مقالہ جات

27رجب معراج رسول (ص)

تحریر: سید عقیل حیدر  زیدی

تاریخِ اسلام میں بعثتِ پیغمبر اکرمؐ سے لے کر آنحضرتؐ کی ہجرت تک کے اہم واقعات میں سے ایک نہایت اہم واقعہ ‘‘واقعہ معراج’’ ہے۔ یہ واقعہ کب اور کس طرح پیش آیا اس کی صحیح اور دقیق تاریخی جزئیات کے بارے میں تاریخ نویسوں کے درمیان کافی زیادہ اختلاف پایا جاتاہے، بعض کہتے ہیں کہ ‘‘واقعہ معراج’’ بعثتِ پیغمبرؐ کے چھ ماہ بعد اور بعض کی رائے میں بعثت کے دوسرے، تیسرے، پانچویں، دسویں، گیارہویں یا بارہویں سال میں رونما ہوا۔  ١
علی بن ابراہیم قمی ؒ بیان کرتے ہیں کہ واقعۂ معراج ٢٧ رجب المرجب   ١٢  ؁ بعثت کی رات پیش آیا، جب خداوند عالم نے جبرائیلؑ  کوبھیج کربُراق کے ذریعہ آنحضرتؐ  کوقاب قوسین کی منزل پر بلایا اوروہاں علی بن ابی طالبؑ کی خلافت وامامت کے متعلق ہدایات فرمائیں۔  ٢
‘‘واقعہ معراج’’ کا اقرار اور اس پر عقیدہ رکھنا ضروریاتِ دین میں سے ہے، حضرت امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: ‘‘جو شخص معراج کا منکر ہے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ ٣  روایت میں ہے کہ معراج سے پہلے صرف دو نمازیں واجب تھیں اور معراج کے بعدپانچ وقت کی نمازیں مقرر ہوئیں۔
جب ہم رسول اکرمؐ کے ‘‘واقعہ معراج’’ کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو ہمارے سامنے دو عنوان آتے ہیں: ایک اسراء اور دوسرا معراج۔‘‘اسراء’’ یہ رات کے وقت آنحضرتؐ کا وہ سفر ہے جو مسجد الحرام یعنی مکہ مکرمہ سے مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس تک طے ہوا، چنانچہ اس بارے میں قرآنِ کریم کا صریح ارشاد ہے:‘‘پاک و منزہ ہے وہ ذات جس نے رات میں اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ، وہ مسجد جس کے اطراف کو ہم نے برکت دی، تک کی سیر کرائی، تاکہ ہم اپنے بندے کو اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔’’ ٤
یہ سفرجناب اُم ہانی  کے گھرسے شروع ہوا، پہلے آپؐ بیت المقدس تشریف لے گئے پھروہاں سے آسمان کے سفر پر روانہ ہوئے۔ آسمانی منازل طے کرتے ہوئے آپؐ ایک ایسی منزل پر پہنچے جس کے آگے جبرائیلؑ  کا جانا بھی ممکن نہ تھا، جبرائیلؑ  نے عرض کی حضور اب اگر ایک انگلی بھی آگے بڑھوں گا تو جل جاؤں گا۔  پھرآپؐ بُراق پر سوار آگے بڑھے، ایک منزل پر بُراق رک گیا اور آپؐ رفرف پر بیٹھ کر آگے روانہ ہوگئے یہ ایک نوری تخت تھا جو نور کے دریا میں جا رہا تھا یہاں تک کہ آپؐ منزلِ مقصود پر پہنچ گئے۔  ٥
اس آیت میں جملہ ‘‘سُبْحَانَ الَّذِی’’ اس حقیقت کو بیان کر رہا ہے کہ یہ سفر خداوند متعال کی قدرت کے پرتو میں انجام پایا تھا۔ جملہ ‘‘أَسْرٰی بِعَبْدِہِ لَیْلاً’’ سے یہ مطلب واضح ہے کہ اس سیر کی علت ذات خداوندی تھی اور اسی سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ سیر رات کے وقت ہوئی، اس کے علاوہ لفظ ‘‘لَیْلاً’’ سے بھی وہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے جو لفظ ‘‘أَسْرٰی’’ سے سمجھ میں آتا ہے، کیونکہ عربی میں یہ لفظ رات کے وقت سفر کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے، تیسری بات یہ ہے کہ یہ ‘‘سفر’’ جسمانی اور روحانی تھا اگر فقط روحانی ہوتا تو اس کے لیے لفظ ‘‘بِعَبْدِہِ’’ کے ذکر کی کوئی ضرورت پیش نہ آتی۔مذکورہ آیت کی رو سے اس سفر کا آغاز ‘‘مسجد الحرام’’ سے ہوتا ہے اور اختتام ‘‘مسجد اقصیٰ’’ پر اور آخر میں اس سفر کا یہ مطلب بتایا گیا ہے کہ خداوند متعال کو اپنی نشانیاں دکھانا مقصود تھیں۔
‘‘معراج’’ اور ملکوت اعلیٰ کی سیر کے بارے میں بہت سے محدثین اور مورخین کے نظریات کی بنیاد پر تحقیقات کی جا چکی ہیں اگرچہ سب کی متفقہ رائے یہی ہے کہ شبِ معراج، ہی شبِ اسراء ہے، یعنی یہ دونوں سفر ایک ہی رات میں انجام پائے ہیں۔  ٦ ہر چند مذکورہ بالا آیت سے پورے طور پر یہ مفہوم واضح نہیں ہوتا، لیکن سورۂ النجم کی آیت اور بہت سی ان روایات کی مدد سے جو ‘‘واقعہ معراج’’ کے متعلق ہم تک پہنچی ہیں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے۔ چنانچہ علامہ مجلسی ؒ متعلقہ آیات بیان کرنے کے بعد ‘‘واقعہ معراج’’ کے بارے میں لکھتے ہیں: رسول خداؐ  کا بیت المقدس کی جانب سفر کرنا اور وہاں سے ایک ہی رات میں آسمانوں پر پہنچنا اور وہ بھی بدن مبارک کے ساتھ، ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں ایسی آیات اور متواتر شیعہ و سنی روایات ہم تک پہنچی ہیں، جو اس واقعہ کے وقوع پر دلالت کرتی ہیں اور اس حقیقت سے انکار کرنا یا روحانی معراج کی تاویل پیش کرنا یا اس واقعہ کا خواب میں رونما ہونا، اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کہنے والے نے پیشوایانِ دین کی کتابوں کا کم تتبع کیا ہے اور یا یہ بات اس کی ایمان کی کمزوری و ضعف اعتقاد پر مبنی ہے۔  ٧
١۔ الصحیح من سیرة النبی الاعظمؐ، ج١، ص٢٢٩ – ٢٧٠
٢۔ تفسیرقمی ؒ، سورہ النجم
٣۔ سفینۃ البحار، شیخ عباس قمی ؒ، ج٢، ص١٧٤
٤۔ سورۂ اسراء، آیت١
٥۔ شرح عقائدنسفی، ص٦٨
٦۔ تاریخِ پیغمبرؐ، عبدالحسین امینی ؒ، ص١٠٩
٧۔ بحار الانوار، علامہ مجلسی ؒ، ج١٨، ص٢٨٩

متعلقہ مضامین

Back to top button