مقالہ جات

حالات حاضرہ پر قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا تحریری تبصرہ

تبصرہ: علامہ راجہ ناصر عباس جعفری

اس وقت عالمی سطح پر لیبرل ازم کی حامی قوتوں اور سلفی تکفیری قوتوں کے درمیان ایک ایسااسٹریٹیجک الائنس هے جسکی اساس اور بنیاد آئیڈیالوجیکل هے .یعنی ظہور امام عصر عجل الله تعالی فرجه الشریف کا راستہ روکنا هے .چونکہ ظہور امام عج سے یہ دونوں نظام جنکی روح صیہونی هے شکست کهائیں گے اور دنیا پر نظام مهدویت حاکم بو گا .اسی لئے ظہور امام کی حامی قوتوں کو اپنے اس ظالم ،فاسد اور وحشی اور حیوانی سسٹم کے لئے خطرہ سمجھتے هیں ، اور اپنی پوری طاقت، عیاری اور مکروفرہب کے ساتھ ظہور امام کی حامی قوتوں پر حملہ آور هیں .ان حالات میں بصیرت ،کامل شعور و آگاہی کے ساتھ دشمن کی سازشوں کو پاکستان میں ناکام بنانا همارا فریضہ هے

اس وقت امریکی اسلام اور لیبرل ازم ایک هی سکے کے دو رخ هیں
لبرل ورلڈ آرڈر کو اسلام ناب سے خطرہ هے .ایسا اسلام جسکی جڑیں کربلا سے ملتی هیں ،جو ظلم ستیز بهی هے اور مظلوموں کے حقوق کا داعی بهی ،جو حیات طیبہ کی طرف دعوت دیتا هے ،جب کہ لیبرل ورلڈ آرڈر جس زندگی کی طرف دعوت دیتا هے اسے امریکن یا یورپین لائف اسٹائل کہتے هیں جس کا سمبل لاس ویگاس هے .جہاں جوا هے اور شراب ،جہاں زنا هے اور هم جنس بازی ،آج هی جرمنی کی صدر اعظم انجیلا مرکل نے روسی حکومت سے کہا هے کہ هم جنس بازوں کے حقوق کا خیال رکهے ،ایسا نظام جس کا طبیعی نتیجہ یہ هے کہ بچے حرام زادے هوں.فیملی سسٹم نہ رهے ،پاک دامن اور عفت معاشرے سے ختم هو جائے .سنا هے کہ آل سعود کا شہزادہ بهی ریاض میں بے حیائی کا بڑا مرکز بنانے جا رها هے

وہ فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے کی پوری کوشش میں ہیں ؛ایران میں قومی علاقائی مذہبی آگ لگانے کی کوشش کرینگے ؛ایران کی سرحدوں کو مصروف کرینگے ؛خاص کر افغانستان پاکستان اور آزربائجان سے
آخری زمانے کے موضوع کو زندہ رکھنا ضروری ہے اور اب علاقہ محلہ اور گھر میں دعائے ندبہ و عہد کو بلاناغہ پڑھنا تروئیج دینا واجب ہوگیا ہے

اس وقت جنگ فیزکل سے زیادہ آئیڈیالوجیکل هے .میڈیا وار هے ،لہذا همیں چابئے کہ هم اس جنگ میں اپنا حصہ ڈالیں ،لبرل ازم پر علمی تنقید اور اسی طرح اس کے معاشرے پر تخریبی اثرات کو بیان کریں .کہ ان کی آئیڈیالوجی اور کلچر نہ تو همارے مشرقی کلچر سے سازگار هے اور نہ هی هماری اسلامی آئیڈیالوجی سے

میں نے پہلے بهی لکها هے کہ ویسٹرن ایشیا میں وہ اسٹریٹیجکل شکست کها چکے هیں ،ملک تقسیم کرنے اور اپنی مرضی کے حکمران لانے کی اسٹریٹجی شکست کها چکی ،تکفیریت بهی وہاں شکست کھا چکی، اب تکفیری اور ان کے سرپرست گم سم هیں .وہ جو قدم اٹهاتے هیں ان کا سر مقاومت کی مستحکم چٹان سے ٹکراتا هے .پاکستان میں بهی تکفیریت کے بانی مایوس هیں وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے .

