سعودی ویمن رائٹر کی وزارت خارجہ کو مخاطب کرتے ہوئے تنقید "تم خادمین امام حسین علیہ السلام سے سیکھو”*
ابھی وقت آ گیا ہے کہ کہ خادمین امام حسین علیہ السلام تاریخ میں مشہور حاتم طائی اور اس جیسی دوسری مشہور شخصیات کے قدموں سے بساط جود و کرم کو اٹھا لیں. ابھی تک حاتم طائی کا نام بے پناہ جود و کرم و سخاوت کے ساتھ ملا ہوا تھا لیکن آج تاریخ کے قطب نما کا دھارا حتما تبدیل ہونا ہو گا اورضرب الأمثال کو بھی بدلنا ہو گا کیونکہ چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر جو خدمت عراقی باشندے کر رہے ہیں اسکے سامنے حاتم طائی کی بخشش و عطاء موہوم سی دکھائی دیتی ہے کیونکہ دنیا نے چند دن پہلے لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر عراق میں نجف سے کربلا کے درمیان دیکھا جو کہ تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کا دنیا کے مختلف کونوں شہروں اور علاقوں سے لاکھوں کا اجتماع تھا کہ اس جیسی پیادہ روی کی مثال کم ملتی ہے کہ جو اس یقین کے ساتھ جمع ہوئے ہوں کہ حسین سے تعلق صرف شیعہ مسلمانوں کا ہی نہی بلکہ پوری انسانیت کا ہے. اور اس لاکھوں کی ریلی میں انسان بے پناہ جود و کرم پر حیران و ششدر و انگشت بدنداں ہو جاتا ہے کہ جو چہلم سے دس دن پہلے سے شروع ہوتی ہے کیونکہ یہ جود و کرم و بخشش و عطاء مشابہ ہے ایسی عطاء کے جسکے متعلق نہ کسی کان نے سنا ہو اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہو اور نہ ہی کسی کے دل پر اسکا خطور ہوا ہو کہ جسکی توصیف نہ ممکن ہے اور اسکے متعلق کلام عاجز ہے مگر یہ کہ آپ خود ان میں سے ہوں جنکو حسین علیہ السلام کے لیے پیادہ روی کا شرف حاصل ہوا ہو. آپ اسی وقت ہی انکے دلوں میں امام حسین علیہ السلام کی عظمت و رفعت کا ادراک کر سکتے ہیں اور اسی طرح آپ زائرین کا کربلا کو جنت قرار دینے کی بھی تفسیر سے آشنا ہوں گے. اصل میں مجھے جس چیز نے مقالہ لکھنے پر ابھاڑا ہے وہ زائرین کربلا کا مادی و نفسی طور پر لا محدود جود و کرم سے بھرہ مند ہونے کا مقایسہ اپنے ملک( سعودیہ) میں بیت اللہ کے حاجیوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا کرنا ہے. مجھے پچھلے دس سالوں میں حاجیوں کے کئی قافلوں کی خدمت کی سعادت حاصل ہوئی ہے لیکن نجف سے کربلا ان پیدل چلنے والے زائرین کے بالکل برعکس جو تین دن یا اس سے بھی زیادہ تمام سہولیات جن میں کھانا، رہائش اور طبی خدمات شام ہیں یہاں تک کہ پیروں کی مالش اور جوتوں کی پالش تک کو مفت حاصل کرتے ہیں مجھے مکہ میں کچھ بھی نصیب نہی ہوا سواے ایک پانی کے ڈبے کے جو ایک دفعہ منی کے راستے میں ملا تھا. اگر زائرین کربلا کی سہولیات کا زائرین مکہ سے مقایسہ کیا جاے بلکہ مقایسہ کی کوئی گنجائش ہی نہی کیونکہ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے. زائرین کربلا سے لوگ شرف کے حصول کی خاطر مفت میں انکی خدمت کرنے کی بھیک مانگتے ہیں لیکن زائرین مکہ پر لازم ہے کہ وہ اس سالانہ بڑھتی اور آسمان کو چھوتی رہائش و کھانا و سفر کی قیمتوں کے باعث بھیک نہ مانگنے پر خدا کی حمد و ثنا بجا لائیں. پیادہ روی کے دوران اگرچہ آپ ایک ایسے ملک کی شاہراہ پر چل رہے ہوتے ہیں جو جنگ کے باعث غریب ممالک کی صف میں آ کھڑا ہے لیکن اسکے باوجود آپ اسکا مقایسہ جب ایک ایسے ترقی یافتہ ملک سے کریں کہ جہاں سالانہ لاکھوں حاجی آتے ہیں تو آپ کا سر چکرا کر رہ جائے گا. منی کی طرف رخ کیے مکہ کے میدانوں میں جب آپ پیدل چل کر تھک جائیں تو آپکے سامنے کوئی آپشن نہی بچتا سواے اسکے کہ آپ اپنے آپ کو مجبور کرتے ہوے سفر کو جاری رکھیں اگرچہ یہ آپکی ہلاکت کا سبب ہی کیوں نہ بن جائے جبکہ پیادہ روی( کربلا کی طرف) کے دوران معمولی سے معمولی سہولت بھی موجود ہے کیونکہ پورا راستہ سینکڑوں فری خیموں اور دستوں سے بھرا ہوا ہے جو کہ زائرین کے استقبال کے لیے ایک دوسرے سے سبقت کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہوتے ہیں اور انکے لیے سونے کھانے اور آرام کی سہولتیں مہیا کرتے ہیں یہاں تا کہ جو پیدل چلنے سے تھک ہار کر بیٹھ جائیں انکے بدن کی مالش اور مساج بھی کرتے ہیں. پیادہ روی کے درمیان آپکو اپنے سامان اور ضروری اشیاء کے لیجانے کی بھی ضرورت نہی کیونکہ وہاں تمام سہولتیں موجود ہیں گویا کہ آپکو ہر چیز میسر ہو جاتی ہے. اسکے علاوہ پورے راستے میں مہان نوازی کے لیے کچھ مخصوص جگہیں بھی ہوتی ہیں جہاں مختلف قسم کے کھانے، ٹھنڈے اور گرم مشروبات دیے جاتے ہیں اور یہ طویل راستہ بعض مریض اور بوڑھے حضرات تو تین دن یا اس سے بھی ذیادہ دنوں میں طے کرتے ہیں. چوبیس گھنٹے دستے اور مہمانوں کے اعزاز میں میں بنائی گئی مخصوص جگہیں مفت میں موبائل کی چارجنگ اور دنیا کے کسی بھی کونے میں اپنے عزیزوں کو کالز کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں. اور اسی راستے کے لیے ملک کے ہر گوشے سے مقامی لوگوں نے معمولی سے معمولی اور مشکل سے مشکل حاجت روائی کے لیے اپنے مال، جان، نفس اور تجربات کو وقف کر دیا. کہیں تو کوئی ڈاکٹر اور مشاور اپنے میڈیکل کیمپ کے سامنے زائرین کے علاج اور دوائیں تقسیم کرنے میں مشغول دکھائی دے گا تو کہیں کوئی مکینک اپنے آلات و اوزار سے بچوں کے واکرز کے ٹائرز صحیح کرتا دکھائی دے گا. اور دوسری طرف کوئی اس چیز پر ایمان رکھتے ہوئے کہ حسین کا پیغام تمام جوانب زندگی کے لیے ہے میز پر مختلف کتابیں لگاے ہوے ہو گا. اور علمائے دین نے تو اپنے خیمے نصب کیے ہوئے ہیں تا کہ مشاورت کے علاوہ دینی سوالوں کے جواب بھی دے سکیں اور ساتھ ہی سورتوں کی قرأت کی بھی تصحیح کریں.اور یہ سہولیات یہاں پہ ہی تمام نہی ہوتیں بلکہ آپ پیادہ روی کے دوران آپ بالکل تنگی محسوس نہی کریں گے. اگر کسی سبب سے آپکے کپڑے گندے ہو جائیں تو وہاں پر آپکو زائر کی خدمت کے لیے واشنگ مشینز، استری اور سلائی والا بھی تیار دکھائی دے گا. کربلا کی طرف اس امڈتے ہوتے لاکھوں لوگوں کے سمندر میں یخ و شدید سردی و بارش کے باوجود نہ تو صفائی والوں کی ضرورت ہے اور نہ ہی بلدیہ والوں کی، اسکا سبب خود عراقی باشندے ہیں جو بغیر کسی تفریق کے چاھے کوئی امیر ہو یا غریب پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ وہ پیادہ روی کے درمیان پورے تواضع کے ساتھ جھاڑو اٹھاے ملیں گے. میری یہ تمنا ہے کہ ہمارے ملک کی وزارت حج میں سے کوئی ایک آدمی اس پر امن عالمی پیادہ روی میں شرکت کرے جو کہ انتہا پسندی و تشدد کے خلاف ہے تا کہ وہ اس بے پناہ بخشش و عطاء کو دیکھے اور ان سادہ مزاج لوگوں سے درس لے کہ جو زائرین کی خدمت میں جو چیز بھی انکے امکان میں ہوتی ہے اسے پیش کرتے ہیں قطع نظر اس کے کہ اس چیز کی قیمت و سائز کیا ہے…. *مصنفہ… ندا آل سیاف*