مقالہ جات

پاناما کیس،رد الفساد،سوشل میڈیا اور مردم شماری

تحریر: سید محمد احسن

پاکستان کے سیاسی اکھاڑے میں چار اہم موضوعات حالیہ دنوں میں اہمیت کے حامل ہیں جن میں پاناما کیس، آپریشن رد الفساد، سوشل میڈیا(توہین رسالت ؐ) اور مردم شماری جسکا آغاز ۱۵مارچ سے ہونے والا ہے ، راقم کی ادنا سی رائے کے مطابق یہ چاروں موضوعات ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں ، اور بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ان چاروں میں سے کسی ایک کا بھی کوئی خاطر خواہ فیصلہ سامنے آنے والانہیں، قبل اسکے ہم نتیجہ پر بات کریں پہلے مختصراً ان چار یاروں کو تعارف قارئیں کے لئے پیش کردیتے ہیں۔

پاناما لیکس

ویکی پیڈیا کے مطابق پانامہ دستاویزات 11.5 ملین خفیہ کاغذات ہیں جسے قانونی مشاورتی کمپنی موساک فونسکا (انگریزی: Mossack Fonseca) نے بنایا تھا۔ یہ کمپنی پانامہ میں قائم ہوئی اور اس کے پوری دنیا میں 40 کے قریب دفاتر ہیں۔ یہ فرم دنیا کی چوتھی بڑی قانونی فرم ہے اور اس کی وجہ شہرت بڑی بڑی شخصیات کے اثاثے چھپانے اور ٹیکس چوری میں مدد دینا ہے۔

لہذا ان ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات جرمن اخبار سودیوچے زیتنگ نے کسی ذرائع کے ذریعہ حاصل کیے، جس نے انھیں تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم آئی سی آئی جے کے ساتھ شیئر کیا، یہ کنسورشیم76 ملکوں کے 109 میڈیا آرگنائزیشنز کے صحافیوں پر مبنی ہے۔ اس میں برطانوی اخبار گارڈیئن بھی شامل ہے اور ان دستاویزات کا تجزیہ کرنے میں ایک سال سے زیادہ لگا، بعد میں اسے منظرعام پر لایا گیا۔

یہ تاریخ کی سب سے بڑی لیکس ہیں جس کے مقابلے میں وکی لیکس بھی چھوٹے ہیں۔ پاناما لیکس میں دو لاکھ 14 ہزار افراد، کمپنیوں، ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کی تفصیلات ہیں، ان دستاویزات میں 1977 سے لے کر 2015 دسمبر تک کی معلومات موجو ہیں۔ ان دستاویزات کا بڑا حصہ ای میلز پر مشتمل ہے لیکن معاہدوں اور پاسپورٹس کی تصاویر بھی شامل ہیں۔

ان دستاویز میں پاکستان کی بھی بڑی بڑی شخصیات شامل ہیں جنکی بیرون ممالک آف شور کمپنیاں موجود ہیں، انہیں میں پاکستان کے موجود وزیر اعظم جناب نواز شریف بھی شامل ہیں۔

ان لیکس کو بنیاد بناکر پاکستان تحریک انصاف نے موجودہ مسلم لیگ کی حکومت کو ٹف ٹائم دیا ہوا ہے، عدالت میںکیس دائر ہے لیکن ابھی تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں، اس پورے کیس کی مرکزی کردار نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز ہیں۔

یہ کیس ابھی بھی عدالت میں چل رہا ہے ایک کے بعد ایک گواہ اور تاریخ پر تاریخ کی سنت پر چلتے ہوئے محسوس یہ ہورہا ہے کہ عدالت جناب نواز شریف صاحب کے پانچ سال پورے کروادے گی۔

مشاہدہ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جب اس کیس کا کوئی حتمی فیصلہ سامنے آنے کی امید ہوتی ہے تو ملک ایک نئے مسئلہ سے دوچار ہوجاتا ہے ،اور میڈیا سے لے کر تمام ریاستی مشنیر ی ،سیاسی جماعتیں اس نئے موضوع کی جانب متوجہ ہوجاتی ہیں۔

