لبنان

لبنان کے دفاع پر تازہ ترین حملے

شیعت نیون مانیٹرنگ ڈیسک ؛یوں تو لبنان کئی اطراف سے حملوں کی زد پر ہے، لیکن خارجی محاذ پر اس کی سلامتی و خود مختاری کو سب سے بڑا خطرہ فلسطین کی غاصب یعنی جعلی ریاست اسرائیل سے ہے، جس نے لبنان کے علاقے شبعا فارمز پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ لبنان کے سرکاری خبر رساں ادارے الوکالۃ الوطنیہ للاعلام کی سکیورٹی سے متعلق خبروں کا جائزہ لیں تو اس میں زیادہ تر دو طرح کی خبریں ملیں گی۔ ایک صہیونی دشمن افواج کی جانب سے لبنان کی سمندری، زمینی و فضائی حدود کی خلاف ورزی کے بارے میں اور دوسری لبنان میں سرگرم عمل (تکفیری) دہشت گردوں کے خلاف لبنانی سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں۔ یعنی صہیونیت اور تکفیریت لبنان پر حملہ آور ہیں۔ اتوار 5 مارچ 2017ء سے منگل 7 مارچ تک محض تین دنوں میں لبنانی افواج نے صہیونی فضائیہ کے طیاروں اور ڈرون کی جانب سے لبنانی حدود کی خلاف ورزیوں کی متعدد رپورٹس دی ہیں۔ 5 مارچ کو علماء الشعب تا رمیش صہیونی طیاروں نے لبنان کی فضائی حدود کی اور راس النقورہ کے قریب اسلحے سے لیس صہیونی فوجی کشتیوں نے لبنان کی سمندری حدود کی خلاف ورزی کی۔ 6 مارچ بروز پیر مرجعیون، زھرانی، کفر کلا گاؤں، مغربی بقاع سمیت جنوبی لبنان کی صہیونی طیاروں نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔ منگل 7 مارچ کو صہیونی ڈرون طیارے نے راس النقورہ کے قریب صہیونی اسلحہ بردار فوجی کشتی نے متعدد مرتبہ فائرنگ کی، حسبیہ میں جبل الشیخ کے سامنے مشرقی پہاڑی علاقے پر ہیوی مشین گن سے فائرنگ کے ساتھ ساتھ شبعا فارمز اور جبل الشیخ کی فضائی حدود میں بھی صہیونی طیاروں نے پروازیں کی۔ اس سے قبل بھی خلاف ورزیوں کی خبریں آئیں تھیں۔ سب سے اہم یہ کہ میس الجبل کے ایک گاؤں میں جاسوسی کے لئے صہیونی افواج نے ایک کیمرہ نصب کیا تھا، اسے ہٹاتے وقت عوام بھی دیکھ رہے تھے، تب لبنانیوں پر اسموک بم پھینکا گیا۔

ایک طرف تو لبنان کی سلامتی، آزادی و خود مختاری کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ جعلی ریاست اسرائیل کے نسل پرست فوجی جب چاہے لبنان میں دندنا سکتے ہیں۔ تو دوسری جانب تکفیری عرسال، قلمون سمیت بہت سے لبنانی علاقوں میں دہشت گردی کے ذریعے لبنان کی قومی و مذہبی وحدت و مفاہمت پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ لبنان کی فوج ان خطرات سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت سے اس لئے محروم ہے کہ امریکہ اور اس اتحادی ممالک نے ہمیشہ اس کے مقابلے میں جعلی ریاست اسرائیل کا ساتھ دیا ہے اور لبنان میں ایسے نیابتی کردار ایجاد کئے ہیں، جو صہیونی افواج سے لاحق خطرات کو خطرہ ہی نہیں سمجھتے بلکہ اسرائیلی تسلط کے خلاف مقاومت کرنے والوں کے خلاف لب کشائی کرتے ہیں اور امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی اسرائیل دوست پالیسی کے اعلانیہ حامی ہیں۔ لبنان کے دفاع پر تازہ ترین صہیونی حملوں کے خلاف ان کا ایک بھی بیان نہیں آیا ہے، بجائے اس کے کہ وہ صہیونی دشمن کا مسلح مقابلہ کرتے، انہیں یہ توفیق بھی نہ ہوئی کہ ایک اخباری بیان ہی جاری کر دیتے۔ اس کے برعکس انہوں نے اپنی توپوں کا رخ حزب اللہ کے خلاف کر رکھا ہے کہ جس نے تنہا لبنان کے وسیع جنوبی علاقے کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کروایا۔

