مقالہ جات

لبنان کی حزب اللہ اور ناکام سعودی مہرے

لبنان کی حزب اللہ کے خلاف امریکی صہیونی اتحادی سعودی عرب تمام تر سازشوں کے باوجود ناکام ہے۔ نہ صرف یہ کہ یہ وہابی بادشاہت خود ناکام ہے بلکہ اس کے سارے مہرے پٹ چکے ہیں۔ خلیج فارس کے خائن عرب شیوخ کی تنظیم خلیجی تعاون کاؤنسل (جی سی سی)، عرب لیگ اور اب اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی میں سعودی بادشاہت نے حزب اللہ کے خلاف بیان جاری کروایا، لیکن دنیائے اسلام و عرب میں حزب اللہ کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی اور عالم اسلام و عرب کی رائے عامہ اس ایشو پر سعودی بادشاہت کو قصور وار گردانتی ہے۔ سبھی کو معلوم ہے کہ عرب دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ فلسطین کی مقدس سرزمین پر ناجائز و غاصب صہیونیت کا قبضہ ہے، جو ایک جعلی ریاست اسرائیل کی شکل میں 1948ء سے موجود ہے۔ عرب لیگ اور او آئی سی کے بنیادی اہداف میں سرفہرست فلسطین کی آزادی ہے اور اس درست زاویہ فکر کے مطابق عالم عرب و اسلام کا سب سے بڑا دشمن صہیونیت ہے، جس کی مرکزیت جعلی ریاست اسرائیل میں ہے۔

لبنان کے عرب جانتے ہیں کہ ان کی سرزمین کے بعض حصوں پر تاحال جعلی ریاست اسرائیل کا قبضہ ہے اور شام کے عوام بھی جانتے ہیں کہ ان کا جولان کا پہاڑی علاقہ صہیونی افواج کے قبضے میں ہے۔ سعودی عرب کے عوام بھی جانتے ہیں کہ ان کے دو جزیروں پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یعنی یہ حقیقت سبھی کو معلوم ہے کہ اصل مسئلہ لبنان کی حزب اللہ نہیں بلکہ اسرائیل نامی جعلی ریاست کے نسل پرست دہشت گرد فوجی اور حکومت ہیں، جنہوں نے عرب مسلمان ممالک کی سرزمین پر ناجائز تسلط جما رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی انقلاب کے بعد کے تیونس کے سنی عرب صدر نے حزب اللہ کے خلاف سعودی الزامات کو لغو اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ وہاں کی ال نہضہ جماعت کے انقلابی رہنما راشد ال غنوشی اور مصر کے کئی رہنماؤں نے حزب اللہ پر لگائے گئے سعودی الزامات کو مسترد کرکے حزب اللہ کی مقاومت اسلامی کی حمایت پر مبنی بیانات دیئے ہیں۔

یہ ہے شیعہ مسلمانوں کی عرب مقاومتی تنظیم حزب اللہ کہ جس نے سنی عرب و عجم کے دل بھی جیت لئے ہیں۔ حزب اللہ نے اپنی پرخلوص جدوجہد و استقامت کی وجہ سے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ حزب اللہ وہ پہلی عرب تنظیم ہے کہ جس کی مقاومت کی وجہ سے صہیونی اسرائیل مئی 2000ء میں جنوبی لبنان سے فرار ہوگیا اور 2006ء کی جنگ میں تو سب نے دیکھا کہ لبنان کی حزب اللہ آخری دن تک مادر وطن لبنان کے دفاع میں ثابت قدم تھے۔ عرب دنیا میں حزب اللہ کے قائد حسن نصراللہ کو مصر کے جمال عبدالناصر سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی اور تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا کہ جمال عبدالناصر کے خلاف بھی سعودی حکومت نے سازش کی کہ ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے، لیکن اس میں بھی وہ ناکام رہی۔ جمال عبدالناصر کے خلاف سعودی سازشوں کی تفصیلات ان کی بائیو گرافی’’قاہرہ دستاویز‘‘ میں مصر کے نامور دانشور حسنین ہیکل نے تحریر کی ہیں۔

