ اور متعصب ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جس نے ان سے دانائی اور بینائی دونوں چھین لی ہے .

فاروقی صاحب نے کالم کی ابتدا ہی جھوٹ سے کی ہے , لکھتے ہیں کہ ” ایران کا انقلاب پہلے دن سے ہی شیعہ انقلاب تھا ” کئی سال قبل 21 اپریل 2006 صاحب کالم نے "ایشیا ٹائمز ” کے سید سلیم شہزاد کو انٹرویو دیتے ہوئے فر مایا تھا "در حقیقت انقلاب اسلامی ایران دنیا بھر کی ان تمام تحریکوں کی فتح تھی جو دنیا میں اسلامی نظام کے لئے جد و جہد کر رہے تھے , مزید فرما تے ہیں …”امام خمینی کی قیادت میں انقلاب اسلامی ایران ایک مکمل انقلاب تھا . جو ہر قسم کی فرقہ واریت سے بالا تر تھا ” . فاروقی صاحب اس کی وضاحت فرمائیں کہ وہ 2006 میں جھوٹ بولتے تھے یا 2017 میں سچ بولنے لگے ہیں .

صاحب کالم نے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے درج ذیل نکات پیش کیئے ہیں جنھیں پڑھ کر آپ بھی محضوظ ہونگے اور اس "صالح” کی خرد کو داد دیں گے .
ہماری کوشش ہوگی کہ ہر نکتے پر ایک منصفانہ تجزیہ کریں .
1. امریکی افواج کی عراق پر یلغار اور ایران کی خاموشی
2. تہران میں سنی مسجد کا نہ ہونا .
3. یمن کی خانہ جنگی میں ایران کی حوثیوں کی حمایت .
4. بحرین کے حکمرانوں کے خلاف شیعہ آبادی کو اکسانا.
5. شام میں بشار الاسد کی حکومت کی حمایت .
6. ایران کی سعودی عرب اور پاکستان کو دھمکی .
7. بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات .

عراق پر امریکی حملے پر خاموشی اختیار کرنا اگر استعماری ہونے کی دلیل ہے تو باقی تمام "استعماری” ممالک کی بھی فہرست تیار کرنی ہوگی جنھوں نے اس حملے پر خاموشی اختیار کی. جب خاموشی اختیار کرنےوالے استعماری ہیں پھر ان ممالک کو آپ کیا کہیں گے جنھوں نے اس حملے میں امریکہ کا بھر پور ساتھ دیا . امریکی فوجیں کویت سے داخل ہوتی ہیں , پروازوں کے لئے قطر سعودی عرب اور کویت میں موجود امریکی فوجی اڈے استعمال ہوتے ہیں . عراق کی بربادی کے لئے خلیجی ممالک کا پیسہ استعمال ہوتا ہے . سوال یہ ہے کہ کیا ایران کا کوئی جنگی طیارہ , فوجی یا ان کی سر زمین کا کوئی حصہ عراق پر مسلط کردہ جنگ میں استعمال ہوا ?
در حقیقت تمام عراقی عوام (شیعہ , سنی , اکراد اور ترکمن) کے لئے شرم کا مقام ہے کہ انھوں نے صدام کی ظالم حکومت کو خود سرنگوں نہیں کیا بلکہ یہ کام امریکہ نے کیا . یہ کسی طور پر زندہ قوم کا شیوہ نہیں ہے
عراقی جنگ کے دوران امریکی و اسرائیلی انٹیلیجنس رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ ایران اور حزب اللہ کی قیادت نے عراقی شیعہ لیڈر باقر الحکیم کو امریکہ کے خلاف مزاحمت کی دعوت دی تھی مگر الحکیم نے یہ کہہ کر عذر خواہی کی کہ” صدام نے 30 سال کے دوران عراقی عوام کو مکمل طور پر کچل دیا ہے اور فی الوقت ھم کسی طور پر امریکہ کے خلاف مزاحمت کے قابل نہیں ہیں ” .
عراقی حزب اختلاف( شیعہ , اکراد اور ترکمن ) نے امریکہ سے تعاون اور مفاھمت کی . اس تمام مفاھمتی عمل میں عراقیوں کی پشت پر ایران تھا تاکہ بغداد میں ایک ایران دوست حکومت تشکیل پا سکے اور ایران کی مغربی سرحد محفوظ ہو سکے . امریکہ کے عراق پر قبضے کے بعد آزادانہ انتخابات ہوئے جس میں اکثریت رکھنے والی شیعہ آبادی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی . امریکہ نے روز اول سے جھاں اس نو مولود حکومت کی امداد کی وہاں در پردہ سعودی عرب اور القاعدہ کے ساتھ مل کر عراق کو تباہ و برباد کیا اور پورے معاشرے کا قتل عام کروایا . امریکہ کا عراق پر حملے اور قبضے کا ایک مقصد ایران کے گرد گھیرا تنگ کر نا تھا .امریکہ کا یہ منصوبہ بڑی طرح ناکام ہوا آج ایران اور عراق کے درمیان مضبوط دوستانہ روابط ہیں . داعش کے خلاف جنگ میں بھی امریکہ نے ایران کو اپنا اتحادی بنانے کی دعوت دی مگر ایران کے سپریم لیڈر نے اسے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ "کسی طور پر اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ داعش کے خلاف ایسے ملک(امریکہ) کے ساتھ تعاون کیا جائے جس کے اپنے ہاتھ گندے اور ارادے ناپاک ہیں .

