مقالہ جات

قائد وحدت ۔۔۔۔ احساس مسئولیت کا اعلٰی نمونہ

تحریر: محمد حسن جمالی

دنیا کا ہر انسان کامیابی کا خواہاں ہے، ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کی زندگی کامیابی اور کامرانی سے گزرے۔ ناکامی اور نامرادی کا گزر اس کی زندگی میں نہ ہو، یہ خواہش فطری ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کامیابی احساس مسؤلیت سے جڑی ہوئی ہے۔ ان کے درمیان ناقابل انفکاک اتصال پایا جاتا ہے۔ کامیاب زندگی کے حصول کے لئے احساس مسئولیت سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاریخ بشریت اس بات پر گواہ ہے کہ ابتداء آفرینش سے لیکر آج تک کامیابی کا سہرا ان افراد کے سر سجھا ہے جنہوں نے اپنی زندگی  میں احساس مسئولیت کا مظاہرہ کیا۔ جنہوں نے صرف اپنے شکم کی فکر نہیں کی۔ اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر  ہوکر اجتماع اور قوم کے بارے میں سوچا۔ احساس مسئولیت ایک بہت بڑا وظیفہ ہے، جس سے کوئی بھی انسان مستثنٰی نہیں۔

احساس مسؤلیت پیدا کرنے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان فکری طور پر بیدار ہو۔ فکری بیداری سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی غافل فکر کو غفلت کی نیند سے بیدار کرے۔ اپنے خوابیدہ ضمیر کو جگائے، خود کو اجتماعی ذمہ داریوں سے آزاد مطلق نہ سمجھے، بلکہ اس اعتقاد کو اپنے ذہن میں راسخ کرے کہ اللہ رب العزت نے بے شمار نعمتوں سے ہمیں نوازا ہے، بے پناہ صلاحیتوں اور توانائیوں سے ہمیں مالا مال فرمایا ہے، تو یہ ساری نعمات یونہی بغیر کسی مقصد کے تو یقیناً نہیں دی گئی ہیں۔ اس لئے کہ ایک عام صنف اور نوع کا انسان اپنی خداداد قوت عقل کے حکم کے مطابق بدون غرض کسی دوسرے انسان کو (خواہ وہ اس کا کتنا قریبی ہی کیوں نہ ہو) بے ارزش ایک چھوٹی سی چیز دینے کے لئے حاضر نہیں ہے، ایک چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے کے لئے راضی نہیں ہے، تو خالق عقل و جہاں کے افعال و عطیات بطریق اولی باہدف ہیں۔ ان اہداف و مقاصد کی جانب خالق کائنات نے اپنی کتاب میں جابجا مکتوباً اور رہبران حق کے توسط سے شفاھاً تصریح فرمائی ہے۔ ان مقاصد تک رسائی حاصل کرنے کے لئے احساس مسئولیت کو اپنے اندر پیدا کرکے اس کو پروان چڑھانا نہایت ضروری ہے۔

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کائنات کا پورا نظام مسئولیت کی بنیاد پر قائم و دائم ہے۔ انسان کی زندگی عبارت ہے مسئولیت سے، البتہ مسئولیت کی نوعیت مختلف ہے۔ سارے انسانوں کے دوش پر ایک ہی طرح کی مسئولیت سوار نہیں، بلکہ مسئولیت میں کمی و بیشی، سنگینی و سبکی کے اعتبار سے نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ ذمہ داری، سنگین مسئولیت اہل علم و دانشمندان کے دوش پر سوار ہے۔ بدون تردید انسان کی زندگی میں علم، معرفت اور آگاہی سے بڑھ کر بافضیلت و باشرافت کوئی چیز نہیں۔ معرفت ہی سعادت دارین کی کنجی ہے۔ علم کے ذریعے ہی سے معاشرہ انسانی میں افراد بشر کو آسودگی، خوشحالی، عدل و انصاف اور پرامن زندگی کا میسر آجانا ممکن ہے۔ غرض علم نور بذاتہ و منور لغیرہ ہے۔ لیکن ثقل اکبر و ثقل اصغر نے معرفت و علم کے جو فضائل بیان کر دیئے ہیں، ان کا مصداق قرار پانے کی صرف اور صرف وہی اہل علم اہلیت اور قابلیت رکھتے ہیں، جو احساس مسئولیت کے خوگر ہوں۔

