مقالہ جات

بعثت سے پہلےسرزمین مکہ کی صورتحال اور عصر حاضر

خطبہ نمبر 2 میں بعثت پیمبر ص سے پہلے عرب دنیا کی مجموعی صورتحال کی طرف مولا امیرالمومنین ع نے اشارہ کیا ہے اور عرب دنیا کی سیاسی ،ثقافتی اور اجتماعی صورتحال کو بیان کیا ہے اس حصے کی اہمیت کے پیش نظر عید مبعث کی مناسبت سے قاریئن کی خدمت میں ترجمہ پیش کیا جاتاہے

حمد خدا :

احْمَدُهُ اسْتِتْماما لِنِعْمَتِهِ، وَ اسْتِسْلاما لِعِزَّتِهِ، وَ اسْتِعْصاما مِنْ مَعْصِیَتِهِ، وَ اءَسْتَعِینُهُ فاقَهً الى كِفایَتِهِ انَّهُ لا یَضِلُّ مَنْ هَداهُ. وَ لا یَئِلُ مَنْ عاداهُ وَ لا یَفْتَقِرُ مَنْ كَفاهُ، فَانَّهُ اءَرْجَحُ ما وُزِنَ وَ اءَفْضَلُ ما خُزِنَ وَ اءَشْهَدُ اءَنْ لا الهَ الا اللّهُ وَحْدَهُ لا شَرِیكَ لَهُ، شَهادَهً مُمْتَحَنا اخْلاصُها، مُعْتَقَدا مُصاصُهِّا، نَتَمَسَّكُ بِها اءَبَدا ما اءبْقانا، وَ نَدَّخِرُها لاَهاوِیلِ ما یَلْقانا فِانَّها عَزِیمَهُ الایمانِ، وَ فاتِحَهُ الاحْسانِ وَ مَرْضاهُ الرّحمنِ، وَ مَدْحَرَهُ الشِّیْطانِ

اللہ کی حمدو ثنا کرتا ہوں ، اس کی نعمتوں کی تکمیل چاہنے اس کی عزت و جلال کے آگے سر جھکانے اور اس کی معصیّت سے حفاظت حاصل کرنے کے لئے اور اس سے مدد مانگتا ہوں اس کی کفایت و دستگیری کا محتاج ہونے کی وجہ سے۔ جسے وہ ہدایت کرے وہ گمراہ نہیں ہوتا، جسے وہ دشمن رکھے۔ اسے کوئی ٹھکانہ نہیں ملتا، جس کا وہ کفیل ہو، وہ کسی کا محتاج نہیں رہتا

پیمبر کی بعثت اور خصوصیات:اور معاشرتی حالت زار:

وَ اءَشْهَدُ اءَنَّ مُحَمَّدا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ، اءَرْسَلَهُ بِالدِّینِ الْمَشْهُورِ، وَ الْعِلْمِ المَاءثُورِ وَ الْكِتابِ الْمَسْطُورِ، وَ النُّورِ السّاطِعِ، وَ الضِّیاءِ اللامِعِ، وَ الْاءَمْرِ الصّادِعِ. اِزاحَهً لِلشُّبُهاتِ، وَ احْتِجاجا بِالبَیِّناتِ، وَ تَحْذِیرا بِالْآیاتِ، وَ تَخْوِیفا بِالمُثلاتِ

اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے عبد اور رسول ہیں ۔ جنہیں شہرت یافتہ دین، منقول شدُہ نشان، لکھی ہوئی کتاب ، ضُوفشاں نور، چمکتی ہوئی روشنی اور فیصلہ کن امر کے ساتھ بھیجا تاکہ شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جائے اور دلائل (کے زور) سے حجت تمام کی جائے۔ آیتوں کے ذریعے ڈرایا جائے اور عقوبتوں سے خوف زدہ کیا جائے

انسانی معاشرے کی حالت زار :

وَ النّاسُ فِى فِتَنٍ انْجَذَمَ فِیها حَبْلُ الدّینِ وَ تَزَعْزَعَتْ سَوارِى الْیَقینِ، وَ اخْتَلَفَ النَّجْرُ وَ تَشَتَّتَ الْاءَمْرُ، وَ ضاقَ الْمَخْرَجُ وَ عَمِىَ الْمَصْدَرُ فَالْهُدى خامِلٌ، وَ الْعَمى شامِلٌ. عُصِىَ الرَّحْمنُ، وَ نُصِرَ الشَّیْطانُ، وَ خُذِلَ الْإ یمانُ، فَانْهارَتْ دَعائِمُهُ، وَ تَنَكَّرَتْ مَعالِمُهُ، وَ دَرَسَتْ سُبُلُهُ، وَ عَفَتْ شُرُكُه اءَطاعُوا الشَّیْطانَ فسَلكَُوا مَسالِكَهُ، وَوَرَدُوا مَناهِلَهُ، بِهِمْ سارَتْ اءَعْلامُهُ، وَ قامَ لِواؤُهُ فِى فِتَنٍ داسَتْهُمْ بِاءَخْفافِها، وَ وَطِئَتْهُمْ بِاءَظْلافِها وَ قامَتْ عَلى سَنابِكِها، فَهُمْ فِیها تائِهُونَ حائِرونَ جاهِلُونَ مَفْتُونُونَ