فی الحال ہمارا موضوع لبنان ہے۔ یہ موازنہ اس لئے کیا جا رہا ہے کہ نوجوانوں کو معلوم ہو کہ جب کبھی دنیائے اسلام و عرب میں کوئی حکمران یا رہنما جعلی ریاست اسرائیل کے خلاف قیام کرتا ہے تو اس رہنما یا حکمران پر نہ صرف یہ کہ صہیونی اسرائیل اور اس کے امریکی و یورپی سرپرستوں حملہ آور ہوتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ اور ان سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ سعودی وہابی بادشاہت بھی امریکی صہیونی اتحاد کا اٹوٹ انگ بن جاتی ہے۔ آج بھی سعودی بادشاہت نے کوئی نیا کام نہیں کیا ہے بلکہ اپنی اسی روش کو دہرایا ہے۔ سعودی عرب نے لبنان کے کئی سیاستدانوں کو اپنا مہرہ بنارکھا تھا اور ان کی قیادت سعد حریری کے گروہ کے سپرد کر رکھی تھی۔ سعد حریری کی سعودی عرب میں اس وقت تک خوب آؤ بھگت کی جاتی رہی، جب تک وہ سعودی اہداف پر کامیابی سے عمل کرتا رہا اور ان ایام میں لبنان کی سڑکوں اور گلیوں میں عوام کو ایک دوسرے سے متصادم کروانے کی پالیسی پر عمل کیا جاتا رہا۔ لیکن تمام تر حربے ناکام رہے۔

حزب اللہ اور اس کی قیادت تو لبنان میں ہی مقیم رہی، لیکن سعد حریری پہلے سعودی عرب میں قیام پذیر ہوئے، لیکن سعودی حکومت نے کام نکل جانے پر ان کے ساتھ سرد مہری کا رویہ دکھایا تو وہ فرانس میں قیام پذیر ہوئے۔ چار برسوں میں انہیں لبنان کی یاد ایک مرتبہ اگست 2014ء میں آئی اور پھر فرانس لوٹ گئے تھے۔ فروری 2016ء میں وہ بیروت لوٹ آئے ہیں، لیکن اب ان کی سعودی عرب میں کام کرنے والی کمپنی دیوالیہ کے قریب ہے۔ کئی ماہ سے ملازمین کو تنخواہ نہیں دی گئی ہے۔ فرانس سے وطن لوٹنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب ان کے پاس اتنا سرمایہ نہیں بچا کہ وہ وطن سے باہر عیش و عشرت کی زندگی گذاریں۔ اب وہ پھر خود کو سعودی عرب کے کام کا آدمی بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اس راہ پر چلتے ہوئے انہوں نے روس کا ایک دورہ بھی کیا ہے۔

روس کے سرکاری حلقوں سے قربت رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ وہ دو پیغامات لائے تھے۔ ایک شام کے بارے میں اور ایک لبنان کے بارے میں۔ وہ چاہتے تھے کہ روس شام اور حزب اللہ پر دباؤ ڈال کر انہیں کسی ایسے حل پر راضی کرے، جو انہیں یا با الفاظ دیگر سعودی بادشاہت کے لئے بھی قابل قبول ہو۔ لیکن سب سے زیادہ خطرناک بات جو ان کے دورے کے بارے میں رپورٹ ہوئی، وہ یہ کہ سعد حریری لبنان کے سیاسی نظام کو ہی تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور وہ شیعہ اکثریتی ملک لبنان میں مائنس شیعہ سیاسی نظام لانے کے حق میں لابنگ کر رہے ہیں، یعنی یہ جو ایک چھوٹا سا عہدہ اسپیکر پارلیمنٹ کا شیعوں کے لئے مخصوص کیا گیا، وہ بھی ختم کر دیا جائے۔ وہ مسیحی صدر والے سیاسی نظام کے بھی خلاف ہیں۔ گو کہ لبنان کا سیاسی نظام غیر عادلانہ ہے، لیکن سعودی عرب اور سعد حریری جس نظام کے لانے کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں، وہ اس سے بھی زیادہ ظالمانہ سیاسی نظام ہوگا۔

