مقالہ جات

خرم ذکی اور مقلدان خمینی کی سرنوشت

خرم ذکی وقت سے پہلے ہم سے جدا ہوگیا۔ اس کی نماز جنازہ سے واپسی کے بعد بھی اسے یاد کرکے روتا رہا۔ وہ مرد میدان تھا۔ یہ الفاظ سحر اردو ٹی وی کے ٹاک شو انداز جہاں میں مجھ سے پوچھے گئے سوال کا جواب تھا۔ میں نے وضاحت کی کہ وہ اس لئے وقت سے پہلے جام شہادت نوش کر گیا کہ وہ مرد میدان تھا۔ حق بات کو لکھنا یا اس کے دفاع میں بولنا، یہ کام ہم بھی کر رہے ہیں، لیکن پاکستان کی مسجد ضرار کے سامنے کھڑے ہوکر تکفیریوں کے گاڈ فادر کو للکارنا، خرم ذکی کا قابل فخر کارنامہ تھا۔ یہ خرم ذکی ہی تھا جس نے کراچی میں کالعدم دہشت گرد تکفیری گروہ کی ناک میں دم کر رکھا تھا، ان کی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے سڑک پر آکر تنہا یا اپنے مٹھی بھر دوستوں کے ساتھ احتجاج کرنا، حکمرانوں کے ایوانوں کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ جانا کہ کالعدم تکفیری دہشت گرد گروہ کے سرغنہ کو گرفتار کرو، اس کو سرکاری محافظ نہ دو، اس کو کہیں کوئی سرگرمی نہ کرنے دو، یہ کام صرف اور صرف خرم ذکی کا تھا اور اس نے اسی بے باک جدوجہد کی قیمت ادا کی۔
خرم ذکی کی شخصیت کو میں ہی پہچان سکتا ہوں، اس لئے نہیں کہ وہ میرا دوست تھا بلکہ اس لئے کہ ہم میں ایک بنیادی قدر مشترک تھی اور وہ یہ کہ ہم بائی چوائس حسینیت کے انقلابی مسلک کے پیروکار بنے۔ ایک ایسے ملک میں کہ جہاں ہم یہ نہ کرتے تو آج دنیا کے اعلٰی و بالا مرتبے ہماری قدم بوسی کر رہے ہوتے۔ لیکن ہم انقلابی تھے، انقلاب ہمارے خون میں شامل تھا اور ہمارا آئیڈیل سیدالشہداء حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام اور ان کے لائق و فائق پیروکار بھائی حضرت عباس علمدار علیہ السلام تھے۔ تاریخ اسلام میں ہمارے آئیڈیل حضرت سلمانؓ و ابوذرؓ جیسے انقلابی تھے۔ ہم انقلاب اسلامی ایران کے چاہنے والے اس لئے بنے کہ ہم خود انقلابی تھے۔ تابہ ابد سعی و تغیر کے ولی، مصطفوی! آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ آج سے 14 سال قبل جب خرم ذکی نے مجھ سے پہلی ملاقات کی تو وہ ایران اسلامی کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا مشتاق تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی ایسی ہستی سے اس کی ملاقات ہوجائے کہ اس کے ذہنوں میں جو سوالات ہیں، وہ اس کا جواب پالے۔
یہ میں تھا جس نے اسے نمائندہ ولی فقیہ کے بارے میں بتایا کہ اس ایک ہی شخصیت سے براہ راست وہ اپنے سارے سوالات کے جواب پاسکتا ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ ہماری کوئی زیادہ ملاقاتیں رہیں۔ نہیں، بلکہ بہت کم ہم آپس میں ملا کرتے تھے۔ لیکن جب بھی ملتے خرم بہت احترام کے ساتھ ملتا تھا، اپنائیت کے ساتھ۔ آخری مرتبہ ایک عشائیہ میں ملاقات ہوئی تو حیدرآباد کے ایک مناظرے کا قصہ سنانے لگا۔ ایک معروف عالم اسی گروہ سے مناظرہ ہار چکے تھے اور اس مناظرے کی وڈیو ڈیلی موشن یا یوٹیوب پر اپ لوڈ کر دی گئی تھی۔ خرم ذکی جو معروف معنوں میں عالم دین نہیں تھا، اس نے انہی لوگوں کو مناظرے میں شکست دی اور پھر اس کی وڈیو اپ لوڈ کر دی۔ خرم ذکی علمی بحث کا قائل تھا اور منطقی دلائل سے مستند تاریخی حوالوں سے، قرآن و حدیث سے حوالہ دے کر فریق مخالف کو قائل کرنے پر یقین رکھتا تھا۔ یہ ایک اور قدر مشترک تھی ہم دونوں میں کہ ہم گولی اور گالی پر یقین نہیں رکھتے تھے، بلکہ علمی و منطقی استدلاس سے بھرپور مہذب گفتگو کی بنیاد پر مخالفین کو قائل کرنے پر یقین رکھتے تھے۔
