مقالہ جات

ترکی میں روسی سفیر کا قتل اورچند معروضات

اولاً۔دو باتیں کرلیتے ہیں پھراصل موضوع پرمعروضات عرض کرتا ہوں۔پہلی بات یہ ہے کہ تکفیری ذہنیت کےحامل ہمارے ایک ’’دانشور اوریاجان مقبول نےسوشل میڈیا پرپوسٹ لگائی جس میں روسی سفیر کےقاتل کی لاش پڑی ہے۔عالی جناب نےلکھا ہے ’’روسی سفیر کوقتل کرنے والے شہید نوجوان کی نعش‘‘۔ مہمان کُشی کوشاندار تاویل وہی لوگ پیش کرسکتے ہیں جوقرآنی آیات اوراحادیث نبویؐ کی من پسند تشریحات کےذریعے بچی کھچی مسلم امہ میں تعصبات کی آگ بھڑکائے ہوئے ہیں۔ عجیب بات یہ ہےکہ ان سے ’’غبی دانشوروں‘‘ کے ہذیان کاصاحبانِ علم نوٹس بھی نہیں لیتے اوریہ شہادت کی ریوڑیاں بانٹے پھرتے ہیں۔
دوئم ۔کہ اگر روسی سفیرکاقتل عام شام یاحلب کا بدلہ تھا تو کیا وجہ ہےکہ کسی غیرت مند ترک مسلمان نے 3 لاکھ فلسطینی مسلمانوں کےقاتلِ اعظم اسرائیل کےترکی میں سفیر کےچہرے پر تو کبھی لال پیلا نیلا رنگ تک پھینک کررد عمل کااظہار نہیں کیا۔ شرف انسان کےاصولوں کےمطابق مہمان کی توہین وتکفیر اورقتل جرم ہے۔سودونوں طرح کےرویوں کی تائید نہیں کی جاسکتی۔ہمارے سماج کےاہل علم اورعامۃ الناس پراثر انداز ہونے والے صاحبان کلام کواب چُپ کاروزہ توڑنا ہوگا۔مسلمانوں کی نئی نسل کوگمراہ کرنےوالوں کوکب یہ بات سمجھ میں آئےگی کہ جنوبی ایشیاء میں (افغانستان اورپاکستان میںخصوصاً) جوالقاعدہ دہشت گردی کی علامت اورانسانیت کی نمبروَن دشمن تھی(ہے بھی) وہی القاعدہ’لیبیا،عراق اورشام میں امریکی سامراج اوراس کےاتحادیوں کے پٹھو کردار اداکررہی ہے۔
ہمارے ملک کےنابالغ اورشتر بےمہار الیکٹرانک میڈیا کاحال یہ ہےکہ چند چینلوں نےبنا آواز کےایک ویڈیو نشر کی اورکہا کہ بشارالاسد کےحامی حلب سےانخلاء کےمعاہدے کےتحت رخصت ہونےوالوں کےلیےفراہم کردہ ٹرانسپورٹ کوآگ لگا رہےہیں۔سوشل میڈیا کی مختلف سائٹ پر یہ ویڈیو بمعہ آواز موجود ہےدیکھ لیجئے۔صاف دکھائی دےرہا ہےکہ جہاد اسلامی شام کا ایک گروپ جوحلب سےانخلاء کےمعاہدے کامخالف ہے اس کےجنگجو ان بسوں کوآگ لگاتے وقت بشار رحیم کےخلاف نعرے لگارہےہیں۔
مکرر عرض کروں گا کہ خدا کےلیے اپنے اپنے مسلک کےبالا خانوں میں بیٹھ کر فرقہ پرستی کی دھمال سےمحصور ہونے کی بجائے اس تلخ حقیقت کومدنظر رکھیے کہ ایک سازش کےتحت مسلم ممالک میں انتہا پسندی اوردہشت گردی کوفروغ دیا گیا۔ اسلام اورانسانیت سےمتصادم دونوں برائیوں کےسوتے بہرطورافغانستان میں لڑی گئی امریکہ سوویت جنگ سےپھوٹے۔یہ وہی جنگ ہےجس میں ساراعالم اسلام نعرۂ تکبیر لگاتے ہوئے لادین سوویت یونین کےخلاف امریکی اہل کتاب کےسپاہیوں کاکردار ادا کرنے کےلیے جوق درجوق کودپڑا تھا۔ امریکی استعمار کےمفادات کےتحفظ کی اس جنگ کانتیجہ کیا نکلا؟
