مقالہ جات

کیوں وہابی پیغمبر اکرم( ص) کی زیارت کے سفر کو حرام مانتے ہیں ؟

وہابی کہتے ہیں : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا حق ان لوگوں کا ہے جو مدینے کے رہنے والے ہیں ،لیکن اگر کوئی شخص پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے ارادے سے سفر کرے تو یہ سفر حرام ہے ۔

شیعہ مرجع تقلیداور حوزہ علمیہ قم کے جلیل القدر استاد حضرت آیت اللہ شیخ جعفر سبحانی نے اپنے درس کے دوران ابن تیمیہ کے روضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے سفر کو حرام قرار دینے کے جواب میں فرمایا:

تمام اسلامی فرقے روضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کو مستحب مانتے ہیں اور طبیعی بات ہے کہ جو چیز مستحب ہے اس کا مقدمہ بھی سفر کی مانند مستحب ہے یا کم سے کم حرام نہیں ہے ۔ کتاب "الفقہ علی المذاہب الاربعہ” میں جو عبد الرحمن الجزیری کی تالیف ہے لکھا ہے : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت سب سے افضل مستحبات میں سے ہے یہاں تک کہ سعودیہ کے سابق مفتی ابن باز کے قول کے مطابق کہ جو ایک جریدے میں آیا ہے قبر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت مستحب ہے ۔

اس بنا پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی زیارت کے مستحب ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے بحث رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی زیارت کے سفر کے بارے میں ہے کہ وہابی جس کو حرام مانتے ہیں ، جب کہ خانہء خدا کے تمام زائرین اگر پہلے سے مدینے نہ گئے ہوں تو وہ اصرار کرتے ہیں کہ مدینہ جائیں اور اس عالم بشریت کے نجات دہندہ کی قبر کی زیارت کریں اور آنحضرت کی قبر مبارک کے پاس مناجات اور دعا کریں اور خدا سے اپنی حاجتیں طلب کریں ۔

ابو الحسن ماوردی (م۴۵۰) کتاب ” الاحکام السلطانیہ ” میں لکھتا ہے : قافلوں اور کاروانوں کے رہنما مکہ کی زیارت کے بعد ایسا راستہ اختیار کریں کہ جس میں وہ قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو سکیں ، اور اگر مدینہ ان کے راستے میں نہ بھی ہو تب بھی وہ راستہ اختیار کریں کہ جس میں مدینہ آئے تا کہ خانہء خدا کا زائر کعبے اور قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کی زیارت کر سکے ۔

مولف "شفاء الشفا ء” نے ابو عبد اللہ حلیمی جرجانی شافعی (م۴۰۳)سے یوں نقل کیا ہے : ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم اور تکریم کریں ، چونکہ خدا کا حکم ہے کہ ہم حضرت کی تکریم اور مدد کریں ، جیسا کہ ارشاد ہو رہا ہے:” فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ” (۲) اور حضرت کی وفات کے بعد یہ تعظیم حضرت کی قبر کی زیارت کی صورت میں ہو سکتی ہے ۔ حتی اس سے بھی بڑھ کر چالیس سنی علماء نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: «مَنْ حَجَّ وَ لَمْ يَزُرْنِي فَقَدْ جَفَانِي» جو شخص فریضہء حج بجا لائے اور میری زیارت نہ کرے اس نے مجھ پر جفا کی ہے (۲)

اس بنا پر قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے روکنا سبب بنتا ہے کہ قلوب ، افکار اور عقاید کو بھلا دے ، کیا یہ بات درست ہے ؟

یہاں ہم یاد دلا دیں کہ وہابی کہتے ہیں : پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ان لوگوں کے لیے ہے کہ جو مدینے میں رہتے ہیں لیکن اگر کوئی قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی غرض سے سفر کرے تو ایسا سفر حرام ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مستحب امر کا مقدمہ حرام ہو ، اس کے علاوہ صحابہ اور ان لوگوں کی سیرت جو آُ پ کی نظر میں بہترین صدیوں میں زندگی بسر کرتے تھے یہ تھی کہ وہ سبھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے لیے سفر کرتے تھے ۔