جس آخری عشائیہ میں ہماری ملاقات ہوئی، واپسی پر ہم ایک ہی گاڑی میں سوار تھے اور رضا بھائی نے خرم ذکی کو اس کے گھر ڈراپ کیا تھا۔ وہ لڑکپن سے رضا بھائی کی شفیق سرپرستی میں تھا اور رضا بھائی ہی کی وجہ سے 14 سال قبل خرم ذکی سے میری پہلی ملاقات، اسی کی خواہش پر ہوئی تھی۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ اسے گولیاں ماری گئی ہیں، اس وقت سے بے چین تھا۔ رات تین بجے تک خیرالعمل کے باہر انتظار کرتا رہا کہ کب میرے اس جری دوست کا جسد خاکی لایا جاتا ہے۔ آخری ملاقات میں تھرپارکر کی بات نکلی تو کہنے لگا کہ یہ ہمارے علماء اور خواص کی سستی و کاہلی ہے کہ وہ ان علاقوں میں تبلیغات و خدمات پر نہیں جاتے۔ میں متفق نہیں تھا، میں نے کہا کہ بعض اداروں کی سرپرستی کی وجہ سے ایک آدھ مخصوص تنظیمیں وہاں فعالیت دکھا رہی ہیں۔
خرم ذکی حقیقی معنوں میں ایک انقلابی تھا۔ اس نے مال نہیں کمایا۔ نہ وہ شہرت کا لالچی تھا۔ وہ حقیقی معنوں میں امام حسین علیہ السلام کا فرزند تھا، جو آخری سانس تک حسینیت کے انقلابی پیغام کی تبلیغ و ترویج میں مصروف رہا۔ اس کی اپنی ایک روش تھی۔ اس نے سول سوسائٹی میں شریک ہوکر آواز حق بلند کرنے کا سوچا۔ اس نے تکفیریوں کے خلاف پارلیمنٹ میں بیٹھے اہم سیاستدانوں سے ملاقاتیں کیں اور یہ ان ملاقاتوں کا نتیجہ تھا کہ ملک کے نامور سیاستدانوں نے مسجد ضرار کے تکفیری مولوی کے خلاف حکومت کو سخت ایکشن لینے کا مطالبہ کرنے پر مجبور کیا۔ حتیٰ کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی کئی مواقع پر مجبور ہوئے کہ انہوں نے مسجد ضرار کے مولوی پر دباؤ بڑھایا۔
حال ہی میں کسی نے لکھا کہ خرم ذکی کے بارے میں تحقیقاتی اداروں کو مامور کیا گیا تھا۔ مجھے یہ جان کر 1990-91ء میں اپنی لکھی ہوئی ایک رپورٹ یاد آگئی، جس میں لکھا تھا کہ کچھ صحافی مار کھا رہے ہیں اور کچھ مال۔ یہی صورتحال خرم ذکی کے ہم مسلک نام نہاد انقلابیوں کی بھی ہے کہ مال تو وہ کھاتے رہے اور کھا رہے ہیں، لیکن مار کی زد پر خرم ذکی رہا۔ میں نے پہلے عرض کیا کہ ہم حقیقی معنوں میں انقلابی ہیں اور اس مکتب میں صدائے ابوذرؓ کے عاشق ہیں۔ مال جمع کرنے والے یہ نام نہاد انقلابی کل کیا تھے اور آج کیا ہیں؟ ان کی بھوک ختم نہیں ہوتی، یہ کرائے کے مکان سے یکایک ایک ہزار گز کے بنگلوں میں منتقل ہوگئے۔ یہ ٹوٹی پھوٹی موٹر سائیکل سے کاروں کے مالک ہوگئے، لیکن مرد میدان خرم ذکی کرائے کے فلیٹ میں رہا۔ کسی نوکری پر مستقل کام نہیں کرسکا، کیونکہ اس کی حق گوئی بے باکی اسے یکے بعد دیگرے روزگار سے محروم کر دیتی تھی۔