آپریشن رد الفساد

ابھی پاناما لیکس کا کیس چل ہی رہا ہے اسی دوران دہشتگردوں کے ایک نئے اتحاد جماعت الاحرار نے اچانک پاکستان پر دہشتگردانہ حملے شروع کردیئے، پہلا دھماکہ دوسرا پھر تیسرا اور لعل شہباز قلند ر کے مزار پر دھماکہ نے گذشتہ موضوع سے عوام اور دیگر اداروں کی توجہ ہٹا کر دہشتگردی کے خلاف جنگ اور فوجی عدالتوں کی جانب موڑ دی، یہ بھی اچھی بات ہے دہشتگردی سے جنگ لازمی ہے،رد الفساد آپریشن پاکستان کے مفاد میں ہے لیکن چونکہ یہ پاناما سے حساس اور اہم معاملہ ہے اسی وجہ سے گذشتہ ۲۰دونوں سے اس مسئلہ پر بحث اور آل پارٹیز کانفرنس کی جارہی ہیں، جبکہ جماعت الاحرار نامی دہشتگرد تنظیم کی جانب سے کئے گئے دعوے جوا نہوںنے ویڈیو اور پیغام میں دبنگ انداز میں کئے تھےغبارے میں ہوا کی طرح ختم ہوگئے ہیں، مودعہ یہ ہے کہ پاناما پر سے کچھ وقت کے لئے دھیان بٹ گیااور مدعی کو مزید تیاری کرنے کا موقع مل گیا۔

سوشل میڈیا

روان ہفتہ کااہم ایشو سوشل میڈیا پر توہین رسالت کا معاملہ چل رہا ہے، ابھی رد الفساد والا معاملہ کچھ حدتک پیچھے ہوگیا ہے، وزارت داخلہ کی جانب سے سوشل میڈیا کے حوالے سے بیان اور جسٹس شوکت صدیقی صاحب کے اچانک دینی جذبات ابھر جانے کے بعد جاری ہونے والے کلمات نےپاکستانی عوام کو ایک نئی بحث دیدی ہے، یقیناً ان افراد کو قانون کے دائر میں لانا انتہائی ضروری ہے تو کسی بھی مذہب اور رسالت ؐ کی توہین کررہے ہیں، لیکن اسکے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا ہی کے ذریعہ دہشتگردی کی ذمہ داری قبول کرنے والے فارم،دہشتگردوں کی حمایت کرنے والے پیجز، انکی حوصلہ افزائی کرنے والی ویب سائٹ کے خلاف بھی جسٹس شوکت صدیقی اور وزارت داخلہ کاروئی کرنے کا اعلان کریں تو انصاف ہوگا، ایسا نا ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا صارفین اسے یکطرفہ کاروائی قرار دیدرہے ہیں۔

مردم شماری

مردم شماری جسکے پہلے مرحلہ کا آغاز ۱۵مارچ سے شروع ہونے والا ہے، دنیا بھر میں مردم شماری انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے کیونکہ ملک کی آبادی کے تعین کے بعد ہی ملک کی اہم پالیسیاں، جیسے معشیت اور اداروں کی تشکیل وغیرہ کا تعین کیا جاتا ہے، لیکن موجود صورتحال کو دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومت اور چند سیاسی جماعتیں مردم شماری کے معمالے میں سنجیدہ نہیں ، اگر سنجیدہ ہیں بھی تواسےشفاف کروانے کے مو ڈ میں نہیں، کیونکہ عوام کی ذہن سازی کرنے والے ادارے میڈیا اور سوشل میڈیا کو فضول کی بحث و مباحث میں مصروف کردیا گیا ہےاور شاید ایسا ہی حکومتی اداروں کی خواہش ہے کیونکہ اگر موجود ہ مردم شماری شفاف انداز میں ہوجاتی ہے تو 100 فیصد سیاسی جماعتوں کو اسکا نقصان اُٹھانا پڑے گا ہوسکتا ہے کہ کئی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی سیٹس اور حلقہ بندیوں میں ووٹرلیسٹ میں تبدیلی واقع ہوجائے،یہی وجہ ہے مردم شماری سے پہلے پاکستانی قوم کو ذہنی طور پر اتنا تنگ کردیا ہے کہ وہ مردم شماری جو قومی مفاد کے لئے سود مند ہے اُسکو سنجیدہ نہیں لے نا ہی عوام کو اسکی اہمیت اور اس میں شرکت کے حوالے سے کوئی آگاہی ہے اور ناہی اس آگاہی کو پیدا کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے کوئی کمپین شروع کی گئی ہے، عمران خان کے خلاف کڑروں کے اشتہار تو دیے جاسکتے ہیں لیکن قومی مسئلہ پر عوامی آگاہی کے لئے ان حکمرانوں کے اکاونٹس خالی ہیں ،لہذا پاکستانی قوم اور مقتدر حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ مردم شماری کو شفاف بنانے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ پاکستان کی آبادی کا صیح تناسب سامنے آئے اور اسکے مطابق ہی پاکستانی قوم کےلئے معاشی،سیاسی، تعلیمی و دیگر پالیساں مرتب ہوسکیں ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button