وہابی کہتے ہیں : کہ ان کا سفر پیغمبر کی مسجد کی زیارت کے لئے ہوتا تھا کہ وہاں نماز پڑھیں چونکہ اس مسجد میں نماز کا ثواب بہت زیادہ ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نماز کی بہت بڑی فضیلت ہے ، لیکن بحث اس کے علاوہ ہے کہ اگر مصر ، مراکش ، الجزائر یا عراق کے مسلمانوں کا سفر مسجد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ثواب پانے کے لیے ہے تو کیوں وہ مسجد الاقصی کا سفر نہیں کرتے کہ جس کا ثواب مسجد النبی کے برابر ہے ۔ لیکن ہم ان سب چیزوں کو چھوڑتے ہیں ۔

اب یہ دیکھتے ہیں کہ ان سلف صالح کی سیرت کہ جو وہابیوں کی نظر میں اسوہ اور نمونہ تھے کیا تھی ؟

رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے لیے تین مشہور افراد کی سیرت ،

ہم یہاں پر تین شخصیتوں کا کہ جو محل احترام ہیں ذکر کرتے ہیں کہ جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے لیے جایا کرتے تھے ، یا افراد کو سفر کے لیے تشویق کرتے تھے یا اجیر کیا کرتے تھے :

۱ ۔ بلال ،رسول خدا کے موذن ، ۲ ۔ عمر ابن عبد العزیز ، ۳ ۔ عمر ابن خطاب ،

پہلی شخصیت رسول خدا کے صحابی ،بلال ہیں کہ جنہوں نے بعض سیاسی مسائل کی بنا پر مدینے کو ترک کر دیا تھا اور یہ سوچا تھا کہ اگر وہ سرحد کی حفاظت کی ذمہ داری لے لیں تو اس کو جو کرنے کو کہا جا رہا ہے اس سے بہتر ہے ۔

اس سے یہ کہتے تھے کہ رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اذان کہے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ سر حد کی حفاظت قبول کر لی ۔ قرآن مجید سرحدوں کی حفاظت کے بارے میں فرماتا ہے : «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَ صَابِرُوا وَ رَابِطُوا وَ اتَّقُوا اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ». (۳)

اے ایمان والو مشکلات اور خواہشات کے مقابلے میں صبر سے کام لواور دشمنوں کے مقابلے میں بھی پایداری دکھاو اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کرو اور خدا سے ڈرو تا کہ فلاح پا جاو !

انہوں نے شام کی سر حد کا انتخاب کیا اور اسلام اور عیسائیت کے ایک سرحدی علاقے میں اقامت پذیر ہو گئے ۔ ایک رات انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم خواب میں دیکھا کہ حضرت نے ان سے فرمایا : بلال ! تم نے ہم سے رشتہ توڑ لیا ہے ۔ وہ خواب سے بیدار ہوئے اور رونا شروع کیا اور اپنے خواب کی یہ تعبیر کی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکوہ اس لیے ہے کہ وہ اب تک آنحضرت کی قبر مبارک کی زیارت کے لیے نہیں گئے ہیں ۔ لہذا انہوں نے سفر کی تیاری کی اور مدینے کی طرف روانہ ہو گئے ، وہ رات کے وقت مدینے میں داخل ہوئے اور سیدھے مسجد رسول خدا میں چلے گئے ۔ اچانک اس نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں یادگاروں اور جوانان جنت کے سرداروں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو دیکھا ، جیسے ہی ان کی نگاہ اپنے نانا کے موذن پر پڑی بے اختیا ر گریہ کرنے لگے ، بلال بھی رونے لگے ۔ ان دونوں نے بلال سے کہا کہ صبح کی اذان کے وقت وہ مسجد کی چھت پر جائیں اور اذان کہیں ۔ اگر چہ بلال نے یہ طے کر رکھا تھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد کسی کے لیے بھی اذان نہیں کہیں گے ، لیکن فرزندان رسول خدا کے کہنے پر وہ اس کے لیے تیار ہو گئے ۔ ، جب اس کی اذان کی آواز کانوں میں پڑی تو مدینے کے تمام رہنے والوں پر ایک لرزہ سا طاری ہو گیا اور تمام لوگ اپنے گھروں سے نکل کر مسجد میں آئے تا کہ بلال کا دیدار کر سکیں (۴)

