مقالہ جات

اوریا مقبول اور انکے چاہنے والوں کے تضادات

تحریر: نادر بلوچ

تکفیریت کا آسان ترجمہ یہ ہوسکتا ہے کہ اپنی سوچ، نظریہ اور رائے کو دوسروں پر مسلط کرنا اور دوسروں کے اظہار رائے کے حق، نظریئے و سوچ کا انکار کرنا ہے۔ بعض افراد اسی سوچ کی وجہ سے اپنے دائرے سے نکل کر ایسی راہ پر چل پڑتے ہیں، جہاں سے ان کی واپسی ممکن نہیں رہتی، نتیجتاً دھونس دھمکی دینا ان کا وطیرہ بن جاتا ہے، گذشتہ سات برسوں سے مشرق وسطٰی میں ہونے والی تبدیلیوں کو قریب سے محسوس کر رہے ہیں، سوشل میڈیا پر آن لائن سپیس استعمال کرتے ہوئے اس معاملے پر اپنے اظہار کا حق استعمال بھی کیا، لیکن کچھ نام نہاد حب الوطنی کے ہیضے میں مبتلا اشخاص یہی سمجھتے ہیں کہ وہی اس ملک کے محب وطن اور وفادار ہیں، باقی 21 کروڑ عوام بلڈی اور باسٹرڈ ہیں، خود فریبی میں مبتلا ان افراد کی زبان سے انگارے اُگل رہے ہیں اور ہر وقت دوسروں کو کوستے رہتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ آپ پاکستان اور عالمی منظر نامے پر کچھ بھی نہ لکھیں، بس فقط ان کی ہی رام کہانی سنیں اور اسی پر ہی اکتفاء کریں، اگر اس کے برعکس ایک لفظ بھی لکھا تو آپ کافر ٹھہریں گے۔

چند روز قبل فیس بک پر بندہ ناچیز نے معروف کالم نگار اوریا مقبول جان کے تضاد پر چار سطری پوسٹ ڈالی تھی، لیکن فیس بک پر ایک نام نہاد پڑھے لکھے جہادی کو وہ پوسٹ بہت گراں گزری اور صاحب گالم گلوچ پر اتر آئے، بجائے اپنی غلطی تسلیم کرنے کے کہنے لگے وہ جسے غلط سمجھتے ہیں، ان کو گالیاں دینا اپنا وراثتی اور شرعی حق سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ان کی نگاہ میں اوریا مقبول کے تضاد پر بات کرنا توہین مذہب ٹھہرا اور ترک صدر کے یوٹرن پر لکھنا اتحاد امت کیخلاف ایک گھناونی سازش قرار پایا۔ جی ہاں! یہ وہی اردگان تھا، جس نے اپنے ملک کو دنیا بھر سے آنے والے دہشتگردوں کیلئے جائے امان قرار دیا، اردگان نے دہشتگردوں کو اپنے ملک میں ٹریننگ دی، امکانات فراہم کئے اور اسلحہ سے لیس کرکے بشار الاسد دشمنی میں ہر حد پار کی۔ ترک صدر نے صرف شام ہی میں مداخلت نہیں کی بلکہ عراق میں تو فوجیں تک اتار دیں اور وہاں داعش جیسے گروہوں کو مضبوط کیا، یہی وجہ بنی کہ اردگان کے بیٹے کے عراق کے کئی زیرقبضہ علاقوں سے تیل کی سمگلنگ کے قصے زبان زد عام ہوئے۔

کئی تجزیہ نگاروں نے 2011ء میں ہی ترکی کے شام کے معاملے پر اقدام کو ضیاءالحق کے اقدام سے تعبیر کیا تھا اور کہا تھا کہ ترکی پاکستان کی روش پر چل پڑا ہے۔ 80ء کی دہائی میں فوجی صدر ضیاء الحق نے امریکہ اور عرب ممالک کے ساتھ ملکر دنیا بھر سے جہادی جمع کئے اور پاکستان کو تختہ مشق بنایا۔ قبائلی علاقوں میں طالبان کو ٹریننگ دی گئی، ملک بھر میں تکفیری مدارس قائم کئے گئے اور روس کیخلاف پاکستان امریکی اتحادی بن کر سامنے آیا۔ نتیجہ میں آج پاکستان کو 80 ہزار شہریوں کی قربانی دینا پڑی۔ اس کے علاوہ 100 ارب ڈالر کا نقصان الگ سے ہوا۔ منشیات اور کلاشنکوف کلچر عام ہوا، کئی نسلیں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھیں، مساجد، امام بارگاہیں، بازار اور حتیٰ عسکری انسٹالیشنز تک محفوظ نہ رہیں۔ نتیجتاً اب پاکستان اپنی پالیسی سے بڑا یوٹرن لے چکا ہے۔ پاکستان اب کبھی بھی یہ نہیں کہتا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو بلکہ یہ کہتا ہے کہ افغان قیادت کی نگرانی اور اعتماد میں افغان مسئلے کا حل سوچا جائے۔ پاکستان کا موجودہ موقف ہے کہ افغان دستور کے مطابق جو بھی حکومت افغان قیادت اور عوام کی مرضی سے سامنے آئے، اسے قبول کریں گے۔ ورنہ یہی ہمارے میاں نواز شریف صاحب تھے، یہاں تک کہہ گئے تھے کہ ہم پاکستان میں بھی طالبان کا نظام قائم کریں گے۔ یعنی میاں صاحب ملاں عمر کی طرح امیرالمومنین بننے کے خواہشمند تھے۔ چھوٹے میاں شہباز شریف تو طالبان کو یہاں تک کہہ گئے تھے کہ آپ کی اور ہماری سوچ یکساں ہے، اس لئے پنجاب کو نشانہ نہ بنائیں۔