ایران میں اھل سنت کی تقریبا 11 ہزار مساجد موجود ہیں . مگر فاروقی صاحب کے مطابق تہران میں پاکستانی سفارتی اھلکار نے انہیں بتایا تھا کہ تمام ایران حتی سنی نشین علاقوں میں اھلسنت کی کوئی مسجد موجود نہیں ہے . آپکی معلومات کے لئے عرض ہے کہ تہران کے مضافاتی علاقوں میں بھی اھلسنت کی مساجد موجود ہیں جن میں مسجد صادقیہ, مسجد نسیم اور مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم قابل ذکر ہیں . البتہ مرکزی تہران میں اھلسنت کی کوئی مسجد نہیں ہے . جمہوری اسلامی ایران کے لئے یہ افسوس کا مقام ہے کہ اس اھم امر پر انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی .امید ہے کہ ایرانی حکومت اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دے گی اور تہران میں جلد سنی مسجد کی تعمیر شروع کر ے گی . لیکن یقین کیجئے اس کے بعد بھی جماعت کے یہ صالحین یوں راگ الاپیں گے کہ تہران میں صرف ایک سنی مسجد کیوں ہے ?

صاحب مضمون کا دعوی ہے کہ ایران یمن میں حوثی قبائل کو اکسا رہا ہے .یہ جماعت کے میڈیا کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ عوام کو من گھڑت افسانے سنا کر حقائق سے دور رکھتے ہیں . دراصل یمن پر حملہ بھی امریکی سعودی مفادات کی جنگ ہے جسے مختصرا یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ باب مندب (بحیرہ احمر کو خلیج عدن سے ملاتا ہے) ایک اھم تجارتی آبی گزرگاہ ہے . یہ یورپ اور افریقہ کے لئے تجارت کا بہترین متبادل راستہ ہے. اور بحر احمر میں اسرائیلی جنگی آبدوزیں بھی گشت کرتی ہیں . ان مقاصد کے پیش نظر یمن میں سعودی امریکی پٹھوحکومت کا ہونا لازم تھا . جو ان کے مفادات کا تحفظ کرتی . اور یہی یمن پر حملے کا باعث بنی . یمن کے خلاف اس جارحیت کو تقدس کا رنگ دینے اور مسلم امت کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے آل سعود اور انکے پالتو مفتیوں نے حرمین کے خطرے کا واویلا مچایا.

جب سعودی امریکی طیارے , یمنی شہری آبادی پر حملے میں مصروف تھے ایسے وقت میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے یہ بیان صادر فر مایا :”یمن میں قیام امن کی کوششوں کے لئے ہم سعودی عرب کے ساتھ ہیں ".

خادم حرمین شریفین اپنےامریکی, اسرائیلی اتحادیوں کے ساتھ مل کر یمن کا حصار کئے ہوئے ہیں . عوام تک دوا اور خوراک کی ترسیل ناممکن بنا دی گئی ہے . یمنی عوام کی یہ حالت شعب ابی طالب میں محصور مسلمانوں کی یاد دلاتی ہے جو کفار کے حصار میں اسطرح کے بدترین حالات میں تین سال تک رہے اسکے باوجود انکا ایمان کمزور ہونے کی بجائے مزید قوی ہوا .
پاکستان کے نامور تجزیہ نگار وسعت اللہ خان نے یمن کی صورت حال پر ایک تاریخی جملہ کہا ہے کہ :” پہلے ابرہہ یمن سے مکے آتا تھا اب ابرہہ مکے سے یمن پر حملہ آور ہوتا ہے ” .