اس بنا پر بلال ایک شخصیت ہے کہ جس نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی زیارت کے لیے سفر کیا تھا ۔

دوسری شخصیت عمر ابن عبد العزیز کی ہے وہ لوگوں کو اجیر بناتا تھا کہ اس کی طرف سے مدینے جائیں اورآنحضرت کی قبر کی زیارت کریں اور اس نے یہ کام کئی بار کیا (۵)

تیسری شخصیت عمر ابن خطاب کی ہے ، صاحب کتاب ، فتوح الشام لکھتا ہے :مسجد اقصی کی فتح کے بعد کہ جہاں عمر ابن خطاب موجود تھے مدینے کی طرف واپسی کے موقعے پر اس نے کعب الاحبار سے کہا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی زیارت کے لیے اس کے ساتھ آئے ۔ (۶)

ان دلایل کے پیش نظر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ؛ «مَنْ حَجَّ وَ لَمْ يَزُرْنِي فَقَدْ جَفَانِي» سے لے کر چودہ صدیوں میں مسلمانوں کی سیرت تک اور سلف صالح کی سیرت سے روشن ہو جاتا ہے کہ قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے لیے سفر سلف صالح کے نزدیک ایک مسلم امر تھا ۔

حدیث ؛ لاتشد الرحال کی تشریح ،

اگر قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت مستحب ہو جیسا کہ تمام فقہائے اسلام حتی ابن تیمیہ کے نزدیک بھی مستحب ہے تو اس کا مقدمہ کہ جو اس دیار کا سفر ہے کہ جہاں حضرت کے جسد مطہر کو سپرد خاک کیا گیا ہے وہ بھی یا تو مستحب ہونا چاہیے یا کم سے کم حرام نہیں ہونا چاہیے ۔

لیکن ابن تیمیہ نے آنحضرت کی زیارت کے لیے سفر کو حرام جانا ہے اور اس کا مدرک وہ حدیث ہے کہ جس کو مسلم نے اپنی صحیح میں تین طریقے سے نقل کیا ہے ، کہ جن میں اہم ترین صورت کہ جو اس کی دستاویز بن سکتی ہے وہ یہ عبارت ہے :

«لا تُشدُّ الرِّحالُ إلاّ إلى ثَلاثةِ مَساجِدَ: مَسجدي هذا وَ مَسجد الحرامِ و مسجدِ الأقصى». (۷)

وہ کہتا ہے کہ لا تشد الرحال کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ کسی بھی طرح کا بار سفر باندھنا اور ان تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف کوچ کرنا حرام ہے ۔

حدیث کے معنی کا تجزیہ ،

جو لوگ ادبیات عرب کے بارے میں جانکاری رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ استثنا ، دو جملوں سے بنتا ہے :

۱ ۔ مستثنی منہ ، ۲ ۔ مستثنی ،

اور یہ دونوں جملے اس مشہور مثال میں دیکھے جا سکتے ہیں : «جاء القوم الا زیداً».