جو ہمارے موجودہ علماء کرام میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔ جس کی واضح مثال پاکستان کے مختلف مقامات پر عرصہ دراز سے تسلسل سے پیش آنے والے شیعہ کشی کے واقعات اور ظلم ستم پر علماء کی خاموشی ہے۔ ظالموں اور قاتلوں کی انسانیت سوز قبیح حرکتوں کے ردعمل میں ہمیشہ تقیہ اور مصلحتوں کا سہارا لے کر سکوت اختیار کرنا ہے۔ پاکستان میں مذہب تشیع بہت بڑا طاقتور مذہب ہے۔ علمی اور افرادی قوت سے مالا مال مذہب ہے۔ لیکن ہمارا یہ بڑا المیہ ہے کہ ہم دشمنوں کے جھانسے میں آگئے۔ ہم مختلف گروہ میں تقسیم ہوگئے۔ در نتیجہ ہم نے اپنی عظیم اجتماعی طاقت کو مفت و بلا معاوضہ دشمنوں کو تحفے میں پیش کر دیا۔ جس کی وجہ سے آج ہم پاکستان میں طرح طرح کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ہماری جان، مال اور عزت سے دشمن کھیل رہے ہیں۔ ہمارے گھر ویران ہو رہے ہیں۔ ہمارے بچے یتیمی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

پاکستان میں نہ ہمارے علماء محفوظ ہیں اور نہ ہمارے سادات۔ نہ ہمارے ڈاکٹر بچے ہوئے ہیں اور نہ ہمارے ذہین و لائق معلمین۔ نہ ہمارے فلاحی و تنظیمی کام کرنے والوں کو امنیت حاصل ہے اور نہ ہی ہمارے عزاداروں کو، بلکہ ہمیں چن چن کر مارا جا رہا ہے۔ ہمارے جوانوں، ہمارے قیمتی افراد، قومی سرمائے کو ہمارا دشمن بے دریغ ہم سے چھین رہا ہے۔ کیا پھر بھی چپ کا روزہ رکھنا قرین عقل و انصاف ہے؟ کب تک، کہاں تک؟ کیا پھر بھی قومی مشکلات و مسائل کو حل کرنے کے لئے متحد ہوکر عملی اقدامات کرنے کے بجائے ہمیں اپنا اپنا الگ گروپ بنا کر اسی کی تقویت کے لئے جان فشانی کرنا مناسب و منطقی ہے؟ علی ای حال یہ لمحہ فکریہ ہے، ہمیں سوچنا چاہئے۔ البتہ قائد وحدت حجۃ الاسلام والمسلین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری دام نے ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز حق اٹھائی ہے۔

پاکستان کے گوش و کنار میں جہاں بھی اہل تشیع پر ظلم ہوا، خواہ پاراچنار میں ہوا ہو یا گلگت بلتسان میں۔ کوئٹہ میں ہوا ہو یا کراچی و پنجاب میں، ہمیشہ انہوں نے اپنی بساط کے مطابق مظلومین کی حمایت اور ظالمین کے خلاف صدا حق بلند کی ہے۔ بدون تردید وہ ایک عظیم درد مند شخصیت ہیں۔ بڑے کمالات کے مالک ہیں۔ ان کے کمالات میں سے بارز کمال یہ ہے کہ وہ عصر حاضر کے نشیب و فراز پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ بلاشبہ ایک عبقری عالم دین اور احساس مسئولیت کا اعلٰی نمونہ ہیں۔ جذبہ فداکاری سے لبریز قوم و اجتماع کے لئے دکھ درد دل میں رکھنے والی شخصیت ہیں۔ جس کا واضح ثبوت تقریباً مسلسل تین ہفتوں سے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے کیمپ لگا کر بھوک ہڑتال کر بیٹھنا ہے۔ تکفیری دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے ہمارے لاتعداد بے گناہ شہداء کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کرنا ہے۔

قائد وحدت کی فکر شہید مظلوم قائد ملت علامہ عارف حسین الحسینی اور قائد ملت علامہ مفتی جعفر رحمۃ اللہ علیہما کی پاکیزہ فکر کا تسلسل ہے۔ ان کے بھوک ہڑتال اقدام کے ثمرات اور فوائد کسی پر پوشیدہ نہیں۔ آج ان کے بھوک ہڑتال اقدام سے ایک بار پھر ملت تشیع کے لئے اپنے شہید قائد کی یاد تازہ ہو رہی ہے۔ ظالم و جابر حکمرانوں سے اپنے غصب شدہ حقوق کو چھیننے کے لئے یہ ایک سنہرا موقع ہے۔ خدا را آیئے میدان میں۔ متحد ہوجائیں اور اپنی اجتماعی طاقت و قوت کو بروکار لاتے ہوئے ظالم حکمرانوں کو اپنے مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کروائیں۔   

متعلقہ مضامین

Back to top button