جماعتی دانشور فرما تے ہیں کی ایران بحرینی شیعوں کو وہاں کی بادشاہت کے خلاف اکسا رہا ہے . قارئین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ بحرین میں اھل تشیع کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا سلطانی منصوبہ پچھلی 4 دہائیوں سے جاری ہے(انقلاب اسلامی ایران سے قبل) . بحرین میں دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ ہمارے پاکستان کے مختلف مناطق سے بھی لوگوں کو لا کر آباد کیا گیا ہے تاکہ وہاں کے اصل باشندوں کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے . بحرین کی سکیورٹی فورسز میں پاکستانیوں کو بھرتی کیا گیا اور ان کے ذریعے بحرینی حقوق کی تحریک کو کچلنے کے لئے ہر قسم کا ظلم کروایا گیا . جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بدقسمتی سے آج بحرینی ھم.پاکستانیوں سے شدید نفرت کرتے ہیں .

2011 میں بحرینی اپنے حقوق کے لیئے سڑکوں پر نکلے اس تحریک میں بحرین کی ابراھیم شریف جیسی معروف و مقتدر اھلسنت شخصیات بھی شامل تھیں . سعودی عرب نے اس تحریک سے خوفزدہ ہو کر بحرین میں فوجیں داخل کر دیں اور اس عوامی تحریک کو کچل دیا مگر پھر بھی بحرینی اپنے عزم پر برقرار ہیں .اخوان المسلمون کے روحانی پیشوا یوسف القرضاوی نےبھی اپنی بد نیت اخوانی روایت کو قائم رکھتے ہوئے عوام کے خلاف بحرین کے سلطان کی حمایت کا اعلان کیا تو انکے بیٹے عبدالرحمن القرضاوی نے اپنے والد کی مخالفت کی اور بحرین کے عوام کی حمایت کی .

ایران کے لیڈر امام خامنئی نے بحرین کے سلسلے میں ایک تاریخی بیان دیا :”یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ ہم بحرین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں . اگر ہم مداخلت کرتے تو بحرین میں نتیجہ وہی ہوتا جو 2006 میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ کا تھا.”

شام کے بحران پر جماعت کے "اسلامی” میڈیا نے جس مہارت سے جھوٹ بولا اور حقائق کو مسخ کیا ہے جماعتی صحافت میں اسکی مثال نہیں ملتی . شام کی حکومت ختم کرنے کا منصوبہ بری طرح ناکام ہوا ہے . جنگ کا مقصد شام کو مزاحمتی بلاک سے علیحدہ کرنا تھا تاکہ اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے . شامی عوام کی اکثریت بشار الاسد کی حمایت کرتی ہے . اس حقیقت کا اعتراف جماعت کے صالحین نے بھی اپنی نجی محفلوں میں کیا ہے کہ:”کاش شام میں تبدیلی اندر سے آئی ہوتی.”

تقریبا تین سال تک (2011سے 2013) بیروت میں موجود سفارتی اھلکار شامی حزب اختلاف کے پیچھے بھاگتے رہے اور پوری کوشش کی کہ کسی طرح حزب اختلاف کو حکومت شام کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لایا جائے تاکہ اسرائیل مخالف واحد عرب حکومت اور ملک کو بچایا جا سکے. لیکن خلیجی پیسہ اور امریکی اسرائیلی اسلحہ کے غرور میں مست شام کی حزب اختلاف کسی طور پر مذاکرات کے لئے راضی نہ تھی. خود فریبی کا یہ عالم تھا کہ بشارالاسد صرف چند ہفتوں کا مہمان ہے اور سقوط دمشق نزدیک ہے . 2013 میں ایران اور حزب اللہ نے شام کی خانہ جنگی میں عملی طور پر وارد ہونے کا فیصلہ کیا اور اپنے خون سے اس پروجیکٹ کو ناکام بنایا یعنی :
"خلافة على منهاج التكفيرية والصهيونية والأمريكية ” کو نابود کیا.
فاروقی صاحب ایران , پاکستان , لبنان اور افغانستان سے رضاکار نوجوانوں کی امریکی پروجیکٹ کے خلاف شام آمد کو استعماری حربے سے تشبیہ دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف

80 ممالک سے بہکا کر لائے گئے جنگجوؤں کو ایمان سے لبریز مجاہدین اور مشتاقین جھاد کہتے ہیں. جنکامقصد شامی حکومت کو ختم کرنے کے علاوہ شام کی تباہی بھی تھا .
شام کے سلسلے میں ایک اور افسوسناک حقیقت اسرائیل کا بطور "مجاہد” سامنے آنا ہے . ماضی میں امریکی سپانسر جھاد میں اسرائیل کا کردار مخفی ہوا کرتا تھا مثلا افغانستان کو لے لیجئے جہاں جماعت اسلامی کی اتحادی اور سابقہ رول ماڈل حزب اسلامی حکمتیار کے "مجاہدین” کو اسرائیلی کمانڈوز نے تربیت دی تھی جسکا انکشاف تین دہائیوں کے بعد اسرائیلی اخبارات نے کیا . لیکن.اب الا ماشااللہ, شام میں "اسلام پسندوں” کو اسرائیل کی اعلانیہ کمک حاصل ہے . اسرائیلی ہسپتالوں میں القاعدہ اور النصرہ کے جنگجوؤں کی بڑی تعداد زیر علاج ہے . جہاں سے یہ اپنا طبی اور روحانی علاج کروا رہے ہیں .

