مقالہ جات

7 شعبان ولادت باسعادت حضرت قاسیم ابن الحسن علیہ سلام

قاسم امام حسن علیہ السلام کے بیٹے سن ۴۷ ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ماں کا نام ” نفیلہ”، ” رملہ” یا ” نجمہ” تھا۔ دوسال کی عمر میں والد بزرگوار کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ لہذا شہادت کے وقت تک اپنے مہربان چچا کے زیر سایہ تربیت حاصل کی۔ واقعہ کربلا میں اپنی ماں اور دیگر بھائیوں کے ساتھ موجود تھے۔

ایک روایت کے مطابق عاشور کی رات جب امام حسین علیہ السلام نے خطبہ دیا اور اپنے اصحاب و انصار سے فرمایا: کل میں اور آپ سب لوگ قتل کر دئے جائیں گے” جناب قاسم سمجھے شاید امام کا یہ خطاب صرف بڑوں سے تھا اور نوجوان اس سے مستثنی ہیں اس وجہ سے امام سے پوچھا: ” کیا میں بھی کل قتل کیا جاوں گا؟ ” امام علیہ السلام نے نہایت شفقت سے پوچھا: موت تمہارے نزدیک کیسی ہے؟  آپ نے جواب دیا: ” احلی من العسل” موت میرے نزدیک شہد سے زیادہ شیریں ہے۔

امام نے فرمایا: ہاں میرے لال تمہارے چچا تم پر فدا، خدا کی قسم تم ان لوگوں میں سے ہو جو سخت رنج و الم اٹھانے کے بعد قتل کئے جاتے ہیں۔

عاشور کے دن جب جناب قاسم کی باری آئی اجازت کے لیے مولا کی خدمت میں گئے جیسے ہی امام حسین علیہ السلام کی نظر جناب قاسم پر پڑی آپ کو اپنی آغوش میں لے لیا اور پھر دونوں اتنا روئے کہ بے حال ہو گئے جناب قاسم نے دوبارہ اجازت طلب کی امام نے اجازت دینے سے انکار کر دیا جناب قاسم نے امام حسین علیہ السلام کے ہاتھوں اور پاوں کے بوسے لینا شروع کر دئے اور اجازت کے لیے اصرار کرنے لگے آخر کار امام علیہ السلام کو راضی کر لیا۔ مگر امام علیہ السلام کی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب جاری ہو گیا۔ جناب قاسم نے میدان جہاد کا رخ کیا۔ آپ کی مادر گرامی بھی درِ خیمہ سے آپ کو دیکھ رہی تھیں آپ یہ رجز پڑھتے ہوئے جا رہے تھے:

         انْ تَنْكُرونى‏ فَأَنَا فَرْعُ الْحَسَنْ             سِبْطُ النَبىُّ المُصْطَفى وَالمؤتَمَنْ‏
 
             هذا حُسينٌ كَالاسيرِ الْمُرتَهَنْ             بين أناسٍ لا سَقَوا صُوْبُ المَزَنْ‏
اگر مجھے نہیں پہنچانتے تو سنو میں حسن کا بیٹا ہوں جو نبی مصطفی کے نواسے ہیں یہ حسین ہیں جنہیں قیدیوں کی طرح اسیر کر رکھا ہے تم لوگوں پر خدا کی رحمت کی بارش نہ ہو۔

اس کے بعد ۳۵ لعینوں کو واصل جہنم کیا اور سرانجام مقام شہادت پر فائز ہو گئے۔

لیکن طبری اور ابوالفرج اصفہانی نے آپ کی شہادت کی  کیفیت کے متعلق حمید بن مسلم سے نقل کرتے ہوئے یوں لکھا ہے:

ایک نوجوان ہماری طرف آیا کہ جس کا چہرہ چاند کی طرح چمک رہا تھا اس کے ہاتھ میں تلوار تھی اس کے بدن پر پیراہن اور شلوار اور پیروں میں نعلین تھی جس میں سے ایک کا تسمہ ٹوٹا ہوا تھا اور میں کبھی بھی بھول نہیں پاوں گا کہ وہ بائیں پیر کا تسمہ تھا۔

عمرو بن سعید ازدی نے مجھ سے کہا خدا کی قسم میں اس پر حملہ کروں گا میں نے کہا خدا کی پناہ تمہیں اس کام سے کیا ملے گا ایک لشکر نے اسے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے وہ خود ہی اس کا کام تمام کر دیں گے۔ اس نے پھر کہا خدا کی قسم میں اس پر حملہ کروں گا۔ اس نے قاسم پر تلوار سے حملہ کیا اور تلوار کو قاسم کے سر پر مارا قاسم زمین پر گرے اور آواز دی: چچا جان!

خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ حسین نے عقاب کی طرح اپنی جگہ سے حرکت کی اور ایک بپھرے شیر کی طرح قاسم کے قاتل پر ٹوٹ پڑے اور تلوار سے سخت وار کیا اس نے اپنے ہاتھ کو سپر قرار دیا اور اس کا ہاتھ کلائی سے کٹ گیا قاتل نے ایک چیخ ماری اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا عمر سعد کے لشکر کے کچھ افراد اس کی حمایت میں دوڑے تاکہ عمرو کو امام حسین علیہ السلام سے نجات دلائیں۔ لیکن ان کی کوشش ناکام رہی اور قاسم عمر سعد کے لشکر والوں کے گھوڑوں کی سموں کے نیچے جاں بہ لب ہو گئے۔

[ گھوڑوں کے دوڑنے سے گرد و غبار اٹھی] تھوڑی دیر کے بعد جب گرد و غبار کم ہوئی تو دیکھا کہ امام حسین جناب قاسم کے سرہانے کھڑے ہیں اور قاسم زمین پر ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ امام علیہ السلام اس حال میں فرما رہے تھے: جس قوم نے تمہیں قتل کیا ہے خدا کی رحمت اس سے دور ہو۔ اور قیامت کے دن آپ کے جد اس قوم کے دشمن ہوں گے”۔

پھر فرمایا : خدا کی قسم تمہارے چچا کے لیے نہایت سخت ہے کہ تم اس کو بلاو اور وہ تمہارا جواب نہ دے سکے یا اگر جواب دے بھی تو تمہیں اس کا کوئی فائدہ نہ ہو ایک ایسے دن جب اس کے دشمنوں کی تعداد زیادہ اور دوست کم ہوں۔

حمید بن مسلم کہتا ہے: اس کے بعد جناب قاسم کو اٹھایا میں نے دیکھا کہ جناب قاسم کے پاوں زمین پر گھسٹ رہے تھے اور امام حسین علیہ السلام نے اپنا سینہ جناب قاسم کے سینہ کے ساتھ لگایا ہوا تھا میں نے اپنے آپ سے کہا: حسین اس کو کہاں لے جا رہے ہیں؟ دیکھا کہ قاسم کو لے جا کر اپنے بیٹے علی اکبر اور دوسرے شہیدوں کے پاس رکھ دیا میں نے اس نوجوان کا نام پوچھا کہنے لگے کہ قاسم بن حسن ہے۔

جناب قاسم کے میدان جانے اور ان کی شادی کے بارے میں ایک مفصل داستان نقل ہوئی ہے:

ملا محسن کاشفی اس سلسلے میں جناب قاسم کے امام حسین علیہ السلام سے اذن جہاد مانگنے اور امام کے اجازت نہ دینے کے بعد بیان کرتے ہیں کہ جناب قاسم نے وہ وصیت نامہ دکھلایا جو ان کے بابا امام حسن علیہ السلام نے ان کے بازوں پر باندھا تھا اور اس میں لکھا تھا کہ ہر گز اپنے چچا کی نصرت سے دریغ نہ کرنا۔ ۔۔۔ اس کے بعد ملا محسن کاشفی حضرت قاسم کی شادی کے بارے میں بیان کرتے ہیں: ” ۔۔۔ امام علیہ السلام نے اس لڑکی کا ہاتھ پکڑا جن کی جناب قاسم کے ساتھ منگنی ہوئی تھی اور فرمایا: "اے قاسم یہ تمہارے بابا کی امانت ہے جس کے بارے میں انہوں نے وصیت کی تھی یہ آج تک میرے پاس رہی ہے اور اب تمہاری ہے”۔ اس کے بعد جناب قاسم کا ان کے ساتھ عقد پڑھا اور ان کا ہاتھ جناب قاسم کے ہاتھ میں دیا اور خیمہ سے باہر چلے آئے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں۔ "۔۔۔ جناب قاسم نے اپنی دلہن کا ہاتھ چھوڑا اور خیمہ سے باہر جانے لگے دلہن نے دامن پکڑ لیا اور کہا اے قاسم کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ جناب قاسم نے کہا: میں میدان جنگ کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میرا دامن چھوڑ دو۔ ہماری شادی اب قیامت کے دن ہو گی۔ دلہن نے کہا: میں آپ کو کہاں تلاش کروں اور آپ کی کیا علامت ہو گی؟

فرمایا: میری ان پھٹی ہوئی آستینوں سے مجھے پہچاننا۔ پھر آپ نے اپنی آستینوں کو اپنے ہاتھوں سے پھاڑ دیا۔

اس واقعہ کے کچھ لوگ موافق ہیں اور کچھ مخالف۔

ابو الحسن شعرانی جو اس واقعہ کو قبول کرنے والوں میں سے ہیں لکھتے ہیں: اگر جناب قاسم کی شادی جس طرح سے مشہور ہے صحیح ہو تو ان دو احتمالات میں سے ایک کو قبول کرنا پڑےگا۔ پہلا یہ کہ امام حسین علیہ السلام کی ایک اور بیٹی بھی تھی جن کا نام فاطمہ تھا اس فاطمہ کے علاوہ جو حسن مثنی کی زوجہ تھیں۔ چونکہ یہ بات مسلم ہے کہ آپ کی صرف دو بیٹیاں سکینہ اور فاطمہ ہی نہیں تھیں بلکہ کشف الغمہ لکھتے ہیں کہ آپ کی چار بیٹیاں تھیں: سکینہ، فاطمہ، زینب، اور چوتھی کا نام ذکر نہیں کیا۔ ابن شہر آشوب کہتے ہیں کہ آپ کی تین بیٹیاں تھیں۔

دوسری بات یہ ہے آپ کی جس بیٹی کی شادی جناب قاسم سے ہوئی ہے اس کا کچھ دوسرا نام تھا بعض راویوں نے غلطی سے اس کا نام فاطمہ لکھ دیا۔ اور اگر حضرت قاسم کی شادی کو صحیح نہ سمجھیں تو پھر یہی کہنا پڑے گا کہ وہی حضرت حسن مثنی کی شادی کو غلطی سے جناب قاسم کی طرف نسبت دے دی ہے۔۔۔۔ ”  اس کے بعد لکھتے ہیں: ” ۔۔۔ ہماری نظر میں کوئی دلیل نہیں ہے کہ ہم جناب قاسم کی شادی کا انکار کریں چونکہ ملا محسن کاشفی نے کتاب روضۃ الشہدا میں اس بات کو نقل کیا ہے ” اس کے بعد کہتے ہیں کہ ملا محسن ایک جامع اور عالم شخصیت تھیں۔ اس کے بعد لکھتے ہیں: ” ۔۔۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ یہ شادی بعید دکھائی دیتی ہے یہ درست نہیں ہے اس لیے کہ آئمہ معصومین علیہم السلام کے اعمال کی مصلحتیں ہمارے اوپر آشکار نہیں ہیں”۔

