مقالہ جات

حضرت علی اکبر کا زندگی نامہ

حضرت علي اكبر (ع) ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کے فرزند ایک روایت کے مطابق 11 شعبان سنہ 33 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ دوسری روایت میں ان کی ولادت کی تاریخ 11 شعبان المعظم سنہ 43 بجری بتا‏ئی گئی ہے۔

والد ریحانة الرسول (ص) امام حسین بن علی بن ابیطالب بن عبدالمطلب بن ہاشم اور والدہ لیلی بنت ابی مرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی ہیں۔
بنوہاشم کے قابل احترام خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، رسول اللہ اور امیرالمؤمنین اور حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ (ص) سے نسبت رکھتے ہیں، نانا سید المرسلین، دادا امام والد امام چچا امام بھائی امام اور بھتیجا امام.
روایت ہے کہ حضرت علی اکبر(ع) ایک روز اپنے والد گرامی حضرت حسین بن علی (ع) کا پیغام پہنچانے مدینہ کے اموی گورنر کے پاس گئے۔
والی نے پوچھا: آپ کا نام کیا ہے؟
فرمایا: علی
پوچھا: آپ کے بھائی کا نام کیا ہے؟
فرمایا: علی
علی کا دشمن اور علی کے نام کا دشمن گورنر غضبناک ہوا اور کہا: علی علی علی، ما یرید ابوک آپ کے والد چاہتے کیا ہیں کہ اپنے تمام بیٹوں پر علی کا نام رکھتے ہیں؟
علی اکبر (ع) والد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ماجرا کہہ سنایا تو اباعبداللہ الحسین (ع) نے فرمایا: خدا کی قسم اگر اللہ تعالی مجھے دسیوں بیٹے بھی عطا فرمائے سب کے نام علی رکھوں گا اور اگر دسیوں بیٹیاں عطا فرمائے تو سب کے نام فاطمہ رکھوں گا۔
علی اکبر (ع) خوش چہرہ، خوبصورت، خوش زبان اور نہایت دلیر نوجوان تھے اور سیرت و خُلق اور صباحت رخسار کے لحاظ سے رسول اللہ (ص) کے شبیہ تمام قد تھے۔ شجاعت اور پہلوان افگنی میں اپنے جد امیرالمؤمنین (ع) کا آئینہ تھے اور کمالات و محاسن و محامد کا مجموعہ تھے۔
شیخ جعفر شوشتری کتاب "خطائص الحسینیہ” میں لکہتی ہین: اباعبداللہ الحسین (ع) جب علی اکبر کو لشکر اعداء کی طرف روانہ کررہے تھے تو فرمایا: « يا قوم، ہولاءِ قد برز عليہم غلام، اَشبہ الناس خَلقاً و خُلقاً و منطقاً برسول اللہ (ص)۔ میں ایسا نوجوان میدان جنگ اور موت کے منہ میں بھیج رہاہوں جو چہرے، اخلاق اور منطق اور طرز کلام کے لحاظ سے تمام لوگوں سے زیادہ تیرے رسول سے مشابہت رکھتا ہے۔
خاندان بنوہاشم کو جب رسول اللہ (ص) کی یاد ستاتے تو علی اکبر (ص) کا دیدار کیا کرتے تھے۔
ابوالفرج اصفہانی مقاتل الطالبیین میں لکھتے ہیں: علی اکبر (ع) تیسرے خلیفہ کے دور میں پیدا ہوئے ان کا یہ قول اس روایت پر مبنی ہے کہ علی اکبر (ع) کربلا میں پچیس سالہ نوجوان تھے۔ اور ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ (ع) کی عمر اٹھائیس برس تھی۔ مدینہ اور کوفہ میں اپنے والد امام حسین (ع) اور دادا امیرالمؤمنین (ع) نیز پھوپھی سیدہ زینب (ع) کی آغوش میں پروان چڑھے۔
امام حسین علیہ السلام نے قرآن و اسلامی معارف و تعلیمات سمیت اپنے فرزند کو اس روز کے علوم و فنون اور عالم اسلام کے سیاسی مسائل و معلومات کی تعلیم دی تھی اور انہیں ایک انسان کامل بنارکھا تھا یہاں تک کہ دشمنوں نے بھی ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے اور حتی اسی ابوالفرج اصفہانی نے ہی انہیں خلافت مسلمین کا سب سے زیادہ حقدار قرار دیا ہے جبکہ علی اکبر اس وقت بالکل نوجوان تھے گو کہ معاویہ نے امام علی علیہ السلام کے خلاف بغاوت کی تھی امام حسن (ع) کو شہید کردیا تھا اور امام حسین (ع) اس کو نظر ہی نہیں آرہے تھے۔
بہرصورت علی اکبر (ع) کربلا میں انقلاب عاشورا میں فعال کردار ادا کیا اور دین کے دشمنوں کے دانت کھٹے کردیئے۔
شیخ جعفر شوشتری خصائص الحسینیہ میں لکھتے ہیں: امام حسین (ع) اپنی خاندان اور انصار و اعوان کے ہمراہ کربلا کی طرف جارہے تھے تو راستے میں آپ (ع) پر نیند کی سی کیفیت طاری ہوئی اور حالت مکاشفہ حاصل ہوئی۔ جب اس کیفیت سے نکلے تو یہ آیت تلاوت فرمائی: انا للہ و انا الیہ راجعون.
علی اکبر (ع) دامن امامت میں تربیت پاچکے تھے اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ امام وقت کا کوئی کلام بے مقصد نہیں ہوتا چنانچہ انھوں نے والد بزرگوار سے دریافت کیا: اس آیت کی تلاوت کا سبب کیا تھا؟
امام (ع) نے فرمایا: اسی وقت میں دیکھا کہ یہ قافلہ آگے آگے جارہا ہے اور موت اس کے پیچھے پیچھے آرہی ہے۔ یا یہ کہ یہ قافلہ اپنی قتلگاہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔
علی اکبر (ع) نے عرض کیا: پدر جان! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟
امام (ع) نے فرمایا: اس خدا کی قسم جس کی طرف ہم سب لوٹنے والے ہیں ہم حق پر ہیں۔
علی اکبر (ع) نے کہا: پس جب ہم برحق ہیں تو ہمیں موت کی کوئی پروا نہیں ہے۔
امام اپنے فرزند دلبند کے اس رد عمل سے بہت خوش ہوئے اورفرمایا: خداوند متعال تمہیں جزائے خیر عطا فرمائے اتنی ہی بڑی جزا جو ایک بیٹا اپنے باپ سے لیتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button