مقالہ جات

لاپتہ شیعہ افراد کا معاملہ اور ہر سو چھائی خاموشی

تحریر: این اے بلوچ

ریاست پاکستان میں افراد کا لاپتہ ہونا ایک معمول سا بن گیا ہے۔ ان لاپتہ افراد کے بارے میں نہ تو ریاستی ادارے کچھ معلومات دیتے ہیں اور نہ ہی انہیں قانونی عمل سے گزار کر عدالت میں پیش کرکے سزا دلانے کی کوئی سعی نظر آتی ہے۔ ایسے میں جن کے پیارے لاپتہ ہو رہے ہیں، ان کی پریشانیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سورج نکلتا ہے اور ڈھل جاتا ہے، لیکن ماوں کی آنکھوں کے تارے رات کی تاریکی چھا جانے کے باوجود بھی ممتا کے افق پر نمودار نہیں ہوتے۔ اسی طرح ہر وہ ماں جس کا لخت جگر سالوں اور مہینوں سے غائب ہے، وہ اپنی نئی صبح کا آغاز اس نیت سے کرتی ہے کہ شائد آج اس کا بیٹا ضرور واپس آئے گا، لیکن شام ڈھلتے ہی تاریکی تو گھروں کا رخ کر لیتی ہے لیکن امیدوں کے چراغ نہیں جل پاتے اور ظاہر ہے کہ جن کی امیدوں کے چراغ ہی غائب کر دیئے جائیں، ان گھروں میں روشنی کیسے آسکتی ہے۔

اب تک کی اکٹھی کی گئی معلومات کے مطابق پنجاب سے تقریباً سات افراد لاپتہ ہیں، 23 اگست 2016ء کو اختر عمران ولد واجد علی جو اسلام آباد میں لیکچرر بھی رہے ہیں، انہیں چنیوٹ گھر سے اٹھایا گیا، اختر عمران کے والد واجد علی نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے رات کی تاریکی میں گھر پر چھاپہ مارا، ان کے دو بیٹوں اختر عمران اور وقار حیدر کو ساتھ لے گئے۔ اسی طرح 7 جولائی 2016ء کو جناح کالونی کے مرید عباس ولد فتح شیر کو بھی گھر سے اٹھایا گیا اور آج تک اس کا کچھ پتہ نہ لگ سکا۔ اسی طرح معروف عالم دین مولانا ظہیر الدین بابر کو 20 نومبر 2016ء کو چکوال سے اٹھا لیا گیا، اسی طرح مولانا اسد آہیر جو قم میں زیرتعلیم تھے اور پاکستان آئے ہوئے تھے، کو 9 اکتوبر 2016ء کو گھر سے اٹھا لیا گیا اور آج تک ان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں لگ سکا۔ مولانا اسد آہیر کے اہلخانہ کے مطابق اسد آہیر کو اس سے پہلے بھی اٹھا لیا گیا تھا اور کئی ماہ بدترین تشدد کرنے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح 2016ء میں ہی گاہی گیھاں کلر کہار سے تعلق رکھنے والے سید عمران بخاری کو سرگودھا سے اٹھایا گیا، ان کے بارے میں بھی تاحال کچھ پتہ نہیں لگ سکا۔ راغب عباس عرف ثاقب علی ولد ساجد حسین خان کو 21 اکتوبر 2016ء کو سدھپورہ فیصل آباد، گھر سے اٹھایا گیا، ثاقب علی کی والدہ کے مطابق ان کا بیٹا ایک اسکاوٹ تھا اور ہمیشہ انسانیت کے خدمت میں پیش پیش رہتا تھا، وہ پاکستان اسکاوٹس سے کئی بیج بھی کرچکا تھا۔

صوبہ سندھ پر نظر دوڑائیں تو ایک درجن کے قریب افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات ہیں، جن کے بارے میں آج تک کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ لاپتہ ہونے والوں میں محمد اقبال ولد خدا بخش کو 27 مارچ 2016ء سے غائب کیا گیا، اسی طرح شہکار عباس ولد مختار عباس آٹھ ماہ سے لاپتہ ہیں، اسی طرح محمد تنویر ولد بشیر حسین عرصہ نو ماہ سے غائب ہیں، غلام حسنین ولد گل شیر سات ماہ سے اور سید ناصر حسین ولد بشیر حسین شاہ کاظمی چھ ماہ سے لاپتہ ہیں۔ اسی طرح محمد سجاد پانچ ماہ اور سید امتیار حسین شاہ کاظمی ولد امداد شاہ چھ ماہ سے غائب ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے بلاگر اور سماجی کارکن ثمر عباس کو دس جنوری 2017ء یعنی رواں سال وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے لاپتہ گیا، جن کے لاپتہ ہونے کی ایف آئی آر بھی درج ہے، عرصہ پانچ ماہ گزر گئے کچھ پتہ نہیں لگ سکا، وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے سینیٹ میں فلور آف دی ہاوس کھڑے ہو کر کہا تھا کہ ثمر عباس کی رہائی کیلئے اقدامات کر رہے ہیں، لیکن آج تک کچھ نہ ہوسکا۔ اسی طرح اسد ظہیر کو گذشہ سال 24 اگست کو غائب کیا گیا، عارف جعفری کو رواں سال تین فروری کو اور بشیر حسین نامی جوان بھی گذشتہ ایک سال سے لاپتہ ہیں۔ اسی طرح یوسف حیدری نامی شیعہ جوان کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہیں چل سکا۔