مسلم دنیا میں تعصّبات کی آگ بھڑک اٹھی۔افسوس کہ عربوں نےپاکستان اورافغانستان کےحالات سےسبق سیکھنے کی بجائے نت نئے تجربات پرکمرباندھ رکھی ہے اورخمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ان کالموں میں تواتر کےساتھ عرض کرتاآرہا ہوں کہ ممالک کی پالیسیاں ملکی مفادات پرہوتی ہیں مذہب ومسلک کی بنیادپرنہیں۔ مذہب اگر سیاسی مفادات کےاشتراک کی بنیاد ہوتو پھر عیسائی امریکہ اورعیسائی روس ایک پیج پرہوں۔عجیب بات ہے ہمارے سعودی دوست شام سےبشارالاسد کےاقتدار کاخاتمہ چاہتے ہیں کیونکہ وہ سخت گیرآمر ہےمگر بحرین میں عوام دشمن پالیسیوں پرعمل کرنےوالی بادشاہت کےتحفظ کےلیے وہ بکتر بند فوجی دستے عوام کوکچلنے کےلیے بھیج دیتے ہیں۔یہاں لائی لگ قسم کےپاکستانی مسلمان زمینی حقائق آبادیوں کےتناسب ممالک کےمفادات بارے جزوی معلومات نہ رکھنے کےباوجود فرقہ پرستی کاڈھول بجاتے پھررہے ہیں۔
حلب میںجب عورتوں کےسرقلم کیے جارہےتھے توکیا اس سےاسلام زندہ ہورہا تھا۔شام میں جب یزیدی قبیلے(یہ عیسائیوں کا ایک بڑا طبقہ ہے) کی عورتوں کوداعش کےجنگجو منڈیاں لگا کرفروخت کررہےتھے تو یہ قرآن عظیم الشان کی کس آیت کےحکم پرعمل ہورہا تھا۔ معصوم شہریوں کوپنجروں میں بند کرکے جلانا یاپانی میں ڈبو کرہلاک کرنا شریعت اسلامی کی کس شق کےمطابق درست تھا؟
باردیگر ذہن نشین کرلیجئے کہ سقوطِ حلب نہیں ہوا۔شام کی حکومت نےغیرملکی جنگجوؤں سےاپنے شہر کاقبضہ چھڑایاہے۔ النصرہ،جہاداسلامی اورداعش والے جب قدیم تاریخی اہمیت کےحامل شہر پرقابض ہوئے تھے تو یہ بلند وبالا اورپُررونق عمارتوں کاشہرتھا۔ زندگی جھومتی تھی قہوہ خانے، ریستوران،کلب آباد تھے۔دانش کدوں میں فیض علم جاری وساری تھا۔پچھلے پانچ سال کےدوران دانش کدے(تعلیمی ادارے) مکمل طورپر بندرہے۔قہوے خانے،ریستوران اورکلب اُجڑگئے۔بھراپڑا شہر پانچ برسوں میں شمشان گھاٹ بن کررہ گیا۔دل پرہاتھ رکھ کہئے نقصان کس کا ہوا؟ سادہ ساجواب ہے شام کےعوام کا۔ جنگجو تواب معاہد انخلاء کےذریعے پتلی گلی سے نکل کرکہیں نیامیدان جنگ سجالیں گےمگر حلب کی تعمیر نو کےلیے اڑھائی ارب ڈالردرکار ہیں۔ بھنور میں پھنسی شامی معیشت اڑھائی ارب ڈالر کابوجھ اٹھاپائےگی؟ اس سوال سےآنکھیں چرانے کےبجائے ہمت کےساتھ سچ کاسامنا کیجئے۔شام ہوکہ عراق،پڑوس کےسارے ممالک نےبالادستی کی سیاست کی لنکاڈھائی۔کسی ایک فریق کوالزام دینے سےقبل آگ لگانے میں پہل کرنےوالوں کی گرفت کیجئے۔ اسلام کی تعلیمات قلب حضرت محمدؐ پراترتے قرآن عظیم الشان سےعبارت ہوں گی۔قرآن ساکت وجامد نہیں۔
