سعودی عرب

آل سعود کے جرائم : ۱۴سالوںمیں90ہزار حاجی شہیدہوئے

شیعیت نیوز: سانحہ منیٰ کو ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے کہ جس میں آل سعود کی نااہلی کی وجہ سے ہزاروں حاجی لقمہ اجل بن گئے تھے۔ حال ہی میں کچھ ایسے ثبوت فراہم ہوئے ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ 14 سالوں کے دوران آل سعود نے کتنے حاجیوں کی جانیں لی ہیں۔

گزشتہ دن لبنان کے روزنامہ الاخبار نے 1321 صفحات پر مشتمل پر ایک فہرست شائع کی اور لکھا کہ چند ہفتہ قبل ہمیں یہ فہرست ملی تھی۔ مذکورہ فہرست سعودی عرب کی وزارت صحّت کی ہے جس میں گزشتہ 14 سالوں کے دوران جاں بحق ہونے والے حاجیوں کے نام ذکر کئے گئے ہیں۔

الاخبار نے مناسک حج کے تعلق سے سعودی تجربات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا: رسولخدا (ص) کے زمانے سے اب تک (1437 ہجری قمری) تک 1464 بار حج کے مناسک منعقد کئے جاچکے ہیں جن میں سے 93 حج کی میزبانی آل سعود نے کی ہے۔

1321 صفحات پر مشتمل مذکورہ فہرست میں 90 ہزار 267 حاجیوں کے نام لکھے گئے ہیں کہ جو گزشتہ 14 سالوں میں مناسک حج کے دوران شہید ہوئے ہیں۔ اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ حاجیوں کی موت سن رسیدگی اور مجمع کا دباؤ برداشت نہ کرنے کی وجہ سے واقع ہوئی ہے تب بھی اتنی بڑی تعداد کو ہضم کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ یہ تعداد کسی بڑی عالمی جنگ کے مہلوکین کی برابری کرتی ہے۔

سعودی عرب کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1990 سے 2015 تک 4500 حجاج شہید ہوئے ہیں مگر سعودی وزارت صحّت کی خفیہ فہرست سے پتہ چلتا ہے کہ ان 14 سالوں میں 90 ہزار سے زائد حجّاج شہید ہوئے ہیں۔

ان اعداد کا کیا مطلب ہے؟ ان اعداد سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی حکومت منیٰ جیسے حادثوں کے سسلے میں نہ صرف جھوٹ سے کام لیتی ہے بلکہ وہ حج انتظامات کی اطلاعات کو لوگوں سے مخفی رکھتی ہے تاکہ وہ تیل کے بعد حج کے ذریعے ہونے والی آمدنی کو اپنے ہاتھوں میں باقی رکھ سکے ۔

سعودی وزارت صحت کی فہرست سے پتہ چلتا ہے کہ بعض ممالک نے سانحہ منیٰ میں شہید ہونے والوں کے تعلق سے جو دعوے کئے ہیں وہ حقیقت سے بہت دور نہیں ہیں۔ سعودی حکام نے دعویٰ کیا کہ سانحہ منیٰ میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 769 ہے مگر بین الاقوامی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس حادثے میں 2411 افراد شہید ہوئے تھے جبکہ خفیہ فہرست بتاتی ہے کہ 7ہزار سے زائد افراد 2015 کے حج میں جاں بحق ہوئے تھے کہ جن کی زیادہ تر تعداد سانحہ منیٰ اور حرم مکّی کے کرین حادثے سے متعلق ہے۔

مصیبت یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ مذکورہ فہرست میں 1600 افراد کو نامعلوم افراد کی فہرست میں ذکر کیا گیا ہے کہ جن کا نام یا شہریت نامعلوم ہے۔ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ شہدا کی تعداد کا زیادہ تر تعلق ایران، مصر، پاکستان اور انڈونیشیا سے ہے۔

ان حادثوں کے بعد آل سعود کی نااہلی پر سوال اٹھنا یقینی ہے۔ اسلامی ممالک کے حکّام اور عوام کس بنیاد پر اس بدانتظامی پر خاموش بیٹھے ہیں اس کی وجہ معلوم نہیں ہے جب کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران دنیائے اسلام دیکھ رہی ہے کہ آل سعود حج کے انتظامات میں کس طرح نااہلی کا مظاہرہ کرہے ہیں تاکہ اس راستے سے ہونے والی کمائی فاسد شہزادوں کو ملتی رہے ۔

حاجیوں کی سکیورٹی میں آل سعود کی ناکامی سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے فاسد شہزادے ‘خدمت حرمین شریفین’ کو اپنے سیاسی و معاشی اہداف کے لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے سے اپنی دولت کو بڑھا سکیں اور اسلامی ممالک میں تکفیریت کو فروغ دے سکیں۔

ان حادثوں کے بعد نہ معلوم اسلامی ممالک کو کتنے بڑے حادثے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آل سعود کی نااہلی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔ اگر یہ بات مان لی جائے کہ کل تک لوگوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا مگر آج تو ہ ثبوت فراہم ہوگیا ہے، جب کہ بہت سے ایسے پہلو اب بھی باقی ہیں کہ جنہیں سعودی حکومت نے مخفی کررکھا ہے۔بشکریہ سچ ٹائمز

متعلقہ مضامین

Back to top button