اگر ہم فقط ڈیرہ اسماعیل خان پر نظر دوڑائیں تو اس شہر سے سات افراد لاپتہ ہیں، طالب علم سید ناصر حسین شاہ ولد سید بشیر حسن شاہ سکنہ کوٹلہ سدراں کو یکم اکتوبر 2010ء کو پرموھادائی اڈہ راولپنڈی سے مبینہ طور پر غائب کیا گیا اور آج عرصہ 7 برس بیت جانے کے باوجود بھی ان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ اسی طرح غلام حسننت ولد گل شر جون 2011ء میں ڈیرہ اسماعیل خان سے لاپتہ ہوئے اور ان کے بارے میں تاحال کچھ پتہ نہیں لگ سکا۔ شہ کار علی ولد مختار علی (دکاندار) کو 18 جون 2013ء کو ڈیرہ اسماعیل خان سے غائب کیا گیا۔ اسی طرح اقبال حسن ولد حسنو بخش (کارپرٹ آ) 2016ء کو ڈیرہ اسماعیل خان سے لاپتہ ہوئے اور ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ ڈی آئی خان کے پانچویں غائب ہونے والے محمد سجاد المعروف ارشاد ولد فضل کریم ہیں، ان کا تعلق بھی ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے اور انہیں 30 ستمبر 2016ء کو ڈی آئی خان سے ہی لاپتہ گیا گیا۔ محمد سجاد محکمہ صحت میں ملازمت کرتے تھے۔ چھٹے غائب ہونے والے رجب علی ولد محمد گلزار سکنہ ڈیرہ اسماعیل خان ہیں، جنہیں 13 جنوری 2017ء کو ڈی آئی خان سے لاپتہ کیا گیا۔ رجب علی بنک میں ملازمت کرتے تھے، اسی طرح سابق صدر آئی ایس او ڈی آئی خان انیس الحسن سکنہ ڈیال روڈ 13 مئی 2017ء کو آفس جاتے ہوئے لاپتہ ہوئے، انیس مڈیسن کا کاروبار کرتے تھے۔

لاپتہ افراد کے معاملے پر کوئی پیشرفت ہوتی دکھائی نہیں دے رہی، والدین شہر اقتدار آکر میڈیا کے سامنے اپنی آواز بلند کرتے ہیں، لیکن اقتدار کے ایوان کی دیواریں اتنی بلند ہیں کہ ان مظلوموں کی آہیں اور سسکیاں ان بےحس حکمرانوں کو سنائی نہیں دیتیں۔ لاپتہ اختر عمران اور ثاقب علی کے اہل خانہ دو بار اسلام آباد کا رخ کر چکے ہیں، انکوائری کمیشن فار مسنگ پرسن نے نوٹس تو لیا، لیکن اس پر کوئی کارروائی ہوسکی اور نہ ہی کوئی پیش رفت۔ شیعہ جماعتیں بھی اس معاملے کو حل کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس اس معاملے پر وزیر داخلہ چوہدری نثار سے دو سے تین مرتبہ ملاقاتیں بھی کرچکے ہیں، لیکن ہر دفعہ ایک نئے وعدے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔ دوسری جانب لاپتہ افراد کے اہل خانہ پر ہر گزرتا دن ایک عذاب سے کم نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کے بچوں نے کوئی گناہ کیا ہے تو انہیں عدالتوں میں لایا جائے اور کیس چلا کر سزا دلوائی جائے، لیکن بچوں کو غائب کر دینا اور کچھ نہ بتانا ایک ظلم سے بڑھ کر ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے اپنے آپ کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے۔ اس معاملے کے حل کیلئے وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیراعظم کو نوٹس لینا چاہیئے اور قوم کو بتانا چاہیئے کہ آخر کیوں ان لوگوں کو اٹھایا جا رہا ہے اور عدالتوں میں پیش نہیں کیا جا رہا۔ قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ جہاں دہشتگردوں کو ریاست کے اندر ریاست بنانے کا کوئی حق نہیں، وہیں ریاستی اداروں کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر نہ سمجھیں، اس عمل سے سوائے ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت کے جذبات ابھرنے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ اس تحریر کے جاری ہونے سے دو روز قبل ہی کراچی میں ہزاروں کا اجتماع منعقد ہوا تھا اس اجتماع کے مقاصد میں سے ایک مقصد لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی کے حوالےسے عوامی طاقت کا مظاہر ہ بھی کرنا تھا جبکہ اس کانفرنس میں مقررین بالخصوص مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرئٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی کےحوالے سے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے حکومتی و ریاستی اداروں کو خوب سنائی اور انکی بازیابی تک تحریک جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم اس تحریر کے لکھاری نےتمام حقائق کے ساتھ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے کی جانے والی اس کوشیش کاذکر نا کرکے ناانصافی کی ہے، البتہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لکھاری کو اس کوشیش کا علم ہی نا ہو۔

متعلقہ مضامین

Back to top button