قرآن کی تعلیمات تک پہنچنے کےلیے لاریب رہنمائی کی ضرورت ہے مگر رہنمائی علمی انداز میں ہوتو زیادہ بہتر ہے۔ تعصّبات،دوسرے کی ضد اورہٹ دھرمی کےنتائج سےمسلمانوں کی چودہ سوسالہ تاریخ بھری پڑی ہے۔وقت مٹھی سےریت کی طرح پھسل رہا ہے۔مسلم معاشروں کےوہ صاحبانِ دانش جوتعصبات کےزہر سے محفوظ ہیں آگے بڑھیں انسان سازی کےآفاقی نظریے کی ترویج کریں۔ لوگوں کومیثاق مدینہ اورحجۃ الوداع کےخطبہ سےآگاہ کریں۔ ہمیں یہ یادرکھنا ہوگا کہ قرآن نےصاف انداز میں کہہ دیا’’جن مظلوموں کابدلہ لینے والاکوئی نہ ہو اللہ اس مظلوم کادستگیر بن کربدلہ لیتا ہے‘‘۔ حساب کے دن پریقین کےدعوے اوراعلانات کافی نہیں۔ بہت ضروری ہےکہ اپنا انفرادی واجتماعی محاسبہ خودہی کرلیا جائے۔
سوموار کوترکی کےشہر انقرہ میں ایک تصویری نمائش سےمہمان خصوصی کےطورپرخطاب کرنےوالے ترکی میں روس کےسفیر اندرے کارلوف کوترک پولیس کےسادہ لباس میںملبوس اہلکار نےآٹھ گولیاں مارکر ہلاک کردیا۔بعدازاں قاتل خود بھی پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سےہلاک ہوگیا۔یہ سانحہ ترکی میں روس،ایران،شام اورترکی کےوزرائے خارجہ کےاجلاس سے 24 گھنٹے قبل رونما ہوا۔ بدقسمتی سےقیاس کےگھوڑے دوڑاتے ہمہ قسم کےجنونیوں نےسوچے سمجھے بنا بہت دھول اڑادی۔ترک حکومت قاتل کاتعلق ’’نیٹوف‘‘نامی دہشت گرد تنظیم سےجوڑرہی ہے۔
ہمارے یہاں کچھ بودے اوربوزنے قاتل کومجاہدالاسلام کےطورپر پیش کررہے ہیں۔ وہ بتلائیں تو خلفائے راشدین رضوان اللہ اجمعین میں سےکس کےدور میں غیر ملکی سفیر کوقتل کیا گیا؟قاتل اہلکار ر وسی سفیر کےحفاظتی دستے میں شامل نہیں تھا پھر کس کےتعاون سےسٹیج تک پہنچا اس بارےابھی تحقیقات ہونا ہیں۔ اردگان رجیم کےکچھ ترک وغیرترک حامی اس واقعہ کوصوفی استاد فتح اللہ گولن کی تحریک سےجوڑنے کی واہی تباہی میں جُتے ہوئے ہیں۔کاش انہیں معلوم ہوتاکہ استاد فتح اللہ گولن کی تحریک خدمت فقط علمی وسماجی خدمت کرتی ہے۔ روسی سفیر کےسفاکانہ قتل کےپیچھے دومحرکات ہوسکتےہیں ایک وہی جس کااعلان خود قاتل نےکیا۔اس کامطلب ہوا کہ شام میں برسرپیکار جنگجوؤں کےترک حامی اورثانیاً وہ قوتیں جونہیں چاہتیں کہ شام کےمسئلہ پرچارملکی وزرائے خارجہ کانفرس نتیجہ خیز ثابت ہو۔ترک حکومت کواس مرحلہ پرشانت انداز میں شفاف تحقیقات کےذریعے سازش کوبےنقاب کرنا ہوگا۔
یہ بھی حقیقت ہےکہ ترکی نےجس طرح جنگجوؤں کی پرورش کی اس کےاثرات ترک معاشرے میں بہت گہرے ہیں۔ خدانہ کرےکہ ترک عوام کواپنے حکمرانوں کی پالیسیوں کاخمیازہ ہم پاکستانیوں کی طرح بھگتنا پڑے۔ اللہ نہ کرے کہ ترکی اکیسویں صدی کاافغانستان یابیسویں صدی کی افغان پالیسی کی سزا کاٹتا پاکستان بنے مگر اس کےلیے ضروری ہےکہ قانون اورانصاف کےتقاضے پورے کیے جائیں اورروسی سفیر کےقتل کےسانحہ کی آر میں سیاسی مخالفین کی درگت نہ بنائی جائے۔
حیدر جاوید سید

متعلقہ مضامین

Back to top button