محدث نوری ان لوگوں میں سے جو اس واقعہ کے منکر ہیں۔ موصوف لکھتے ہیں: ” اس شادی کا واقعہ روضۃ الشہدا سے پہلے کسی کتاب میں موجود نہیں ہے۔ شیخ مفید سے لے کر اس زمانے[ روضۃ الشہدا ] تک شیخ مفید کی تمام تالیفات ہر طبقہ کے لوگوں کے پاس موجود ہیں لیکن کسی بھی کتاب میں اس شادی کا تذکرہ نہیں ہوا، کیسے ممکن ہے کہ یہ اتنا اہم اور با عظمت واقعہ تاریخ میں موجود ہو اور ان علماء کی نگاہوں سے نہ گزرا ہو۔ حتی ابن شہر آشوب کہ جنہوں نے صراحتا کہا ہے کہ ان کے پاس مناقب اہل بیت کی ہزار جلدیں موجود تھیں، اور اس کے علاوہ احادیث، انساب اور تاریخ کی گزشتہ معتبر کتابوں کے اندر امام حسین علیہ السلام کی کسی بھی ایسی لڑکی کا تذکرہ نہیں ہوا ہے جو اس وقت شادی کے قابل رہی ہو تاہم قطع نظر اس کے صحیح ہونے یا نہ ہونے، اس واقعہ کے واقع ہونے کا امکان پایا جاتا رہا ہو۔ لیکن زبیدہ، شہر بانو اور قاسم ثانی کا قصہ جو سر زمین ری کے عنوان سے لوگوں کی زبانوں پر ہے ایک خیالی اور وہمی قصہ ہے جس کی کوئی واقعیت نہیں پائی جاتی۔ ضروری ہے کہ کتاب رموز حمزہ اور اس  طرح کی دوسری جعلی کتابوں کی جلد پر لکھا جائے اور اس کے جھوٹ ہونے پر بہت سارے دلائل موجود ہیں۔ تمام علماء انساب اس بات پر متفق ہیں کہ قاسم بن حسن علیہ السلام کی کوئی اولاد باقی نہیں ہے”۔ پھر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتےہیں: اور اگر اس بے بنیاد روایت کا مضمون عادی امور کے خلاف ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ۔۔۔

اور نیز محدث قمی اس سلسلے میں لکھتے ہیں: یہ بات پوشیدہ نہ رہے کہ کربلا میں جناب قاسم کی جناب فاطمہ بنت الحسین علیہ السلام سے شادی کا قصہ صحت نہیں رکھتا اس لیے کہ معتبر کتابوں میں نقل نہیں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ امام حسین علیہ السلام کی دو ہی بیٹیاں تھیں ایک سکینہ کہ جو جناب عبد اللہ کی زوجہ تھیں اور دوسری فاطمہ کہ جو حسن مثنی کی زوجہ تھیں۔

زیارت ناحیہ میں جناب قاسم کو ان الفاظ کے ذریعے یاد کیا گیا ہے:

درود و سلام ہو قاسم بن حسن علیہ السلام پر کہ جن کے سر پر ضربت لگی اور جن کی ذرہ کو لوٹ لیا گیا۔ جب اپنے چچا حسین علیہ السلام کو آواز دی، حسین نے شکاری عقاب کی طرح اپنے آپ کو ان تک پہنچایا، دیکھا کہ قاسم کی روح قفس عنصری سے پرواز کر رہی ہے اس حال میں کہ زمین پر ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔۔ فرمایا: خدا کی رحمت سے دور رہے وہ قوم جس نے تمہیں قتل کیا اور قیامت میں تمہارے جد اور بابا ان کا حساب و کتاب لیں۔ اس کے بعد فرمایا: تمہارے چچا پر کتنا دشوار ہے تم اسے پکارو اور وہ تمہارا جواب نہ دے سکے یا اگر جواب دے تو تمہارے کام نہ آسکے۔ تم پہلے ہی خون میں غرق ہو چکے ہو۔ خدا کی قسم آج وہ دن ہے کہ تمہارے چچا کے دشمن بہت زیادہ ہیں اور دوست بہت کم، خدا ہمیں تمہارے ساتھ محشور کرے اس دن جب تم سب کو ساتھ میں محشور کرے گا اور مجھے تمہارے مقام پر جگہ دے۔ خدا تمہارے قاتل، عمر بن سعد بن عروہ بن نفیل ازدی پر لعنت کرے اور اسے جہنم کی آگ میں جلائے اور دردناک عذاب سے دوچار کرے۔

ترجمہ:افتخار جعفری

متعلقہ مضامین

Back to top button