اس کے اور میرے مشترک دوست نے ہم دونوں کی حالت پر یہ تبصرہ کیا کہ آپ لوگوں کو کوئی برداشت نہیں کرسکتا، کیونکہ آپ اصولوں کی پاسداری پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ میں اس مشترک دوست کو سی ایم ہاؤس کے سامنے دھرنے میں دیکھ کر صرف اس لئے نہیں ملا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو تعزیت نہیں دے سکتے تھے اور ہوتا کیا بس آنسو بہتے رہتے۔ جب خیر العمل میں مجھ سے ایک فعال دوست نے پوچھا کہ خرم ذکی کون تھا تو مجھے حیرت نہیں ہوئی، کیونکہ امام زمانہ کے گمنام سپاہیوں کا مقدر یہی ہے۔ خرم ذکی کو اپنوں میں کم لوگ ہی جانتے ہوں گے! اور جو جانتے ہیں، وہ بھی سرسری! وہ خرم ذکی کو شک کی نگاہ سے ہی دیکھتے رہے۔ خرم ذکی بھی میری طرح آیت اللہ العظمٰی بہشتی شہید کا عاشق تھا، اس لئے میں اس عظیم شہادت پر شہید بزرگ بہشتی ؒ کے ان الفاظ کو سمجھ سکتا ہوں اور آپ کو بھی سمجھا سکتا ہوں کہ ’’سرنوشت مقلدان خمینی چیزی جز شہادت نیست۔‘‘
میں بہشت زہراؑ کا زائر ہوں۔ دیگر شہداء اور امام الشہداء کی قبور مطہر پر کچھ قول و قرار کئے ہیں۔ خدا سے بس اتنا چاہتا ہوں کہ شہید بزرگ آیت اللہ العظمٰی سید محمد حسینی بہشتی ؒ کی تربت پاک پر کئے گئے عہد کو نبھانے تک جتنا وقت اور وسائل دستیاب ہوجائیں۔ مجھے معلوم ہے کہ بعض حوالوں سے خرم ذکی بھی پاکستان میں ایک بہشتی تھا، بعض حوالوں سے مطہری تھا۔ اس کی سرنوشت ایک مبارز کی سرنوشت ہے۔ میں بہشتی عظیم و بزرگ سے معذرت کے ساتھ ایک اور جملہ کہنا چاہتا ہوں کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے حقیقی فرزندوں کی سرنوشت یہی ہے، جو دعائے ندبہ میں بیان کر دی گئی ہے کہ کچھ ان میں سے قتل ہوئے، کچھ قیدی، کچھ پر سب و شتم کیا گیا اور کچھ آوارہ وطن۔ خرم بھی چایتا تو حدیث کساء پر اکتفا کرکے سب کچھ حاصل کرلیتا، لیکن اس نے دعائے ندبہ کا سفر طے کیا اور اس قضا کو چنا کہ جو خالق کائنات نے اپنے اور اپنے دین کے لئے خالص اولیاء کے لئے مخصوص کر رکھا ہے۔ حدیث کساء پڑھنا باعث خیر و برکت ہے، اسکے ذریعے خدا سے کچھ حاصل کر لینا کوئی ایسا فعل نہیں کہ یہاں جس کی مخالفت مقصود ہے، لیکن مکتب اہلبیت ؑ میں جو حیثیت و اہمیت اور مقام دعائے ندبہ میں بیان کردہ ان افراد کو حاصل ہے، یہاں مقصد اس کو بیان کرنا ہے۔
میں نہ تو نائیجیریا کے آیت اللہ زکراکی اور ان کے چاہنے والوں کو بھول سکا ہوں اور نہ ہی بحرین، یمن، شام کے مستضعفین کو۔ زینبیون کے جوانوں نے پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ میں ان کے لئے بھی دعاگو ہوں۔ پاراچنار کے سارے شہداء بھی مجھے یاد ہیں۔ مجھے کراچی کا سید ہاشم رضوی جیسا نوجوان بھی خون کے آنسو رونے پر مجبور کرتا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کا زخم بھی ابھی تازہ ہے۔ سعید حیدر زیدی، سبط جعفر، آفتاب حیدر، عسکری رضا اور ان گنت نام جو یہاں بیان نہیں کرسکتا۔ یہ ہماری سرنوشت ہے۔ آج جمعہ کے دن جو کہ امام زمانہ کا دن ہے، میری فریاد ہے، وہی فریاد جو مداح اہلبیت میثم مطیعی نے ایک نوحے میں بلند کی کہ شیعہ رو دارند می کشند تو دنیا، مہدی بیا! اے امام زمان پوری دنیا میں شیعہ مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے، آپ مدد کو پہنچیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button