مقالہ جات

رقہ معرکہ ، شامی بحران کا اختتام یا کسی نئے معرکے کا پیش خیمہ

تحریر : حسین عبداللہ ۔۔۔۔

عراق میں دہشت گرد تنظیم داعش کے تقریبا خاتمہ کے بعد اس وقت شامی افواج شام کے علاقہ دیرالزور تدمر اور رقہ کے علاقوں میں اپنی فیصلہ کن کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن اس فیصلہ کن کارواوئیون نے دہشت گرد وں کے خلاف امریکی اتحاد اور شامی افواج اور اس کے اتحادیوں کو آمنے سامنے لاکھڑا کردیا ہے ۔

عرب میڈیا میں شام سے متعلق نشر ہونے والی خبروں کے مطابق اس وقت شام میں زمینی طور پر مزاحمتی بلاک اور امریکی بلاک کے محاذ کی پوزیشن کچھ یوں بنی ہے کہ ایک دوسرے کے آنے سامنے ہونے کے ساتھ ساتھ جغرافیائی طور پر باہم مخلوط ہوچکے ہیں ۔

یہ پوزیشنیں داعش کے گڑھ رقہ کے صحرائی علاقے اور اسی طرح دیر الزور اور شام و عراق کے درمیان کی سرحدی گذرگاہوں خاص کر شام کی جانب سے التنف کا اہم علاقہ شامل ہیں ۔

بادی النظر میں یہاں موجود تمام فورسز اور مسلح گروہ کے درمیان موجود واحد مشترکہ چیز کہ جس کو اپنی موجودگی کی اصل وجہ کے طور پر دونوں جانب سے بیان کیا گیا ہے وہ داعش کیخلاف جنگ ہے ۔

زرائع ابلاغ کے مطابق حلب کے مشرقی حصے اور اسی طرح تدمر یا پلمیرا کے جنوبی و مشرقی حصے سے شام اور اس کی اتحادی افواج ک جن کو مزاحمتی بلاک کہا جاتا ہے تو رقہ کے اطراف میں امریکی حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز سمیت دیگر مسلح گروہ موجود ہیں ۔

شام کے اہم علاقے التنف کے ایک حصے میں عراقی و اردنی سرحد کے ساتھ امریکہ نے اپنا عسکری بیس بنالیا ہے جہاں امریکی افواج بھی موجود ہیں اور اسی علاقے میں ہی امریکہ نے اپنے میزائل سسٹم (Himars)کو نصب کیا ہواہے ،عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میزائل سسٹم کی تنصیب کا مقصد داعش ہرگز نہیں ہوسکتے بلکہ یہ کچھ اور اہداف کی ہی نشاندہی کرتاہے ۔

عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں مزاحمتی بلاک کی پوری کوشش اس بات پر ہے کہ زمینی طور پر طاقت کے توازن کو بدلنے والی کامیابی کی حفاظت کریں جو دمشق بغداد اور تہران کو متصل کرنے والااہم علاقہ شام کی جانب سے التنف اور عراق کی جانب سے بوکمال کا ہے جہاں ابھی گذشتہ روز ہی طرفین کی افواج میں خیر سگالی کے پیغامات کا تبادلہ اور ملاقاتیں ہوئیں ہیں ۔

عسکری و سیاسی ماہرین اس کامیابی کو انتہائی اہمیت کے ساتھ دیکھتے ہیں اور اسے شام کے مستقبل میں اہم کردار کے طور پر بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی میں بدلتی صورتحال میں ایک اہم تبدیلی قراردے رہے ہیں ۔

مزاحمتی بلاک کہلانے والی قوت کی پوری کوشش ہوگی کہ اس کامیابی کی مکمل حفاظت کریں جبکہ دوسری جانب بالکل اسی علاقے کے ایک چھوٹے سے حصے میں امریکی فوجی اڈے کی موجودگی روزبروز تناو اور کشیدگی کو بڑھاوا دے رہی ہے۔

امریکی بلاک کی یہ کوشش بھی ہے کہ شام کے مستقبل کو اپنی مرضی کے مطابق ڈیزائن کیاجاسکے کہ جس کی خاطر گذشتہ چھ سال سے اربوں ڈالر خرچ کئے گئے ہیں اور ہزاروں ٹن کا بارود شام جیسے چھوٹے سے ملک پر برسایا گیا ہے ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ چھ سالوں میں یہ پہلی بار ہے کہ مزاحمتی بلاک کی افواج براہ راست امریکی افواج کے مد مقابل کھڑیں ہیں ،عرب معتبر زرائع ابلاغ کے مطابق طرفین ایک دوسرے سے صرف پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہیں ۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں دونوں قوتون کے درمیان براہ راست تصادم کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ خاص کر ایسے میںکہ دو روز قبل ہی امریکہ نے اس شامی فائٹر طیارے کو مار گرایا جو رقہ میں داعش کیخلاف آپریشن میں مصروف تھا ،امریکیوں کا کہنا تھا کہ مذکورہ شامی طیارہ امریکی حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز پر بمباری کررہا رہا تھا۔