لبنان کے صدر میشال عون نے دورہ مصر کے دوران قاہرہ میں 12 فروری 2017ء کو قاہرہ کے نیوز چینل سی بی سی کو انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں حزب اللہ کی دفاعی صلاحیت کے حق میں موقف اختیار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حزب اللہ کا اسلحہ ریاست لبنان سے تضاد نہیں رکھتا، کیونکہ اس بات کی ضمانت حاصل ہے کہ حزب اللہ کے اسلحے کا رخ لبنان کے اندر کسی کی جانب نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک لبنان پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور جب تک لبنان کی افواج اس قدر مضبوط نہیں ہو جاتیں کہ اسرائیل سے لڑ سکیں، ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ مقاومت کے اسلحے کی موجودگی اشد ضروری ہے، تاکہ اس کے توسط سے لبنان کی افواج کی استعداد مکمل ہوسکے۔ میشال عون نے کہا کہ حزب اللہ کے افراد فرزند زمین ہیں کہ انہوں نے ایسے وقت میں دفاع کیا کہ جب اسرائیل نے قبضہ کرنے اور دھمکانے کی کوشش کی۔ لبنانی صدر نے کہا کہ حزب اللہ جنوبی لبنان کے عوام کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان کی نظر میں حزب اللہ کا اسلحہ کوئی ایسا فوری نوعیت کا ایشو نہیں ہے، جس پر توجہ دی جائے کیونکہ اسرائیل نے لبنان پر قبضہ کر رکھا ہے اور لبنان کے پانی پر بھی قبضے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ (1967ء سے شبعا فارمز اور کفر شوبا پر صہیونی افواج نے قبضہ جما رکھا ہے۔)۔ انہوں نے کہا کہ لبنان کے اسٹرٹیجک دفاعی منصوبے میں اس ایشو پر بحث کی جا رہی ہے کہ اسلحہ ہو یا نہ ہو۔

شام میں حزب اللہ کی مداخلت کے بارے میں جب سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ حزب اللہ کی مداخلت اس وقت شروع ہوئی، جب لبنان کے علاقے عرسال میں (تکفیری) دہشت گرد گروہ داخل ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ قلمون کے علاقے کی دہشت گردوں سے آزادی وہ فتح تھی، جس کی وجہ سے دہشت گردی کا خطرہ ٹلا اور قلمون کی فتح کی وجہ سے دہشت گردوں کی نقل و حرکت محدود ہوگئی۔ اس سے قبل 3 فروری کو اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین فلیپو گرینڈی سے ملاقات میں انہوں نے شام کے سیاسی حل پر تاکید کی اور زور دیا کہ شام میں سیف زون بنانے کا کام عالمی طاقتیں شام کی حکومت کے ساتھ کو آرڈینیشن سے کریں، تاکہ شامی مہاجرین کی ان حفاظتی زون میں محفوظ واپسی ہوسکے۔ یاد رہے کہ میشال عون کی جماعت فری پیٹریاٹک موومنٹ اور حزب اللہ کے مابین 2006ء میں مفاہمت ہوئی تھی۔ مفاہمت کے اس معاہدے کے بعد سے دونوں جماعتوں کے مابین بہت سے مسائل پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور حزب اللہ کی حمایت کی وجہ سے ہی ماورنی مسیحی سابق فوجی جرنیل میشال عون صدر منتخب ہوسکے ہیں۔ ماضی بعید میں میشال عون شام کی حکومت کے مخالفین میں سے تھے۔

میشال عون کے ان بیانات کے بعد سعد حریری کی جماعت المستقبل سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعظم فواد سنیورا اور رکن پارلیمنٹ عمار ال حریری کی صدارت میں اجلاسوں میں حزب اللہ کے اسلحے پر تنقید کی گئی۔ المستقبل جماعت کے سیاسی اتحاد مارچ 14 گروپ کے سیکریٹریٹ کے کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر فارس سعید (Souaid) جو مارونی مسیحی ہیں، نے ٹویٹ پیغامات میں حزب اللہ پر تنقید کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی اسپیشل کوآرڈینیٹر برائے لبنان خاتون سفارتکار کاگ سنگریڈ نے ٹویٹ پیغام میں میشال عون کے موقف کے بعد یہ تاثر دینا شروع کر دیا، جیسے کہ ان کی جانب سے قرارداد 1701 کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ اس پر لبنان کی وزارت خارجہ نے خاتون سفارتکار کو طلب کرکے احتجاج کیا۔ بجائے اس کے کہ لبنان کے داخلی معاملات میں مداخلت سے باز رہا جاتا، مغربی ممالک نے لبنان سے وضاحت طلب کرلی۔ اقوام متحدہ کے ترجمان نے بھی بیان جاری کر دیا۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کاؤنسل کی قرار داد نمبر 1701 کے ذریعے اسرائیل سے جنگ بندی کروائی گئی تھی، لیکن لبنان کے دشمنوں نے اس قرارداد میں یہ بھی لکھا تھا کہ لبنان کے اندر سارے گروہوں کو غیر مسلح کیا جائے گا اور ریاست کے کنٹرول سے باہر کوئی اسلحہ نہ ہو۔ بظاہر یہ نکتہ لبنان کے حق میں دکھائی دیتا ہے، لیکن امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کا اس نکتے سے ہدف لبنان کی ریاست کی مدد کرنا نہیں تھا بلکہ صرف اور صرف اس اسلحے کے خلاف کارروائی کرنا تھا، جو جعلی ریاست اسرائیل کے قبضے کے خلاف استعمال ہوتا ہے یعنی حزب اللہ لبنان کا اسلحہ ورنہ لبنان کے اندر صرف حزب اللہ ہی مسلح نہیں ہے، بلکہ ماضی میں اسرائیل کی نیابتی جنگ لڑنے والے بہت سے گروہ اب بھی مسلح ہیں۔ ان کے اسلحے کے خلاف کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔

حزب اللہ کا اسلحہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ جنوبی لبنان جس کی حزب اللہ نمائندہ جماعت ہے، یہی جنوبی لبنان ہی سب سے زیادہ اسرائیل اور اس کے لبنانی ایجنٹوں کے حملوں کی زد پر رہا تھا۔ 8 مارچ جب میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں، سال 1985ء میں اسی دن بئرالعبد کے علاقے میں جامع مسجد امام علی رضاؑ میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد لوٹنے والے متعدد شیعہ نمازیوں کو ایک دہشت گردانہ حملے میں شہید کر دیا گیا تھا۔ اس حملے کا اصل ہدف آیت اللہ حسین فضل اللہ تھے، جو بعد میں لبنان کے مرجع بنے۔ سازش امریکہ اور سعودی عرب کی تھی۔ سعودی عرب نے فنڈنگ کی تھی۔ آیت اللہ حسین فضل اللہ لطف خدا سے اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔ حزب اللہ کا اسلحہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ماہ فروری کے آخری عشرے میں بسطرہ زرعی علاقے سے شبعا فارمز تک بلڈوزر چلا کر اسرائیلی افواج نے کنکریٹ بلاکس ہٹا دیئے اور لبنان کے آزاد شدہ علاقے میں 100 کلومیٹر اندر تک گھس آیا۔ وہاں اقوام متحدہ کی بین الاقوامی فوج UNIFIL بھی موجود تھی، لیکن وہاں بلیو لائن پر ایک فولادی گیٹ نصب کر دیا گیا۔ لبنان کے رکن پارلیمنٹ قاسم ھاشم نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اسے نیا اسرائیلی قبضہ قرار دیا۔ اس سے قبل صہیونی مظالم کے خلاف احتجاج کرنے والے لبنانیوں کو بھی تشدد کرکے صہیونی افواج نے منتشر کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین، عرب لیگ، او آئی سی سمیت کسی بھی ادارے یا حکومت نے اسرائیل کے خلاف لبنان کا ساتھ کیوں نہیں دیا۔؟

یہ محض چند تازہ واقعات ہیں اور یہ بہت ہی چھوٹی چھوٹی سی مثالیں ہیں، ورنہ درحقیقت لبنان کا مسئلہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ لبنان کے دفاع پر حملے ہو رہے ہیں اور ان حملوں کے مقابلے میں حزب اللہ اپنے طور پر بھی اور سرحدی معاملات میں فوج کے ساتھ مل کر بھی لبنان کے دفاع میں مصروف ہے۔ شام کی سرحد پر حزب اللہ کی مدد سے ہی لبنان کی فوج دہشت گردوں سے نمٹنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ حتٰی کہ داعش کے خلاف بھی سعودی عرب یا امریکہ نے لبنان کی افواج کی مدد نہیں کی ہے۔ اس کے برعکس غالباً 3 مارچ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کے مستقل رکن ممالک کے لبنان میں سفیر، جرمنی و اٹلی کے سفیر، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نمائندہ برائے لبنان، یورپی یونین کے سفیر اور عرب لیگ کے نمائندگان نے ایک خفیہ اجلاس میں لبنان کے داخلی حالات پر تبادلہ خیال کیا۔ اس خفیہ اجلاس میں بھی کسی نے لبنان پر اسرائیلی قبضے اور تازہ حملوں کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔ لبنان کے غیرتمند عوام و خواص اچھی طرح جانتے ہیں کہ لبنان کو بھی شام کی طرح ایک مسئلہ بنانے کی سازش ہو رہی ہے۔ اس ساری صورتحال کے پیش نظر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ حزب اللہ کا اسلحہ ایک بہانہ ہے، اصل ہدف لبنان کی آزادی و خود مختاری ہے۔ چونکہ اس کی جغرافیائی وحدت کا دفاع حزب اللہ کے اسلحے کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکا ہے، اس لئے بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ حزب اللہ پر تنقید پر مبنی حملہ لبنان کے دفاع پر حملہ ہے اور ملت لبنان اپنے مادر وطن پر حملہ برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button