توہین رسالت (ص) پر مگرمچھ کے آنسو بہانے والے جسٹس شوکت کون ہیں؟؟!!
شیعیت نیوز: وزیراعظم نوازشریف کی خصوصی ہدایت پر اسے اسلام آباد میں 91 ایچ سیکٹر ایف سکس تھری میں ایک بنگلہ الاٹ ہوا۔ کچھ عرصہ وہاں رہائش پذیر رہنے کے بعد اسے یہ گھر پسند نہ آیا اور اس نے ایک مرتبہ پھر اپنے کنکشن استعمال کرتے ہوئے ایک بہت بہتر بنگلہ 1 اے سیکٹر ایف سیون تھری میں الاٹ کروا لیا۔ تاہم اس کی اس گھر سے بھی تسلی نہ ہوسکی۔
اس نے متعلقہ حکام کو خط پر خط لکھے اور بالآخر اسے ایک انتہائی شاندار گھر الاٹ ہوگیا جس کا ایڈریس 2 اے، سیکٹر ایف سیون فور تھا۔ یہ وہی گھر تھا جو کبھی مشرف دور میں اس کے خاص مشیر طارق عزیز کے زیراستعمال ہوا کرتا تھا۔
خیر، موصوف کو گھر کی لوکیشن تو پسند آگئی لیکن اس کے اندر لگی پرانی فٹنگز پسند نہ آئیں۔ اس نے اپنے پرسنل سیکرٹری کے زریعے سی ڈی اے کو خط لکھا کہ اس کے گھر کی تزئین و آرائش کروائی جائے۔ مصیبت یہ ہوئی کہ یہ بنگلہ سی ڈی اے کی بجائے پبلک ورکس اتھارٹی کے پُول میں آتا تھا اور صرف وہی محکمہ اس کی آرائش کا ذمے دار تھا۔ پہلے تو سی ڈی اے حکام نے معزرت کرلی لیکن پھر دباؤ بڑھا تو 1 کروڑ 20 لاکھ روپے کے تین ٹینڈر پاس کرکے بنگلے کو رینو ویٹ کرنے کا کام شروع ہوگیا۔
گھر کے اندر پینٹ پر پونے 4 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔
الیکٹریکل ورکس، لاٹنگ وغیرہ پر 17 لاکھ خرچ ہوئے۔
8 باتھ رومز میں نئی ٹائلز اور فٹنگز پر 9 لاکھ خرچ ہوئے۔
کچن کی فٹنگز پونے دو لاکھ میں تبدیل ہوئیں۔
گھر کی پرانی کھڑکیاں تبدیل کرکے ایلومینئم سے بنی نئے ڈیزائن کی ونڈوز پر پونے 8 لاکھ خرچ ہوا۔
مین گیٹ اور ڈرائیو وے وغیرہ پر 6 لاکھ خرچ ہوئے۔
دروازے، سٹور روم، کچن وغیرہ پر بھی لاکھوں خرچ ہوئے۔
بنگلے کی چھت پر ایک جدید ڈیزائن کا کبوتروں کا جنگلہ خصوصی طور پر بنوایا گیا۔
جاننا چاہتے ہیں یہ شخص کون تھا؟
اس کا نام ہے جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور اس نے چند دن پہلے گستاخانہ خاکوں پر روتے روتے ناموس رسالت ﷺ پر جان قربان کرنے کا عہد کیا تھا۔
مزید آگے چلیں۔
سی ڈی اے کا ڈائریکٹر منظور شاہ اس کا قریبی دوست تھا جسے اسلام آباد کے آئی 8 سکٹر میں پلاٹ الاٹ ہوا تھا لیکن اسے لوکیشن پسند نہیں تھی۔ منظور شاہ نے اپنے دوست شوکت صدیقی کی عدالت میں کیس کیا اور اس عاشق رسول ﷺ جج نے دو سطری حکم نامے میں اسلام آباد کے پرائم علاقے میں اپنے دوست کو پلاٹ الاٹ کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا۔ اس حکم نامے میں پلاٹ نمبر تک بتا دیا گیا کہ یہ والا پلاٹ دیا جائے۔ پرانا پلاٹ ڈیڑھ کروڑ کا تھا، نیا والا 5 کروڑ سے بھی زائد مالیت کا سرکار کو پڑا۔
مزید آگے چلیں۔
سی ڈی اے کا ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر شاہد سنگھا بھی جسٹس صدیقی کا ایک قریبی دوست تھا اور اس کا بیٹا ایک سرکاری پراجیکٹ پر عارضی ملازم تھا۔ اس نے بھی جسٹس صاحب کی عدالت کی زنجیر ہلائی اور یک جنبش قلم جسٹس صدیقی نے حکم جاری کردیا کہ سی ڈی اے نبیل سنگھا کو فوری طور پر 16 ویں سکیل میں نوکری دے۔
اسی طرح شاہد سنگھا کی بہو کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کے طور پر عارضی تعیناتی جسٹس صدیقی کے حکم پر دی گئی اور اسے ماہانہ 80 ہزار روپے تنخواہ دی جاتی رہی۔
یہ سب کچھ 2014، 2015 کے اس ریفرینس میں موجود ہے جو سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کیا گیا۔
آج وہ جج گستاخانہ خاکوں کے کیس کا سہارا لیتے ہوئے کہتا ہے کہ ” مجھے اپنی نوکری کی پرواہ نہیں، میں ناموس رسالت ﷺ کیلئے کچھ بھی کر جاؤں گا”
آپ خود سوچیں، بھلا ایک کیس کی سماعت کرنے سے کسی جج کی نوکری کو کیا خطرہ ہوسکتا تھا؟ اصل میں خطرہ اس ریفرینس سے تھا جو کہ اس جج کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہا تھا۔
اس پیج کے مستقل قاری جانتے ہیں کہ میں بلاوجہ کسی کی مخالفت نہیں کرتا۔ اللہ کی مہربانی سے جب بھی کسی کی حمایت یا مخالفت کی، اپنے ضمیر کی روشنی میں کی۔ جب بھی کسی کی مخالفت کی، اسے پھر کہیں پناہ نہ مل سکی۔ اب دیکھتے ہیں کہ جسٹس صدیقی کے خلاف دائر ریفرینس کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔
کوئی جتنا مرضی زور لگا لے، باباکوڈا حق بات کہنے سے نہیں رکے گا!!! بقلم خود باباکوڈا