جاء القوم : مستثنی منہ ،

الا زیدا : مستثنی ،

چونکہ مستثنی منہ حدیث میں نہیں آیا ہے ،تو ہم مجور ہیں کہ اس کو مقدر فرض کریں ، یہاں پر دو احتمال پائے جاتے ہیں :

الف ) مستثنی منہ لفظ مکان من الامکنہ ہے اس صورت میں حدیث کا مطلب یہ ہو گا ، دنیا میں کسی جگہ بھی بار سفر نہیں باندھا جاتا مگر ان تین مسجدوں کے لیے ۔

یقینا یہ احتمال باطل ہے اس لیے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کو صرف ان تین مسجدوں میں جانے کے لیے بار سفر باندھنا چاہیے اور اس کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی سفر نہیں کرنا چاہیے ، حالانکہ ،تجارت ، حصول علم ، صلہء ارحام ، اور گذشتہ قوموں کی زندگی سے سبق سیکھنے کے لیے سفر بالاتفاق جائز ہے قرآن فرماتا ہے : «فَسِيرُوا فِي الأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ». (۸) پس روئے زمین میں سفر کرو اور دیکھو کہ خدا کی آیات کو جھٹلانے والوں کا حشر کیا ہوا !

قرآن صاف طور پر حکم دیتا ہے کہ دین میں فہم و فراست حاصل کرنے کے لیے سفر کرو ، فرماتا ہے : «فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَة مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَ لِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ». (۹)

کیوں ان کے ایک گروہ میں سے ایک طائفہ کوچ نہیں کرتا کہ دین میں فہم و فراست حاصل کرے اور اپنی قوم کے درمیان واپس آ کر انہیں ڈرائے تا کہ وہ گناہوں سے بچیں !

اس بنا پر یہ احتمال کہ مستثنی منہ مکان من الامکنہ ہو باطل ہے ۔

ب) مستثنی منہ مسجد من المساجد ہو اس صورت میں جملہ اصل میں یہ ہوگا ؛ «لا تُشدّ الرحالُ إلى مسجد مِنَ المساجدِ الاّ الى ثلاثة» یعنی کسی مسجد کی طرف سفر نہیں کیا جاتا صرف ان تین مسجدوں کو چھوڑ کر ، یہاں دو باتوں کی یاد دہانی کروا دیں :

پہلی بات :حدیث میں بحث کا موضوع نفی و اثبات کے لحاظ سے مساجد ہیں اور یہ کہ ان تین مسجدوں کے علاوہ کہیں سفر نہیں کرنا چاہیے ۔اس صورت میں انبیاء اور اولیاء کی قبریں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر حدیث کے موضوع سے خارج ہے اور اس حدیث سے قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے قصد کا استدلال علماء کی اصطلاح میں سالبہ بہ انتفاء موضوع ہے ۔

دوسری بات : ان مسجدوں کے علاوہ کہیں اور جانے اور سفر کرنے کی نہی ارشادی ہے مولوی نہیں ، اس معنی میں کہ چونکہ ایسے سفر کا کوئی فائدہ نہیں اسی لیے جانے سے منع کیا گیا ہے اس لیے کہ جو شخص مثلا شہر اراک میں رہتا ہے اس کے لیے اس کی جامع مسجد اور دوسرے شہر کی جامع مسجد میں نماز پڑھنا یکساں ہے لہذا اس کے لیے خود کو زحمت میں مبتلا کر کے سر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔

لیکن ان تین مسجدوں میں چونکہ نماز پڑھنے کا ثواب بہت زیادہ ہے اسی لیے ان کی طرف سفر کی ترغیب اور تشویق دلائی گئی ہے ۔ حتی ہماری روایات کی روشنی میں مسجد کوفہ بھی ان مساجد میں سے ہے کہ جس میں نماز پڑھنا خاص ثواب رکھتا ہے ۔

حدیث لا تشد کی دیگر احادیث سے مخالفت ،

یہاں تک حدیث کے معنی کے بارے میں اس کے صحیح ہونے کی بنیاد پر گفتگو کی گئی ۔ یعنی اس بنا پر کہ اگر حدیث صحیح ہو تو ہم نے کہا کہ اس حدیث کا انبیاء اور اولیاء کی قبور کی زیارت کے لیے سفر سے کہ کوئی غار حرا یا غار ثور میں پڑھنا چاہے کوئی تعلق نہیں ہے