(اس وقت حالت یہ تھی کہ ) لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جہاں دین کے بندھن شکستہ، یقین کے ستون متزلزل، اصول مختلف اور حالات پراگندہ تھے۔ نکلنے کی راہیں تنگ و تاریک تھیں ۔ ہدایت گمنام اور ضلالت ہمہ گیر تھی۔ (کھلے خزانوں ) اللہ کی مخالفت ہوتی تھی اور شیطان کو مدد دی جارہی تھی ایمان بے سہارا تھا۔ چنانچہ اس کے ستون گر گئے۔ اس کے نشان تک پہچاننے میں نہ آتے تھے۔ اس کے راستے مٹ مٹا گئے، اور شاہراہیں اجڑ گئیں ، وہ شیطان کے پیچھے لگ کر اس کی راہوں پر چلنے لگے اور اسکے گھاٹ پر اتُر پڑے۔ انہیں کی وجہ سے اس کے پھریرے ہر طرف لہرانے لگے تھے۔ ایسے فتنوں میں جو انہیں اپنے سموں سے روندتے اور اپنے کھُروں سے کچلتے تھے۔ اور اپنے پنجوں کے بَل مضبوطی سے کھڑے ہوئے تھے۔ تو وہ لوگ ان میں حیران و سرگرداں ،

سرزمین مکہ زمان کے جاھلیت لوگ اور عصر حاضر میں مشابہت :

فِى خَیْرِ دارٍ وَ شَرِّ جِیرانٍ، نَوْمُهُمْ سُهُودٌ، وَ كُحْلُهُمْ دُمُوعٌ،

جاہل و فریب خوردہ تھے۔ ایک ایسے گھر میں جو خود اچھا، مگر اس کے بسنے والے بُرے تھے۔ جہاں نیند کے بجائے بیداری اور سُرمے کی جگہ آنسو تھے۔اگر حالات حاضرہ کا بخوبی جایزہ لیا جائے تو مکہ کی پاک وپاکیزہ سر زمین آج بھی زمانہ جھالیت کا منظر پیش کر رہی ہے ۔ آج آل سعود مکہ اور کعبے سے حاصل ہونے والی رائیلٹی اور سہولیات کے ذریعے دنیا بھر میں دھشت گردی میں مسروف عمل ہے ۔منا کا سانحہ ہو یا یمن وبحرین کے مظلومین پر مظالم ، شیخ نمر رح کی شھادت ہو یا سعودی میں مقیم موالیان اھل بیت ع کو بنیادی حقوق سے محروم کرنا، دنیا بھر میں داعش سمیت ، القاعدہ ، طالبان ، بوکو حرام ، سپاہ صحابہ ، جنداللہ ، کی حمایت ہو یا اسرائیل و امریکا کی غلامی خلاصہ تمام جھات سے موجودہ مکہ کے لوگوں زمانہ جاھلیت کی منظر کشی کررہے ہیں اور خیر مکان وشر جیران کا مصداق اتم ہیں۔

زمانہ جاہلیت اور زر خرید علماء:

بِاءَرْضٍ عالِمُها مُلْجَمٌ وَ جاهِلُها مُكْرَمٌ.

اس سرِ زمین پر عالم کے منہ میں لگام تھی۔ اور جاہل معزز و سرفراز تھا

زمانہ جاھلیت کی ایک اور خصوصیت جو حاضر حاضر سمیت تمام ادور میں ایک اصول کلی ہے وہ زر خیر ، شکم پرست ، بزدل اور عیاش نام نھاد علماء کو وجود، آج بھی سرزمین مکہ میں الغریفی ، اور انکے فکری فرزند قرضاوی، طاھر اشرفی ، لدھیانوی، ابوبکر بغدادی سمیت بہت سے زر خرید ملے نام نھاد دینی لبادہ اوڑھے نظر آتے ہیں جنکی زبانیں، قلم، جنکا محراب اور منبر زمانے کی ظالم حکومتیں اور انکا دیا ہوا نوالہ ہے ۔ اور انھیں کے اشارے پر انکی قلمیں اور زبانیں چلتی ہیں اور جب جھاں جیست چاھیے حکومتیں انھیں استعمال کرتی ہیں ۔
پس ایسے معاشروں میں (جاھلھا مکرم )، جاھل، نادان اور کچ فکر لوگ قابل احترام ہوتے ہیں اور انکو معاشرہ کا سب کھچہ سمجا جاتا ہے ۔

منابع:

نھج البلاغہ ترجمہ حجۃ الاسلام والمسلمین دشتی

و ترجمہ حجۃ الاسلام مفتی جعفر حسین مرحوم

 

متعلقہ مضامین

Back to top button