روس کے تجزیہ نگاروں نے لکھا ہے کہ سعد حریری سمیت بہت سے افراد یہ حقیقت نہیں جانتے کہ وہ روس کے بارے میں بہت زیادہ خوش فہمی کا شکار ہیں۔ روس ایسی پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ شام کی حکومت یا حزب اللہ کو پالیسی ڈکٹیٹ کرسکے۔ دوسری بات یہ کہ کیا سعد حریری کے نکات روس کے اپنے مفاد سے مطابقت بھی ر کھتے ہیں یا نہیں۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ سعودی عرب نے سعد حریری کی جگہ نئے مہرے تلاش کر لئے ہیں۔ سعودیوں کی نظر میں سعد حریری کی اہمیت ختم ہوچکی ہے، لیکن سعد حریری خود کو اہم بنانے کے لئے بیروت لوٹ آئے ہیں۔ ان کی تحریک ال مستقبل کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ہے۔ 2 مارچ کو آخری مرتبہ صدر کے الیکشن کے لئے کوشش کی گئی، جو ماضی کی طرح ناکام رہی۔ مشعل سلیمان کے بعد تاحال لبنان میں نئے صدر پر اتفاق نہیں ہو پا رہا۔ حزب اللہ نے مشعل عون کو نامزد کیا ہے جبکہ دوسری جانب سلیمان فرنجیہ میدان میں ہیں۔

حزب اللہ کی حیثیت و اہمیت پر کوئی آنچ نہیں آسکی ہے۔ حزب اللہ لبنان سے زیادہ خطرناک محاذ پر شام میں مدافع حرم بی بی زینب سلام اللہ علیہا بن کر مقاومت میں مصروف ہے۔ حزب اللہ کی کامیابیوں کا اعتراف حزب اللہ کے دشمن بھی کرچکے ہیں۔ ان دشمنوں میں سرفہرست امریکا کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن ہیں، جنہوں نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’’ہارڈ چوائسز‘‘ میں یہ ناقابل تردید حقیقت بیان کر دی کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے پاس حزب اللہ جیسی کوئی تنظیم نہیں تھی کہ جس کے جوانوں نے جنگ کا پانسہ بشار الاسد کے حق میں پلٹا دیا۔ سعودی عرب کیا امریکا سے زیادہ طاقتور ملک ہے، جو حزب اللہ کے جوانوں کے مقابلے میں کامیاب ہوسکے گا!

عالم عرب و اسلام کے دوغلے حکمرانوں کے کھوکھلے بیانات سے حزب اللہ لبنان کا کچھ نہیں بگڑا بلکہ عالم اسلام و عرب کے غیرت مند فرزندوں کے سامنے یہ حقیقت ایک اور مرتبہ بے نقاب ہوئی کہ یہ حکمران خود خائن ہیں اور ان کی خیانتوں کی وجہ سے آج ارض مقدس فلسطین پر عربوں کے خون سے صہیونی نسل پرست دہشت گرد فوجی اور انتہا پسند خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ ان خائن حکمرانوں کی وجہ سے القدس پر صہیونیوں کا کنٹرول ہے اور وہ جب چاہتے ہیں مسلمانوں پر اس کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ عالم اسلام و عرب اپنی کھوئی ہوئی عزت کی بحالی کے لئے ہر ملک میں ایک حزب اللہ کا خواہشمند ہے کہ جو بے لوث ہوکر مقبوضہ مسلمان علاقوں کی آزادی کی کامیاب جنگ لڑے۔ عالم اسلام و دنیائے عرب میں یہ رائے عامہ ہی حزب اللہ کے خلوص کی قدردانی کے لئے کافی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button