اس کے علاوہ ، یہ حدیث دوسری صحیح احادیث کے ساتھ ہمآہنگ نہیں ہے ، اس لیے کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں (۱۰) آیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر ہفتے مدینے سے مسجد قبا میں نماز پڑھنے کے لیے جایا کرتے تھے ، اور مسجد قبا ایک دیہات میں ہے جس کا نام قبا ہے کہ جو اس زمانے میں مدینے سے چھ کیلو میٹر کے فاصلے پر تھا اگر چہ اس وقت وہ مدینے سے متصل ہو چکا ہے ۔

اگر مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے سفر حرام تھا تو کیوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے سفر کرتے تھے ۔

امیر المومنین علی علیہ السلام رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے سفر کے لیے خانہء خدا کے زائرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے : «أَتِمُّوا بِرَسُولِ اللَّهِ (ص) حَجَّكُمْ إِذَا خَرَجْتُمْ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ فَإِنَّ تَرْكَهُ جَفَاءٌ وَ بِذَلِكَ أُمِرْتُمْ وَ أَتِمُّوا بِالْقُبُورِ الَّتِي أَلْزَمَكُمُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ زِيَارَتَهَا وَ حَقَّهَا» (۱۱) رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی زیارت کر کے اپنے حج کو مکمل کریں اس لیے کہ حضرت کی زیارت نہ کرنا حضرت پر جفا ء ہے اسی طرح قبور کی زیارت کے لیے جاو کہ ان کی زیارت کا تمہیں حکم دیا گیا ہے ۔

اس حدیث سے مستفاد ہوتا ہے حج کا کمال اس میں ہے کہ انسان مناسک حج سے فارغ ہونے کے بعد مدینے کا رخ کرے اور قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کر کے اپنے اعمال کو مکمل کرے اگر ایسا نہ کیا تو وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جفاء کا مرتکب ہوا ہے ۔

انسان نہ صرف قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے لیے سفر کر سکتا ہے بلکہ بدر و احد کے شہداء کی قبروں کی زیارت کے لیے بھی سفر کر سکتا ہے وہ جو حقیقت میں روشن چراغ تھے جنہوں نے جل کر راستے کو ہمارے لیے روشن کیا ۔ انہوں نے جان کی بازی لگائی تا کہ آنے والے معنوی حیات سے بہرہ مند ہو سکیں ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے سفر کو حرام کرنے کا ابن تیمیہ کا مقصد ۔

اصولا ابن تیمیہ کا ایک مقصد انبیاء اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رتبے کو گھٹانا ہے کہ جس کو قرآن و سنت نے آپ کے لیے ثابت کیا ہے ۔

مالک ابن انس کا ہارون الرشید کو عمل سے روکنا ،

مالک ابن انس (م۱۷۹ )نے دیکھا کہ عباسی خلیفہ ہارون الرشید پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کے پاس زور زور سے بول رہا تھا اس نے اس کو اس کام سے منع کیا ، خلیفہ نے پوچھا : اس بات کی تمہارے پاس کیا دلیل ہے ؟ اس نے اس آیت کی تلاوت کی : «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبي وَ لاَ تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْض أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَ أَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُونَ».(۱۲) اے ایمان والو !اپنی آوازیں پیغمبر سے اونچی نہ کرو اور ان کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کرو جس طرح کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہو ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو !

مالک ابن انس نے اس آیت کی تلاوت سے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برزخی زندگی کی جانب اشارہ کیا ہے کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں اور ان کے محضر میں آواز اونچی نہ کریں ؛ اسی لیے آنحضرت سے روایت ہے کہ : «صلّوا عَلَىّ فانَّ صلواتَكم تَصلُ إليّ» یعنی مجھ پر درود بھیجو اس لیے کہ تمہارا درود مجھ تک پہنچتا ہے ۔

موت قرآن کی نظر میں انسان کی فنا نہیں ہے بلکہ ایک گھر سے نکل کر دوسرے گھر میں جانا ہے ۔ اسی لیے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبرستان بقیع میں جاتے تھے اور خاک کے اندر سوئے ہووں کو خطاب کر کے فرماتے تھے : «السلام عليكم دار قوم مؤمنين».