البتہ تکفیریت کا نیا ورژن (داعش ) پاکستان سمیت اس ریجن میں لایا جا رها هے . ان کی دهشگردی اب آئی ایس (+آئی) کے نام سے شروع هو چکی هے ،اس وقت همیں ان نئے خطرات پر توجہ رکهنا هو گی ،اپنی قوم کو متوجہ کرنا هو گا ،اور ان نئے واقعات کو فراموشی کے سپرد نہیں بونے دینا ،مثلا ایک تو اپنے شهدا کے حوالے سے هر ضلع میں اور صوبے میں پروگرام کرنا هونگے ،اسی طرح همارے خلاف اور باقی پاکستانی لوگوں کے خلاف هونے والے دهشگردی کے واقعات پر مشترکہ پروگرام کرنا هونگے تا کہ سب مظلوم ان مظالم کے خلاف اکهٹے هوں .پاراچنار میں دهشت گردی کے حالیہ واقعات کو کسی طور پر بهی خاموشی کے سپرد نہیں هونے دینا .

اصل میں پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے ایک اور مشکل دور سے گزر رها هے ،اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کا ریاستی نظام انتہائی کمزور هو چکا . متضاد فیصلے اور غلط اقدامات پاکستان کے نیشنل انٹرسٹس کو سخت نقصان پہنچا رہے هیں اور ساتھ ساتھ پاکستانی معاشرے کو بهی تقسیم در تقسیم کر رهے هیں ،ایک طرف رد الفساد کے ذریعے اور نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے دہشت گردی اور انتہاپسندی کا مقابلہ کرنا چابتے هیں اور دوسری طرف راحیل شرہف کو آل سعود کے الائینس میں بهیج کر پاکستان میں انتہا پسندوں کو مزید سپیس دیتے هیں اور انکی تقویت کرتے هیں ،ایک طرف افغانستان کے ساتھ اچھے روابط کی بات کرتے هیں اور دوسری طرف طالبان کو سپورٹ کرتے هیں جو وهاں آئے دن ناامنی ایجاد کرتے هیں اور مرکزی حکومت کو کمزور کرتے هیں ،ایک طرف چائنا کے ساتھ ملکر سی پیک کو پاکستان میں لانا چاهتے هیں اور دوسری طرف امریکی بلاک سے بهی نتهی رهنا چاهتے هیں اور امریکہ کو هر قسم کی سہولت تک فراهم کرتے هیں ،اسے کہتے هیں دو کشتیوں کے سوار؛ جنکی منزل متضاد هے اور بحر ناپیداکنار میں ہاتھ پیر ماررہا ہو۔

اس وقت رهبر انقلاب کی بابصیرت اور شجاع قیادت نے عالمی استکباری قوتوں کو هر محاذ پر اپنی superior strategies کے ذریعے شکست سے دوچار کردیا ہے ،اس وقت صبر و استقامت کی ضرورت هے دشمن کی tactics اور techniques کا مقابلہ کرنے کے لئے

وہ یہ چاهتے هیں کہ عرب اسرائیل تنازعہ؛ عرب ایران تنازعہ میں بدل جائے ،یا شیعہ سنی تنازعہ بن جائے . وہ تکفیریت کے ایک تیر سے یہی دو مقاصد حاصل کرنا چابتے هیں ،اور انکی یہ کوشش بهی ناکام هو رهی هے یہ بھی سنا ہے کہ پاکستان سے پچھلے دنوں تین چار پاکستانی سرکاری وفود نے افغانستان کا دورہ کیا اور اسی دوران افغانی صدر اشرف غنی کو پاکستان کے دورہ کی دعوت دی جو اس نے یہ کہہ کر ٹهکرا دی کہ پہلے همارے قاتل همارت حوالے کرو

سعودی شہزادے محمد بن سلمان نے یہ بھی کہا هے کہ هم جنگ کو ایران کے اندر لے جائیں گے یہ مزےدار ہذیان گوئی هے؛اسے کہتے هیں چهوٹا منہ بڑی بات جو خاندان شام ،بحرین اور شام کی دلدل میں گردن تک دهنسا هوا هے وہ ایران کے اندر جنگ لے آئے گا .شاید یہ بڑھکیں ڈونلڈ ٹرامپ کے استقبال کی وجہ سے هیں جو خود آل سعود کی طرح سراپا حماقت هے البتہ یہ بهی کہہ سکتے کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ ، نہ ان میں نہ انکے ابو ایونکا اور نہ عبری و صیہونی آقائوں میں جرآت ہے کہ ایسا کوئی خواب بھی دیکھ سکیں بلکہ خطے کی موجودہ صورتحال ان سب کیلئے ایک ڈرائونا خواب بن گیا ہے۔ اور یہ جیسے جیسے ہاتھ پیر ماررھے ہیں ویسے ویسے یہ مزید اس دلدل میں پھنستے جارہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button