فاروقی صاحب کی منطق کے مطابق ایران کے استعماری ہونے کی ایک وجہ اسکے بھارت سے تجارتی تعلقات ہیں اور اس بات پر برھم ہیں کہ ایران کی سالانہ تجارت پاکستان کے مقابلے میں بھارت سے کیوں زیادہ ہے .فیورٹ نیشن (بھارت )سے تجارتی تعلقات پہ اتنی برھمی کیوں ? جب جماعتی خواص کی ذہنی سطح اور دیانتداری کا یہ عالم ہے تو انکے عام کارکن اور طرف داروں کا کیا حال ہو گا ?

سعودی عرب کے ولی عہد نے ایران کو دھمکی دی تھی کہ ھم جنگ کو ایران کے اندر لے جائیں گے . جس کے جواب میں ایرانی جرنیل نے سعودی عرب کو خبردار کیا کہ” اگر ایسا اقدام کیا گیا تو سوائے مکے اور مدینے کے پورے سعودی عرب کو تباہ کر دیا جائے گا.” سعودی ولی عہد کی دھمکی کا ذکر کیے بغیر صاحب کالم نے صرف ایرانی جرنیل کا جوابی بیان ذکر کیا ہے. جو کہ ایک علمی خیانت ہے.
بد قسمتی سے ہماری سرحدیں ہمسایہ ممالک ایران و چین کے خلاف استعمال ہوئی ہیں. پاکستان اور ایران کے تعلقات کو خراب کرنے کے لئے پچھلے دو دہائیوں سے ہر حربہ استعمال کیا گیا ہے.
ایرانی سفارتکار صادق گنجی کا قتل , پاک فضائیہ کے زیر تربیت سات ایرانی کیڈٹس کا قتل,ایرانی ثقافتی مرکز ملتان پر حملہ اور اسکے ڈائریکٹر کا قتل, حتی ان پاکستانی علمی شخصیات کا قتل کیا گیا جو دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے لئے کوشاں تھے, سعودی و امریکی دباؤ کی وجہ سے ایران کے ساتھ طے پانے والے ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہوئے. بھارتی جاسوس کلبھوشن کو بھی پاک ایران دوستی خراب کرنے کے لئے اس وقت سامنے لایا گیا جب ایرانی صدر کا دورہ پاکستان متوقع تھا . جبکہ بعد ازاں پاکستانی اخبارات نے اس خبر کو شائع کیا کہ ایران  نے کئی مرتبہ بھارت کو کلبھوشن کی سرگرمیوں کے لئے متنبہ کیا تھا.

ہمارے پرانے مخلص دوست چین تک کو ھم سے شکایت و احتجاج کرنا پڑا جب انکے سرحدی صوبے” ژنگجیان” میں حالات خراب کرنے کے لئے چین سے متصل ھماری سرحد استعمال ہوئی . جس میں وزیرستان میں زیر تربیت "ترکستان اسلامک موومنٹ” کا ہاتھ تھا . ایسی صورت حال میں کسی ہمسایہ ملک سے اچھے تعلقات قائم رہ سکتے ہیں?

اس تحریر کا مقصد یہ نہیں کہ ایران تمام اعتراضات اور تنقید سے مبرا ہے . اگر تنقید و اعتراض منطقی اور حقیقت پر مبنی ہو تو ہر مصنف شخص اسے قبول کرے گا.جماعت اسلامی نے انقلاب اسلامی ایران میں اھم کردار ادا کیا اور معاونت اور حمایت کی تھی مگر دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ منور حسن صاحب کی جماعت کی امارت سنبھالنے کے بعد سے حالیہ قیادت تک جماعت کی پالیسیوں نے فرقہ ورانہ رنگ اختیار کیا ہے جس میں روز بروز شدت آرہی ہے اور جماعت اسلامی سعودی و امریکی بلاک کا حصہ بنی ہے. تضادات, پینتھرا بدلنا اور منافقت جماعت اسلامی کی پہچان بن گئی ہے جوکہ معاشرے میں انکی ناکامی کا سبب ہے .جماعت کے امیروں کے متناقص اور منافقانہ بیانات کے سبب پہلے ہی جماعت بدنام ہو چکی ہے . ایسے کالم لکھ کر جماعت کے یہ نامور دانشور اور کالم نگار رہی سہی کسر بھی پوری کر رہے ہیں .

متعلقہ مضامین

Back to top button