ٹھیک پاکستان والا تجربہ ترک قیادت نے دہرایا، آج ترکی نے بھی اپنی سابق پالیسی سے ایک بڑا یوٹرن لے لیا ہے۔ جی ہاں یہ وہی ترکی ہے جس نے کہا تھا کہ ہر قیمت پر بشار الاسد کو جانا ہوگا، بشار کا جانا ٹھہر چکا ہے، وہی ترکی جس نے روس کا فوجی طیارہ تک مار گرایا، امریکی سینیٹر جان مکین استنبول میں داعش کے سرکردہ دہشتگردوں کیساتھ بیٹھ کر میٹنگز تک کرتا رہا، وہی ترکی جس نے شام کے اندر کئی فضائی کارروائیاں کیں اور یہاں تک دھمکیاں دیں کہ اس کی فوج زمینی کارروائی بھی کرسکتی ہے۔ روس کو دشمن سمجھنے والا ترکی آج اسی صدر پیوٹن سے غیر مشروط طور پر معافی مانگ چکا ہے، شام کے معاملے پر اپنی پالیسی سے 180 درجے کا یوٹرن لے چکا ہے، اسی اردگان کو ناپسندہ ترین بشار الاسد قبول کرنا پڑا ہے، اب وہی ترکی امریکی و سعودی بلاک سے نکل روس اور ایران کے بلاک کا حصہ بن گیا ہے۔ اب وہ اپنی پرانی غلطیاں دہرانے اور شام میں داعش کو سپورٹ کرنے کے بجائے اس کے خلاف روس کے ساتھ مشترکہ فضائی کارروائیاں کر رہا ہے۔ ترکی کو اندازہ ہوگیا ہے کہ اسے امریکہ اور اس کے حواریوں نے استعمال کیا اور ساتھ میں فوجی بغاوت کو سپورٹ کرکے تختہ الٹنے کی بھی کوشش کی۔ اب ترکی ریجنل بلاک کیساتھ کھڑا ہوگیا ہے۔

ہاں تو بات اوریا مقبول جان پر ہو رہی تھی، اب اوریا جان کے تمام تضادات طشت از بام ہوگئے ہیں، یہی اوریا صاحب تھے جو اردوگان کی بشار ہٹانے کی پالیسی کے سب سے بڑے حامی تھے، یہی ارویا صاحب تھے، جنہوں نے روسی جہاز گرانے کو سب سے بڑی فتح قرار دیا تھا اور روس کو استعمار کا نام دیا تھا، اب اسی کا من پسند صدر اسی استعمار کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ وہی ترکی اب بشار کی اجازت سے روس کے ساتھ ملکر شام میں داعش کے ٹھکانے پر فضائی کارروائیاں کر رہا ہے۔ وہی اردگان جس نے عراقی صدر کو زبان سنبھال کر اور اپنی اوقات میں رہ کر بات کرنے کی دھمکی دی تھی، اب اپنی غلطیوں پر پشمان دکھائی دیتا ہے، اس کا اپنا دارالحکومت دھماکوں سے گونج رہا ہے، اب داعش اور دیگر ناراض گروہ اس کے اپنے ہی ملک میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اب ترکی میں نہ سینما گھر محفوظ ہیں اورنہ ہی نائٹ کلبز محفوظ ہیں۔ یہ باتیں جب ہم دو ہزار گیارہ میں سمجھا رہے تھے تو نہ خلیفہ اردگان کو سمجھ آ رہی تھیں، نہ ہی ان کی مہر و محبت میں گرفتار اوریا مقبول جان کو یہ باتیں سمجھ آ رہی تھیں۔ عجب تضاد تو یہ بھی ہے کہ اوریا صاحب حلب پر تو خون کے آنسو بہا رہے تھے، لیکن پاراچنار دھماکے کی مذمت تک نہیں کی۔ حلب واقعہ پر اوریا مقبول جان کا آفیشل پیج مسلسل فرقہ وارانہ پوسٹیں کر رہا تھا، لیکن پاراچنار ایشو پر ایک پوسٹ تک نہ کی۔

عجب تضاد تو یہ ہے کہ کل تک داعش کے حق میں کالم لکھنے والے اوریا نے یہاں تک الزام عائد کر دیا کہ داعش کو وجود بخشنے میں ایران کا کردار ہے۔ ارے تو ماضی میں آپ ابوبکر البغدادی کے حق میں کیوں لکھتے رہے۔ ترکی اور دیگر عرب ملکوں کی فاش غلطیوں کی وجہ سے لاکھوں انسان شام میں قتل ہوئے اور اس سے کہیں بڑھ کر مہاجرین بنے، جو اس وقت مغربی ممالک میں دھکے کھا رہے ہیں۔ ہم کبھی نہیں کہتے کہ بشار الاسد مسیحا ہے، لیکن ایک منتخب صدر کو آپ طاقت کے بل بوتے پر کیسے ہٹا سکتے ہیں۔؟ بشار تو پھر بھی الیکشن کرا کر منتخب ہو جاتا ہے، لیکن عرب ممالک میں قائم بادشاہتیں تو کسی انتخابی سسٹم سے منتخب ہی نہیں ہوئیں۔ ان کے بارے میں کبھی کالم لکھنے کی زحمت کیوں نہ کی، ان کے سسٹم پر بات کیوں نہ کی۔ بحرین اور یمن پر ہونے والے مظالم پر کیوں خاموش ہیں۔ یہ کیسا تضاد ہے کہ شام میں تو مظالم نظر آ رہے ہیں، لیکن یمن اور بحرین کے حالات پر آپ مسلسل چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ افسوس کہ فرقوں کی بالاستی قائم کرنے کی دھن نے امت مسلمہ کو آج اس نہج پر پہنچا دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button