مقالہ جات

خلیج کی پراکسی وار: پاکستان کہاں کھڑا ہے

محمد عامر حسینی

پاک فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف 41 ممالک کے فوجی اتحاد کی قیادت سنبھالنے کے لیے جب سے سعودی عرب پہنچے ہیں اس وقت سے معاملات ابتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔راحیل شریف کو سعودی عرب پہنچے زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ سعودی ولی عہد اور وزیر دفاع محمد بن سلیمان نے پاکستان کی جانب سے اس اتحاد میں ایران کو شامل کرنے کی امید کو سرے سے رد کر دی۔راحیل شریف کو امید تھی کہ وہ ایران سعودی تعلقات میں توازن لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن ابھی انہوں ںے سعودی سرزمین پر قدم بھی نہیں رکھا تھا کہ سعودی عرب نے ایران کو دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے دیا۔سعودی سرکاری ٹی وی کو حالیہ انٹرویو میں شہزادہ سلمان نے ایک اعلیٰ امریکی فوجی عہدیدار کے بیان کی تائید کرتے ہوئے ایران میں نسلی اقلیتوں کے فارسی بولنے والی اکثریت کے ساتھ اختلافات سے فائدہ اٹھانے کا عندیہ دے دیا۔

دراصل سعودی عرب اور امریکا ایرانی بلوچستان اور ایرانی تیل کے وافر ذخائر والے عرب نژاد ایرانی اکثریتی آبادی کے صوبے خوزستان میں پہلے سے جاری تشدد میں اضافہ چاہتے ہیں۔نسلی و فرقہ وارانہ تشدد پر مبنی یہ پراکسی جنگیں سعودی ایران تنازعے میں ہندوستان اور چین کو بھی گھسیٹ سکتی ہیں۔چین اپنے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت گوادر بندرگاہ کو ترقی دے رہا ہے اور اس سے 75 کلومیٹر دور ایران میں چاہ بہار کو بھارت ڈویلپ کر رہا ہے۔سعودی عرب اس بندرگاہ کو خلیج سے ایشیا کو تیل کی سپلائی کے سب سے بڑے سمندری راستے کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔یوں یہ امکان جنم لیتا ہے کہ چین، سعودی عرب، پاکستان ، بھارت اور ایران کی باہمی کشاکش میں زیادہ شدت آ جائے گی۔

ایسے حالات میں سعودی ولی عہد نے اپنے انٹرویو میں اپنی جنگ ایران میں لڑنے کی بات کر کے ان خدشات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔اگرچہ سعودی ولی عہد نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اس جنگ کو ایران میں لے آئیں گے لیکن ایک سعودی تھنک ٹینک ‘عربین گلف سنٹر فار ایرانین سٹڈیز’ (اے جی سی آئی ایس) نے حال ہی میں چاہ بہار بندرگاہ کی توسیع کے منصوبے کے بارے میں ایک ریسرچ سٹڈی جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ منصوبہ عرب خلیجی ریاستوں کے لیے براہ راست خطرہ ہے جس سے فوری نمٹنا ضروری ہے۔اس سٹڈی کے مطابق چاہ بہار بندرگاہ بھارتی منڈی میں ایرانی تیل کی برآمدات میں اضافہ کر دے گی اور اس سے ایران کو مالی فوائد کے ساتھ ساتھ خلیج اور بحر ہند میں اپنی طاقت بڑھانے کا موقع بھی ملے گا۔اگر سعودی عرب، ایران میں کم سطح کی بلوچ شورش کی اعانت کرتا ہے تو اس سے ایران کی پیش رفت کو روکا جاسکتا ہے۔

سعودی عرب اس سلسلے میں پاکستان کو ایرانی بلوچوں کے لیے نرم رویہ اپنانے کو بھی کہہ سکتا ہے۔خلیجی خطے کی تاریخ میں عرب بلوچ اتحاد کی جڑیں کافی گہری ہیں اور یہ اتحاد فارسی غلبے کی مخالفت کرتا رہا ہے۔راجا رتنم سکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینئر فیلو جیمز ڈورسے اپنے ایک تحقیقی مضمون میں لکھتے ہیں کہ سعودی عرب کے پاس ایرانی بلوچستان میں پراکسی وار لڑنے کے لیے لوگ پہلے سے ہی موجود ہوسکتے ہیں۔سعودی عرب سے بنیاد پرستانہ فکر کے حامل مدرسوں کی مالی معاونت ہوتی ہے جنہیں شیعہ مخالف عسکریت پسند چلاتے ہیں اور بلوجستان میں دینی تعلیم کے منظرنامے میں ان کی غالب اکثریت ہے۔