دوبارہ خلیفہء عباسی نے مالک سے پوچھا : دعا کے وقت آیا ہم قبلہ کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوں یا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضریح کی طرف ِ مالک نے کہا : پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی طرف اس لیے کہ وہ تمہارے شفیع اور تمہارے جد آدم کے شفیع ہیں اور آدم نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے نجات پائی تھی ۔ (۱۳)

قرآن پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کی عظمت کے بارے میں فرماتا ہے : «وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَ كَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيماً». (۱۴) جب خدا ان کے علم کی تعریف کر رہا ہے تو ، تو خود حدیث مفصل بخوان از این مجمل ۔

قرآن روئے زمین پر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود کو عذاب الہی سے امان کا ذریعہ قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے : «وَ مَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فِيهِمْ وَ مَا كَانَ اللّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ». (۱۵) لیکن اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تک آپ ان کے درمیان موجود ہیں خدا انہیں عذاب نہیں دے گا یا جب تک یہ استغفار کریں ے خدا ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا ۔

یعنی لوگ جان لیں کہ جب تک پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں عذاب نہیں آئے گا گویا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود لوگوں اور عذاب الہی کے درمیان سپر ہے ۔ کیا اتنی عظمت کے مالک پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا سفر حرام ہے ؟ تا کہ نتیجے میں ان کو بھلا دیا جائے ۔

البتہ آئمہء معصومین علیہم السلام کی قبور کی زیارت اور شہدائے بدر و احد اور دوسرے بزرگوں کی زیارت کے بارے میں آئمہء اہل بیت علیہم السلام بے شمار حدیثیں منقول ہیں کہ جن کو یہاں پر نقل کرنے سے ہم صرف نظر کرتے ہیں ، لیکن وہ شیعوں کے لیے بہترین گواہ اور جواز ہے ان کی زیارت کے اور اس کے لیے سفر کے جائز ہونے کے لیے ۔

حوالے :

1. ۱ ۔ اعراف ؛ آیت نمبر ۱۵۷ ،

2. ۲ ۔ الغدیر ، ج۵ اس کتاب میں پیغمبر ص کی قبر کی زیارت کے لیے ۲۲ حدیثیں نقل ہوئی ہیں ،

3. ۳ ۔ آل عمران ۔ آیت نمبر ۲۰۰ ،

4. ۴ ۔ مختصر تاریخ دمشق ، ۲۶۵/۵ ، تہذیب الکمال ، ۲۸۹ / ۴ ،

5. ۵ ۔ مثیر الغرام الساکن الی اشرف المساکن : ۲۹۷/۲ ،

6. ۶ ۔ فتوح الشام ، ۲۴۴ ،

7. ۷ ۔ صحیح مسلم باب لا تشدوا الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد ، ج۴ ص ۱۲۶ ،

8. ۸ ۔ آل عمران : آیہ ۱۳۷ و نحل آیہ ۳۶ ،

9. ۹ ۔ توبہ : آیہ ۱۲۲ ،

10. ۱۰ ۔ صحیح بخاری ۷۶۷/۲ ،صحیح مسلم ۱۲۷/۴،

11. ۱۱ ۔ خصال الصدوق ج۲ ص ۴۰۶ ، بحار الانوار ج ۹۷ ص ۱۳۹ ،

12. ۱۲ ۔ حجرات ، آیہ ۲ ،

13. ۱۳ ۔ الشفاء قاضی عیاض ، ۴۱/۲ فصل ،۹

14. ۱۴ ۔ نساء : آیہ ۱۱۳ ،

15. ۱۵ ۔ انفال ،: آیہ ۳۳ ،

متعلقہ مضامین

Back to top button