امریکی اس اقدام کے بعد روس نے اس فضائی حفاظتی تعاون کو ختم کردیا جو شام کی فضائی حدود میں امریکیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے تصادم سے بچنے کے لئے طے پایاتھا ،جبکہ روسی وزیر خارجہ نے امریکہ سے یہ بھی کہا کہ وہ شام کی خود مختاری کا خیال رکھے ،جبکہ اسی اثنا میں یہ بھی خبریں آرہی ہیں کہ روس نے شام کی بین الاقوامی آبی سرحد میں کچھ میزائل آزمائے ہیں جسے اگرچہ روز مرہ کی جنگی مشقوں کا حصہ قراردیا ہے لیکن اسے شام کے اندر موجود نئی کشیدہ صورتحال سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔

اسی اثنا میں ایران کی جانب سے ساڑھے چھ سو کلومیٹر دور شام کی شہر دیر الزور میں داعش کے ٹھکانوں پر انتہائی جدید قسم کے میزائل داغے ہیں کہ جس کے بارے میں عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کچھ طبقوں کے لئے کسی سرپرائز سے کم نہیں تھے ،کہا جارہا ہے کہ یہ میزائل چار ملکی مشترکہ آپریشن روم سے مکمل ہم آہنگی کے بعد فائر ہوئے ہیں ،ایران کا کہنا ہے کہ داعش کے ٹھکانوں پر یہ میزائل حملہ تہران میں دو مقامات پر داعشی دہشتگردانہ حملوں کے براہ راست جواب کا آغاز ہے ۔

ایرانی ان میزائلوں نے ا گرچہ انتہائی درستگی اورباریکی سے داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے لیکن دوسری جانب خطے میں موجود تمام قوتوں کو ایک واضح پیغام ہے کہ ایران دور اور درست ہدف تک بڑی آسانی کے ساتھ رسائی رکھتا ہے ۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایران نے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ نہ صرف اس خطے کا بنیادی کھلاڑی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی پوزیشن بڑے کھیلانے والے ممالک سے کسی طور کم نہیں ،اس میں یہ صلاحیت ہے کہ اپنے دشمن تک بڑی آسانی کے ساتھ بغیر اپنی افواج کو اتارے اپنے ہدف کو پہنچ سکتا ہے ۔

بعض تجزیہ نگاروں یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ اگلے کچھ ہفتوں یا ماہ میں عراق اور شام سے داعش کا صفایا ہوسکتا ہے لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو چند اہم ترین سوالات بھی موجود ہیں جن کا جواب ابھی ملنا باقی ہے ۔

داعش کے خاتمہ کے بعد شام میں موجود متضاد قوتوں کا کیا ہوگا ؟کیا امریکہ اپنا فوجی اڈہ ختم کرکے رفو چکر ہوگا ؟کیا دنیا بھر سے اکھٹے کئے گئے بھانت بھانت کے مسلح گروہ جو اس وقت مختلف ناموں سے امریکی قیادت میں لڑ رہے ہیں خود بخود ختم ہوجاینگے ؟کیا امریکی قیادت میں لڑنے والی کرد سیرین ڈیموکرٹیک فورسز عظیم کردستان کے خواب کو پورا کر پائے گی ؟کہ جس وعدے پر وہ اس وقت امریکی قیادت میں لڑ رہی ہیں ۔

ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ابتک شام میں امریکی بلاک اپنے اہداف مسلح گروہوں کے توسط سے حاصل کرنا چاہتے آئے ہیں لیکن اب صورتحال مختلف ہے ۔ہمیں اس بات کوبھی زہن میں رکھنا ہوگا کہ مشرقی و جنوبی شام کا یہ علاقہ شمالی شام سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ زمینی مساحت قدرے کم ہونے کے ساتھ ساتھ اس علاقہ میں براہ راست مختلف قسم کے اصلی کھلاڑی موجود ہیں۔

اگرچہ اب تک انہیں دو بلاکوں میں تقسیم کیا جاتا رہا ہے لیکن اس کے باوجود امریکی بلاک میں موجود بہت سی قوتیں اپنے اپنے حصے کے مختلف اہداف بھی رکھتے ہیں ،جیسے ترکی کہ جس کی کوئی کل کبھی سیدھی نہیں رہی ہے اور اس وقت وہ کردوں کو حاصل امریکی حمایت کے سبب کافی پریشان ہے تو دوسری جانب قطری سعودی اختلافات نے بھی ترکی سمیت شام میں موجود مختلف مسلح گروہ کو سخت کنفیوژن میں ڈالا ہوا ہے ۔

ایسی صورت حال میں بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ملک شام کا صحرا اس بحران کانکتہ اختتام ہونے کی بجائے پھر ایک نئے بڑے معرکے کا پیش خیمہ بنتا نظر آرہا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button