ایران، امریکا، سعودی عرب اور پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ بلوچستان میں جند اللہ سمیت ایران محالف عسکریت پسندوں کی مدد کرتے ہیں۔جند اللہ کو طاقتور بلوچ قبیلے ريگی کے ایک نوجوان عبدالمالک ريگی نے قائم کیا تھا اور اسے امریکا و سعودی عرب نے تہران حکومت کو کمزور کرنے کے لئے مدد و حمایت فراہم کی تھی۔2010ء میں عبدالمالک ریگی ایران میں گرفتار ہوا اور اسے پھانسی دے دی گئی۔

جند اللہ نے 2005 ء ميں ایرانی صدر احمدی نژاد کے قافلے پہ حملہ بھی کیا تھا جو ناکام رہا۔جند اللہ نے جیش العدل جیسے گروپوں کو ساتھ ملایا ہوا ہے اور یہ ایرانی پاسداران انقلاب کے افسروں، سرحدی چیک پوسٹوں، فوجی کانوائے، شیعہ مساجد اور شیعہ زائرین کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔امریکا نے 2010ء میں جند اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا لیکن پابندی کے باوجود اس کی کارروائیاں جاری ہیں۔جیش العدل پر سعودی عرب کے اثر کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ تنظیم بلوچی یا فارسی کے بجائے عربی میں بیانات جاری کرتی ہے۔جیش العدل اور جند اللہ کے پاکستانی بلوچ سرزمین سے ایرانیوں پہ حملوں کے جواب میں ایران نے پاکستانی بلوچستان کے دیہات میں عسکریت پسندوں پر حملے کیے اور چھاپے مارے ہیں۔نسلی پراکسی جنگیں خلیجی ریاستوں اور پاکستان کو مزید غیر متوازن کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔

پاکستان میں بلوچ شورش نے چینیوں کے گوادر پورٹ کو ترقی دینے کے منصوبوں کو پیچیدہ بنادیا ہے اور پاکستان کو اس ضمن میں غیرمعمولی سیکیورٹی کا بندوبست کرنا پڑا ہے۔گہری ہوتی پراکسی جنگ بھارت کی مدد سے زیرتعمیر ایرانی بندر گاہ چاہ بہار تک پھیل سکتی ہے۔اسی طرح یہ پراکسی وار ایرانی صوبے خوزستان اور سعودی عرب کے مشرقی صوبے تک بھی جاسکتی ہے۔کنگ سعود یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر امل الھزانی نے چند برس پہلے مشہور عربی اخبار ‘الشرق الاوسط’ میں ‘الاھواز کا مظلوم عرب ضلع’ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا۔ اس مضمون میں وہ بتاتے ہیں کہ’الاھواز ایران کا ایک عرب ضلع ہے اور یہاں کے لوگ 1925ء سے جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔الاھواز ایرانی معیشت کا بنیادی ستون اور اس کی تیل کی دولت کا مرکز ہے تاہم اس علاقے میں پایا جانے والا عرب قوم پرستی کا احساس ایرانی حکام کو ہمیشہ فکرمند کیے رکھتا ہے۔

تہران میں ایرانی قیادت میں کچھ لوگ الاھواز کی عرب شناخت کو سنگین گناہ اور ہولناک خطرہ خیال کرتے ہیں‘۔سعودی عرب ایران پر الزام عائد کرتا چلا آیا ہے وہ اس کے ہاں تیل کی دولت سے مالا مال اور شیعہ اکثریتی مشرقی صوبے میں تشدد اور احتجاج کو ہوا دیتا چلا آیا ہے۔سعودی عرب کے خیال میں بحرین کی مقبول عوامی بغاوت اور بحرینی بادشاہت کے خلاف مزاحمتی تحریک کے پیچھے بھی ایران کا ہاتھ ہے۔اگر سعودی ایران تنازعات حل نہیں ہوتے اور یہ لڑائی نسلی و مذہبی پراکسیز کے ساتھ لڑی جاتی ہے تو خلیج فارس اور جنوبی ایشیا میں تشدد اور دہشت گردی کا بازار مزید گرم ہو جائے گا۔

(اس مضمون کی تیاری میں ہفنگٹن پوسٹ میں شائع شدہ جیمز ڈورسی کے مضمون، سعودی اخبار شرق الاوسط، اور فارسی و انگریزی ویب سائٹس سے مدد لی گئی)

متعلقہ مضامین

Back to top button